ہندو لوگوں کو مجسموں میں بھگوان نظر آتا ہے اور ہم کو مجسمے میں شیطان نظر آتا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ بت یا مجسمے بول نہیں سکتے ہل جل نہیں سکتے تو ہم کو نفع نقصان کیسے دے سکتے ہیں اس لئے یہ خدا نہیں ہوسکتے لیکن جب بات لاہور میں موجود شیطان کے مجسمے کی آتی ہے تو ہم اس قدر خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ ہماری عقل سمجھ بوجھ سب بند ہوجاتی ہے اور مارے خوف کے ہمارا ذہن فورا صیہونی سازشیں ڈھونڈنے لگ جاتا ہے کہ اس ترقی یافتہ پاکستانی قوم کو صرف اسی طریقے سے زیر کیا جاسکتا ہے کہ لاہور کی ایک ہونہار طالبہ سے کہا جائے کہ ایک ایسا مجسمہ بناو جس میں موجود شیطانی طاقتیں پاکستانی عوام اور حکومت کو نیچا دکھا دیں اور وہ ہمارے قدموں تلے گڑگڑائیں۔
ایسی دانا قوم کو کون شکست دے سکتا ہے جو ایک ہینڈ میڈ مجسمے میں سے شیطانی قوتیں بھانپ لیں اور فورا اس کو ہٹا کر اپنی خوش قسمتی پر یہ وار بچالیں۔
قسم لے لیں ہماری ہماری تمام تر کامیابیوں میں رکاوٹ یہی مجسمہ تھا جو پہلے کسی یونیورسٹی کے آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں پڑا ہماری معیشیت، اخلاقیات اور تابناک مستقبل کا بیڑا غرق کر رہا تھا اور اب اپنے گھناؤنے عزائم لے کر عجائب گھر کے باہر آ کھڑا ہوا۔
یہ تو حد ہی ہوگئی تھی اس لئے اس کو ہٹا کر اب بے فکر ہوکر سو جانا چاہئے کہ منحوس سائے ہمارے پیارے پاکستان پر سے ٹل چکے ہیں کیونکہ اب کوئی نقلی دودھ تیار نہیں کرسکے گا۔ نا ہی اب کوئی ناپ تول میں کسی کو چونا لگا سکے گا۔ سرکاری اہلکار کسی فائل کو دبا کر پیسے نہیں مانگیں گے۔ پولیس لوٹا ہوا سامان برآمد ہونے پر پورے کا پورا سائیل کو واپس کردے گی۔ کوئی پڑوسی بھوکا نہیں سوئے گا۔ سب مذہبی رہنما اپنے اختلافات بھلا کر ایک چارپائی پر گلے لگ کر سویا کریں گے۔
اس دن کو یوم نجات مجسمہ کے طور پر منانا چاہئے کہ جس طرح پوری قوم نے متحد ہوکر اس شیطانی وار سے خود کو محفوظ کیا بلاشبہ خراج تحسین کا مستحق ہے۔
پوری پاکستانی قوم کو اس کامیابی پر بہت بہت مبارک ہو