ہومو سیپئین کی دوسری ہجرت
شجر علم
پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ اگرچہ سیپئین 150,000 برس پہلے ہی مشرقی افریقہ میں آباد تھے، انھوں نے باقی سیارہ زمین پر آباد ہونا شروع کیا اور لگ بھگ 70,000 برس پہلے ہی انہوں نے دوسری انسانی نوع کو معدوم کر دیا۔ آنے والی صدیوں میں اگرچہ یہ قدیمی سیپئین ہمارے جیسے ہی دکھائی دیتے تھے اور ان کا دماغ اتنا ہی بڑا تھا جتنا کہ ہمارا تاہم ان کو دوسری کسی انسانی نوع پر کوئی شرف حاصل نہیں تھا، نہ ہی وہ کوئی خاص پیچیدہ اوزار بنا سکتے تھے اور نہ ہی کوئی دوسرے خاص کارنامے انجام دے سکتے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ پہلے سیپئین اور نیندرتھل کے درمیان مقابلے میں نیندرتھل ہی فاتح ثابت ہوئے ۔ لگ بھگ 100,000 برس پہلے کچھ سیپئین کے گروہ نے شمال سے لیونٹ ہجرت کی، جو نیندرتھل کا علاقہ تھا تاہم وہ اپنے قدم جمانے میں ناکام رہے۔ اس کی وجہ، گندے باشندے، سخت آب و ہوا، یا غیر مانوس مقامی طفیلئے ہو سکتے ہیں۔ وجہ جو بھی، ہومو آخر کار پیچھے پلٹے، اور نیندرتھل کو مشرق وسطیٰ کا آقا بنا کر چھوڑ گئے۔
کامیابی کی یہ خراب تاریخ محققین کو یہ قیاس کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان سیپئین کے دماغ کی اندرونی ساخت ممکنہ طور پر ہم سے الگ تھی۔ وہ ہماری طرح دکھائی ضرور تھے تاہم ان کی ادراکی صلاحیت – سیکھنے، یاد رکھنے اور بات چیت کی صلاحیت – کافی حد تک محدود تھی۔ اس طرح کے قدیمی سیپئین کو انگریزی پڑھانا، عیسائی عقیدے کی سچائی پر آمادہ کرنا، یا ان کو نظریہ ارتقاء سمجھانا ممکنہ طور پر ایک لاحاصل عمل ہو گا۔ اس کے برعکس ہمیں بھی ان کی زبان کو سیکھنے اور اس کے سوچنے کے عمل کو سمجھنے میں بہت مشکل ہو گی۔
لیکن تب 70,000 برس پہلے کی شروعات سے ہومو سیپئین نے بہت ہی خاص چیزیں کرنا شروع کر دیں۔ اس تاریخ تک سیپئین کے جتھوں نے افریقہ کو دوسری مرتبہ چھوڑا تھا۔ اس مرتبہ نہ صرف انہوں نے تمام نیندرتھل اور دوسرے تمام انسانی نوع کو مشرقی ایشیا سے نکال باہر کیا بلکہ زمین سے بھی ان کا نام و نشان مٹا ڈالا۔ بہت ہی مختصر عرصے میں سیپئین یورپ اور مشرقی ایشیا پہنچ گئے۔ لگ بھگ 45,000 ہزار پہلے انہوں نے کسی طرح سے کھلا سمندر پار کر لیا تھا اور آسٹریلیا میں اتر گئے تھے – ایک براعظم جو اس وقت تک انسانوں نے نہیں چھوا تھا۔ 70,000 برس سے لے کر 30,000 برس تک کے عرصے نے کشتیوں، چراغوں، تیر اور کمان اور سوئیوں (خاص طور پر گرم کپڑوں کی سلائی کے لئے ) کی ایجاد کا مشاہدہ کیا۔ وہ پہلی چیز جس کو معتبر طور پر فن پہلے مذہب، تجارت اور معاشرتی طبقات کا ثبوت کہا جا سکتا ہے وہ اسی دور کا ہے (اس کھڑے ہوئے شیرنما آدمی کو اسی صفحے پر دیکھیں ) ۔
زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ یہ بے نظیر کامیابیاں سیپئین کے ادراکی صلاحیت میں انقلاب کی پیداوار تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے نیندرتھل کو معدومیت سے دو چار کیا، آسٹریلیا میں سکونت اختیار کی اور کھڑا شیر- آدمی بنایا یہ سب ہماری طرح ذہین، تخلیقی اور حساس تھے۔ اگر ہمارا سامنا اسٹیڈل غار کے فن کاروں سے ہو تو ہم ان کی اور وہ ہماری زبان کو سیکھ سکتے ہیں۔ ہم ان کو وہ تمام چیزیں بیان کرنے کے قابل ہوں گے جو ہم جانتے ہیں – ایلس ان ونڈرلینڈ کی مہم جوئی سے لے کر کوانٹم طبیعیات کے تناقضات تک – اور وہ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ان کے لوگ کس طرح سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔
30,000 سے 70,000سال پہلے کے درمیان نئے طریقے کی سوچ اور بات چیت کے ظہور نے ادراکی انقلاب قائم کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ ہم اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ سب سے عام مانا جانے والا نظریہ کہتا ہے کہ سیپئین کے اندرونی دماغ کے رابطوں میں حادثاتی جینیاتی تقلیب نے تبدیلی کر دی، جس سے وہ بے مثال طریقے سے سوچنے لگے اور بالکل ہی نئے طریقے کی زبان سے بات چیت کرنے لگے۔ ہم اس کو شجر علم کی تقلیب کہہ سکتے ہیں۔ یہ بجائے نیندرتھل کے صرف سیپئین کے ڈی این اے میں کیوں واقع ہوا؟ یہ خالص اتفاق کی بات ہے جہاں تک ہم بتا سکتے ہیں۔ تاہم شجر علم کی تقلیب کے نتائج کو سمجھنا اس کی وجوہات کو جاننے کے بجائے زیادہ اہم ہے۔ نئی سیپئین کی زبان میں ایسی کیا خاص بات تھی جس نے ہمیں دنیا کو فتح کرنے کے قابل بنایا؟*
* یہاں اور آنے والے صفحات میں جب سیپئین کی زبان کے بارے میں بات کی جائے گی، تو میں کسی خاص زبان کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے نوع کی بنیادی لسانی قابلیت کے بارے میں حوالہ دوں گا ۔ انگریزی، ہندی اور چینی تمام کی تمام سیپئین کی مختلف زبانیں ہیں۔ بظاہر ادراکی انقلاب کے وقت پر مختلف سیپئین گروہوں کی مختلف بولیاں تھیں۔
یہ تحریر اس پیج سے لی گئی ہے۔