شجرممنوعہ قسم کی باتیں ۔۔۔
پارک میں بیٹھ کر ساتھ آٹھ دوستوں نے کچھ شجر ممنوعہ قسم کی باتیں کی ،وہ تمام باتیں آپ کے ساتھ شئیر کر لیتا ہوں ۔ایک دوست نے کہا بلوچستان میں جو احساس محرومی ہے اس کے زمہ دار بلوچ سردار ہیں ،اس کے جواب میں دوسرے دوست نے فرمایا بھیا بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے،ٹھیک ہے سردار ہی زمہ دار ہوں گے ،لیکن یہ سردار بھی تو کالے انگریزوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ،اگر بلوچ سردار ہی صرف بلوچستان کی پسماندگی ،غربت ،بے روزگاری کے زمہ دار ہیں تو پھر یہ ریاست قسم کام کی ہے۔ٹھیک ہے سردار اسکول نہیں کھول کر دے سکتے ،بلوچستان کے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرتے ،ہر برائی کے زمہ دار ہیں ،پھر ریاست کو آگے آکر کام کرنا چاہیئے ،بلوچ عوام کی احساس محرومیاں ختم کرنے کے لئے منصوبے بنانے چاہیئے،صرف بلوچ سرداروں کا بہانہ بناکر بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں کیا جاسکتا ۔ریاست نے ہی ان چند سرداروں کو طاقتور بنایا تھا ،دہائیوں سے ان سرداروں کو رائلٹیاں دی گئیں ،عوام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا ،ریاست کے طاقتور ادارے جب بلوچ سرداروں میں وزارتیں تقسیم کریں گے ،اور عوام کے لئے کچھ نہیں کریں گے تو مسائل تو پیدا ہوں گے ۔بلوچستان کا ایک علاقہ ہے جس کا نام ہے مکران ،وہاں کسی قسم کا سرداری نظام نہیں ہے ،وہاں کیوں ترقی نہیں ہوئی ،وہاں تو کوئی سردار نہیں ۔بلوچستان کی تباہی میں سرداروں کے ساتھ ساتھ ریاست اور اس کے طاقتور ادارے بھی برابر کے شریک ہیں ۔بھیا بگٹی ایریا میں اب اکبر بگٹی نہیں رہا ،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نواز سردار ہیں ،لیکن بگٹی ایریا میں بگٹی کے بعد بھی ترقی کیوں نہیں ہورہی،پہلے تو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ اکبر بگٹی پسماندگی کی راہ میں رکاوٹ ہے ،اب کون رکاوٹ ڈال رہا ہے؟بلوچستان کے لئے اربوں روپیئے دیئے جاتے ہیں جو طاقتور اور اقتدار میں بیٹھے لوگ آپس میں مل بیٹھ کر تقسیم کردیتے ہیں ،عوام کو کیوں کچھ نہیں ملتا؟مسئلہ یہ ہے کہ اصلاحات کرنے والے بھی بدنیت ہیں ،اس لئے بلوچستان کی پسماندگی کا زمہ دار صرف سرداروں کو قرار دیکر گوگلو سے مٹی جھاڑ دی جاتی ہے۔ایک دوست نے درمیان میں دھڑنے والوں کی بات چھیڑ دی ،دوست نے کہا یہ فیض آباد انٹر ایکسچینج والا دھڑنا لاکھوں انسانوں کے لئے عذاب بناہوا ہے ،لیکن اس کو ختم کرانے کے لئے علاقے کا معزز طبقہ کیوں خاموش بیٹھا ہے؟لوگ پریشان ہیں ،دھڑنے کی وجہ سے آٹھ ماہ کا بچہ مر گیا ،مذہبی اسالرز ،سیاستدان ،فوج سب خاموش ہیں ۔وہ حقیقی عالم جو مدرسوں ،ہجروں میں بیٹھے ہیں ،جو سیاسی نہیں ہیں ،جو سیاست میں آنا بھی نہیں چاہتے ،وہ دھڑنے والوں کے بارے میں بات ہی نہیں کرتے کہ یہ غلط کررہے ہیں ،ان کا خیال ہے کہ مذہب سیاست کے لئے نہیں ،اس حوالے سے وہ سوفیصد درست کہتے ہیں ،لیکن انہیں چاہیئے کہ وہ ان دھڑنے والوں کے بارے میں عوام کو آگہی دیں کہ وہ کیسے مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔اب مسئلہ حقیقی ہے کہ یہ جو مولوی حضرات دھرنا دیتے ہیں وہ سیاستدان زیادہ ہیں اور عالم دین بہت کم ۔کراچی کی صورتحال پر ایک دوست نے فرمایا کہ پاکستان میں جو الیکشن ہوتے ہیں اس پر پانچ سے چھ ارب کا خرچہ ہوجاتا ہے ،لوگ ووٹ دیتے ہیں ،لیکن ان کے مینڈیٹ کا استحصال ہونا شروع ہوجاتا ہے ،پاک سرزمین پارٹی طاقتور متعارف کرا دیتے ہیں جو ایک سیٹ تک نہیں جیت سکتی ۔ایک دوست نے کہا کہ اسے پنڈی سے دوست نے کال کی کہ فیض آباد میں جو دھڑنا ہورہا ہے اس میں مولوی حضرات غلیظ گالیاں دے رہے ہیں ،ڈنڈے لیکر دندنا رہے ہیں اور سر عام مرنے مارنے کی باتیں کررہے ہیں ،عدالت نے حکم دیا کہ دھڑنا ختم کیا جائے کہ ان کے مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں ،حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں ہم نہیں اٹھیں گے ،اس لئے اب حکومت کو دفاعی پوزیشن سے ایکشن کی طرف آنا ہوگا اور ان کے خلاف کاروائی کرنی ہوگی ۔ایک دوست نے کہا یاد ہے جب ممتاز قادری کا سلسلہ چل رہا تھا تو بہت سارے علماٗ نے یہ بھی کہا تھا مذہبی طبقہ اتنی حد تک نہ جائے ،سیاست کے لئے مذہب کا استعمال ایسے نہ کیا جائے ،سلمان تاثیر کے قتل کی مذہبی لوگوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی نے بھی مزمت کی تھی ،عام انسان نے کہا تھا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ،دوست کے مطابق سلمان تاثیر کے قتل کا زمہ دار میڈیا بھی ہے جس نے خوفناک اشتعال پھیلایا ۔اس ایشو کو کوریج دی جس سے سلمان تاثیر کا قتل ہوا ۔ایک دوست نے کہا یار انہوں نے دھڑنا دینا ہے تو اور بھی اسلام آباد اور پنڈی میں بہت سی جگہیں ہیں ،متبادل جگہوں پر جیسے پریڈ گراونڈ وغیرہ میں دھڑنا دیا جاسکتا تھا ۔لیکن دھڑنے والوں نے فیض آباد جیسے اسٹریٹیجک پوائنٹ کا استعمال کیا ۔ایسا ہوگا تو پھر شکوک و شبہات تو پیدا ہوں گے کہ یہ دھڑنے والے خود نہیں بیٹھے بلکہ انہیں کچھ طاقتوروں نے اپنے مقاصد کے لئے بٹھایا ہے ۔ایک دوست نے درمیان میں گفتگو میں چھلانگ لگائی اور کہا اس ملک کے تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان کے تمام انسان ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہ نظر کا خیال کریں ۔دوسرے نے کہا نہیں بھائی صاحب یہ فیض آباد پلے کارڈ ہے ،دھڑنے والوں کی تمام نسلوں سے اسلام کوآزاد کرانا ہوگا ،ورنہ ایسا ہوتا رہے گا ۔ایک بھائی نے غصے سے کہا کہ پنڈی اسلام آباد والے ڈنڈے برداروں کی وجہ سے محصور ہو کر رہ گئے ہیں ۔کاروبار بند ہے ،وہ جو روزانہ کی بنیاد پر روزی روٹی کماتے تھے ،بیچارے گیارہ دنوں سے بھوک سے بلبلا رہے ہیں ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ،اس لئے اب ان دھڑنے والے مولویوں کو چاہیئے کہ وہ انسانیت پر رحم کریں خود تو وہ وی وی آئی پی ہوٹلز میں ٹھہرتے ہیں ،مہنگی ہوٹلوں سے کھانا کھا رہے ہیں ،مدرسوں کے طالبعلموںکو ڈنڈے لیکر سڑکوں پر چھوڑا ہوا ہے ،یہ کس ریاست میں ہوتا ہے؟عدالت کا حکم بھی عدالت کے منہ پر ماردیا گیا ہے ،اس لئے ان کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے ۔آپریشن کی تیاری کر لی گئی ہے جو کہ اب اچھی بات ہے کیونکہ صورتحال اب عوام کے لئے ناقابل برداشت بن گئی ہے۔ایک دوست درمیان میں کودا اور اس نے کہا کہ اس تمام صورتحال کا زمہ دار میڈیا ہے جو اشتعال بڑھاتا ہے ،پگڑیاں اچھالتا ہے ،ان کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیئے ،خود تو یہ سارا دن اسکرین پر لوگوں کو ننگا کرتے ہیں ،انہیں زلیل کرتے ہیں اور جب ان کے خلاف ایکشن لیا جائے تو پھر یہ کہتے ہیں آزادی صحافت پر حملہ ہوگیا ۔سب مقدس اداروں کو کٹہرے میں لایا جائے ،یہ کیا بات کہ سب بیچارے سیاستدانوں کو گالیاں دے رہے ہیں ،ایک دوست نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ پاکستانی میڈیا چینلز کے پروگراموں کے اینکرز کی شعلہ بیانیاں سن سن کر پاکستانی فوج نے تو مارشل لاٗ نہیں لگایا ،لیکن زمبابوے کی فوج نے مارشل لاٗ ٹھوک دیا ۔دوست کے اس مزاحیہ سیاسی لطیفے پر تمام دوست خوب کھل کر ہنسے ۔ایک دوست نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ اس ملک میں صرف نوازشریف اینڈ فیملی ہی سب سے بڑا ایشو نہیں ہے ،لیکن میڈیا کے لئے نواز شریف ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا کا حقیقی ایجنڈا کیا ہے اور یہ کن کے حکم پر ناچ رہا ہے ،دوست نے کہا میڈیا کی زمہ داری ہے کہ وہ ڈیلیور کرے ،پاکستان کے لوگوں کے تمام بڑے اور چھوٹے مسائل پر بات کرے ،شوز اور پروگراموں کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کس طرح سیاستدانوں کو زلیل کرنا ہے ،نواز شریف کے خلاف باتیں کرنی ہیں ،لوگ یہ سن سن کر پک گئے ہیں ،وہ تھک گئے ہیں ،وہ سمجھ گئے ہیں کہ میڈیا کیا کررہا ہے اور یہ کیوں کررہا ہے؟ایک دوست نے انتہائی سنجیدگی سے فرمایا کہ میڈیا کو چاہیئے کہ وہ بلوچستان کے وسائل ،بلوچستان کی پسماندگی کی وجوہات ،بلوچستان میں دہشت گردی کی حقیقی وجوہات بتائے ،صحافت یہ ہے کہ اس میں کوئی نوگو ایریا نہیں ہوتا ۔ایک دوست نے تو کمال ہی کہہ دیا ،کہا کہ جب تک اس ملک میں ڈرائی کلینگ کی فیکٹریاں ختم نہیں ہوں گی ،پلے ،پاز کے بٹن غائب نہیں ہوں گے ،کفر اور غداری کے فتوے جاری کرنےوالی فیکٹریاں بند نہیں ہوں گی ،قومی سلامتی کے ایشو پر ڈرٹی گیم بند نہیں ہوگی ،یہ ملک ایسے ہی رہے گا ،دھڑنے بھی ہوں گے ،پی ایس پی جیسی جماعتیں بھی بنیں گی ۔بلدیہ جیسے واقعات بھی ہوں گے ،آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات بھی ہوں گے ۔باتیں کرتے کرتے اچانک رات کا اندھیرا چھانے لگا ،میں نے دوستوں سے اجازت چاہی اور پارک سے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔راستے میں یہی سوچتا رہا یہ دوستوں نے جتنی شجر ممنوعہ باتیں کی ہیں ،حقیقت میں کچھ ایسی صورتحال تو نہیں ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔