راسپو ٹین ۔۔۔
شیطانوں کا روسی”پیر“،راسپوٹین۔۔
”گناہوں کی تبلیغ کرنے والا“،
جسے پیر بھی کہا گیا اور شیطان بھی؛
وہ کہتا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں کلیسا اور دوسرے ہاتھ میں روس کی حکومت ہے۔ دنیا بھی میں وہ جنسی بے راہروی کی علامت بن کر رہ گیا۔۔۔
راسپوٹین کو کون نہیں جانتا۔ جنسی بے راہروی کی تاریخ اس طلسمی شخصیت کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہیں کہلا سکتی۔ وہ ایک اجڈ اور جاہل دیہاتی تھا۔ انتہا درجے کی عیاری، مکاری، عیاشی اور اوبا شی اس کی سرشت میں شامل تھی۔ شاید خالق ازلی نے اس کی ترکیب ہستی میں دیگر صفات کے علاوہ جنسی وحشت کا جوہر بھی رکھ چھوڑا تھا۔ اس کی اسی جنسی وحشت نے بعد ازاں ایسے گل کھلائے کہ شرم و حیا اور انسانیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ وہ اتنا غلیظ تھا کہ تازہ ہوا اس کے جسم سے ٹکرا کر بدبو بن جاتی تھی۔ چرب زبانی تو جیسے اسے گھٹی میں ملی تھی۔ جب وہ بولتا تھا تو مخاطبین اور معترضین کو محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں۔ راسپوٹین کی شخیصت کے تمام منفی اور قابلِ نفرت پہلوؤں کے باوجود اس کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی۔ ان لوگوں کا خیا ل تھا کہ راوسپوٹین خدا کا سچا ولی اور حامل روح اقدس ہے۔ مخالف اُسے انسان کے روپ میں شیطان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ عیاش اور بد کار خدا کا ولی کیسے ہو سکتا ہے۔
گریگوری یفیمووچ راسپوٹین روس کا ایک انتہائی عجیب، پراسرار، طاقتور اور بااثر کردار تھا جس نے زار روس کے اخیر کے دنوں میں خاص شہرت حاصل کی۔ سائبریا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونیوالے راسپوٹین کے ساتھ بچپن سے ہی عجیب و غریب کہانیاں وابستہ ہوگئیں اور اس کی روحانی قوت کے چرچے ہوگئے۔ اس کو زیادہ شہرت اس وقت ملی جب اس نے اپنے باپ کے چوری ہونیوالے گھوڑے کے چور کا نام اور مقام بتا دیا اور وہ چور پکڑا بھی گیا اورگھوڑا برآمد ہوگیا۔ بعد میں جب راسپوٹین کو پتہ چلا کہ زاروچ الیکسی بیمار ہے (اسکو ہیموفیلیا کی بیماری تھی جس میں خون نہیں رکتا)، تو وہ زارنیہ کی مدد کو چلا آیا۔ کیونکہ الیکسی گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے زخمی تھا اوراس کا خون بند نہیں ہورہا تھا اور ڈاکٹر مایوس ہوچکے تھے ایسے میں راسپوٹین نے زخمی الیکسی کو روحانی طریقے سے ٹھیک کرنے کا عزم ظاہر کیا تو زارنیہ کو ’’غرض مند دیوانہ ہوتا ہے‘‘ کے مصداق اس کو یہ ذمہ داری سونپنا پڑی اور راسپوٹین منہ میں کچھ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے تھوک کو الیکسی کے زخموں پر لگاتا گیا حتیٰ کہ اس کا خون بہنے سے رگ گیا۔ بعد کو جب بھی کبھی اس کا خون بہتا تو راسپوٹین کو طلب کرکے ’’ روحانی‘‘ طریقہ سے خون بند کروایا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے الیکسی صحت یاب ہوگیا اور راسپوٹین کو زارنیہ کا اعتماد حاصل ہوگیا اور زار روس نے راسپوٹین کو ’’مقدس شخص‘‘ اور ’’ہمارا دوست‘‘ جیسے خطابوں سے نواز دیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ اقتدار کے ایوانوں میں امن و شانتی سے رہنا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہی کچھ راسپوٹین کیساتھ ہوا اور وہ زار روس کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے متنازعہ شخصیت بن گیا بالخصوص سینٹ پیٹرز برگ کے طبقہ اشرافیہ کیلئے اس کی شخصیت ناقابل قبول تھی چرچ کی طرف سے اس کی حرکات، عادات پر کئی اعتراضات اٹھائے گئے مگر راسپوٹین متنازعہ ہونے کے باوجود زار اور زارنیہ کا منظور نظر رہا۔ اور اشرافیہ کو اسے راستے سے ہٹانے کیلئے صرف ایک طریقہ نظر آیا کہ اس کو قتل کردیا جائے۔ مگر راسپوٹین کو قتل کرنا آسان نہ تھا۔ 16 دسمبر 1916ء کی رات کو شہزادہ فیلیکس یوسفپوف اور گرینڈ ڈیوک دمتیری پاولووچ نے راسپوٹین کو اسی محل میں دعوت پر بلایا دعوت کا اہتمام محل کے تہہ خانہ میں ایک کمرے میں کیا ۔ اس کمرے میں فیلیکس اور راسپوٹین کے مجسمے بنا کرماحول کو اجاگر کیا گیا ہے۔ راسپوٹین کھانے کی میز پر بیٹھا ہے جبکہ نوجوان فیلیکس فوجی وردی میں ملبوس اس کے سامنے کرسی پر بازو دھرے کھڑا ہے میز پر کھائے ہوئے کیک کے ٹکڑے اور ریڈ وائن کی بوتل دھری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شراب اور کیک میں بڑی مقدار میں ساینائیڈ (زہر) ملا دیا یا تھا جو تقریباً 7 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے کافی تھا۔ مگر راسپوٹین نہ صرف کیک کھا گیا بلکہ شراب بھی پی گیا اور مرنے کی بجائے کرسی پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے فیلیکس یوسفپوف سے باتیں کرتا رہا۔ جس نے فیلیکس کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ فیلیکس اس سے اجازت لیکر واپس اپنے کمرے میں موجود دوستوں کے پاس گیا اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اس کو صبح ہونے سے قبل مارنے کیلئے گولیاں مار دی جائیں چنانچہ فیلیکس واپس تہہ خانے میں پہنچا اور راسپوٹین پر فائر کھول دیا، جس سے وہ زمین پر گر گیا کچھ دیر کے بعد جب فیلیکس اس کو چیک کرنے کیلئے آیا یہ مرچکا ہے اس کے قریب پہنچ کر اسے ہلایا تو راسپوٹین نے آنکھیں کھول کر فیلیکس کو گریبان سے پکڑ کر گالیاں دینا شروع کردیں اور جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ فیلیکس نے بمشکل خود کو اس سے چھڑایا اور محل کے اندر بھاگ گیا جبکہ راسپوٹین زخمی حالت میں تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھ کر لنگڑاتا ہوا، دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ فیلیکس اور اس کے ساتھیوں نے اس کا پیچھا کرکے اس پر مزید گولیاں چلائیں اور پھر اسے پکڑ کر بستر میں لپیٹا اور وزن سے باندھ کر دریائے میکا میں پھینک دیا۔ چار دن بعد راسپوٹین کی لاش دریائے نیوا سے مل گئی اور پوسٹمارٹم کی رپورٹ سے جو وجہ موت سامنے آئی وہ زہر خوانی سے تھی نہ گولیاں لکھنے سے ،بلکہ پانی میں ڈوبنے سے تھی اور یوں یہ پر اسرار کردار مرتے مرتے بھی دینا کو حیران و پریشان چھوڑ گیا۔ یوسفپوف محل کا یہ حصہ اور بغلی دروازہ آج بھی اسی طرح قائم ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔