ہر قوم کے اپنے کچھ ہیرو ہیں۔ جاپان میں اوڈا نوبوناگا، برازیل میں تراندنٹس، امریکہ میں جارج واشنگٹن، فلپائن میں ہوزے ریزال، انڈیا میں گاندھی، ایتھیوپیا کے زیرائے دیرس، امریکہ کے جارج واشنگٹن اس طرح کے ہیروز کی مثالیں ہیں۔ ایک مماثلت ان میں یہ ہے کہ یہ سب وہ تھے جنہوں نے غیرمعمولی کام کئے اور دنیا میں اپنے نشان چھوڑے۔ ان میں دوسری مماثلت یہ ہے کہ ان میں کوئی کمزوری نہ تھی۔ ان کے مخالف قوموں کے ولن تھے۔ تیسری مماثلت یہ ہے کہ ان کی یاد قوم کو متحد رکھتی ہے اور چوتھی یہ کہ یہ سب ماضی کا حصہ ہیں۔ یہ ہیرو ہماری ضرورت ہیں۔ ان میں ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ یہ اتنے ضروری ہیں کہ وہ قومیں جو ہیروز سے محروم ہو جاتی ہیں، وہ ماضی میں جا کر پھر بھی کچھ اور کردار ڈھوںڈ لیتی ہیں۔ جب البانیہ میں کمیونزم ختم ہوا اور انور ہوژے ہٹے تو نیا ہیرو پندرہویں صدی کے کردار کاستریوٹا کو بنا لیا گیا اور منگول دور بدلنے سے اب منگولیا میں ہر طرف چنگیز خان پائے جاتے ہیں۔ یہ ہیرو قوم کو انسپائر کرتے ہیں۔ یہ سب غیرمعمولی لوگ ہیں۔ ہاں، ان کی اپنی یاد کو ہم خود وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور آج کی حقیقت میں ڈھالتے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ایک ہیرو جرمنی میں گوئٹے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد نئے جرمنی کو نئے ہیروز کی ضرورت تھی۔ ہرمن نے یہ جگہ لی لیکن سب سے زیادہ جو شخص آج کے جرمن کی یاد کا حصہ ہے، وہ 1749 میں پیدا ہونے والے گوئٹے تھے۔ گوئٹے ایک ایسی غیرمعمولی شخصیت تھے۔ نہ صرف شیکسپئیر کی سطح کی لکھنے کی صلاحیت بلکہ حکومت اور پالیسی کے معاملات میں ہر قسم کا حصہ۔ ان کے نام پر ادارے، سڑکیں، عمارتیں دنی بھر میں ہیں۔ آج ان کو شاعر، ناول نگار اور فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن اگر آج یہ زندہ ہوتے تو مایوس ہوتے کہ ان کی شہرت سائنسدان کے طور پر کیوں نہیں۔ سائنسدان بننا نہ صرف ان کا شوق تھا بلکہ اس پر انہوں نے بڑا وقت بھی صرف کیا۔
انیسویں صدی کے آغاز پر انہوں نے نیوٹن کی رنگوں کی تھیوری کے خلاف تھیوری لکھی۔ اس میں انہوں ے کہا کہ رنگ روشنی کے کھیل ہیں اور روشنی کے اذیت اور اعمال سے بنتے ہیں۔ (اس جملے کا سائنس میں کوئی مطلب نہیں)۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب فوسٹ میں انہوں نے نیپچونسٹ اور پلوٹونسٹ کا مکالمہ بھی لکھا ہے کہ چٹانیں کہاں سے آتی ہیں؟ پلوٹونسٹ کے مطابق زمین کے نیچے لاوا ان کو اگلتا ہے (جو درست ہے) لیکن گوئٹے اس میں غلط سائیڈ کا انتخاب کرتے ہیں کہ یہ سمندر سے بیٹھی ہوئی گرد ہے۔
سائنس شاعری سے نہیں ہوتی۔ سائنس فلسفے سے نہیں ہوتی۔ یہ صرف سائنس سے ہی ہوتی ہے۔ آج گوئٹے کو ان کی سائنس کی وجہ سے نہیں جانا جاتا۔
لیکن گوئٹۓ کی سائنس کے میدان میں بھی ایک کنٹریبیوشن ہے۔ 1809 میں جب یہ وزیر تھے تو انہوں نے یونیورسٹی آف جینا سے ایک سائنسدان کا انتخاب کیا۔ یہ جے ڈبلیو ڈوبرینئیر تھے جن کے پاس کیمسٹری کی ڈگری نہیں تھی لیکن تجربے کرنے کے شوقین تھے۔ اس وقت کیمسٹری میں 'مثلثیں' ڈھونڈی جایا کرتی تھیں۔ لیکن ڈوبرینئیر نے گوئٹے کی سپورٹ سے کیمسٹری میں اہم کام کیا۔ ایک اہم دریافت سٹرونیم کی تھی۔
ڈوبرینئیر نے گوئٹے کے اعتماد کا ایک اور ثبوت اس وقت دیا جب انہوں نے لائٹر ایجاد کیا۔ پلاٹینم میں بہت سی ہائیڈروجن کو جذب کر کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کی دریافت اور ایجاد سے لائٹر اس وقت ڈوبرینئیر لیمپ کہلایا۔
گوئٹے کا سائنس میں براہِ راست حصہ نہیں لیکن ان کی تحریروں نے یہ تاثر پھیلانے میں کردار ادا کیا کہ سائنس ایک کرنے کا کام ہے اور اہم ہے۔ اپنے قومی ہیرو کی طرف سے یہ پیغام قوم کے لئے ضروری تھا۔ یہ اپنی شاعری سے سائنس میں اپنا حصہ ڈال تو نہیں سکے لیکن اپنی شاعری سے سائنس میں اپنا حصہ ڈال گئے۔
رنگ روشنی کی اذیت نہیں اور سمندروں کی گرد چٹانیں نہیں بناتی کیونکہ شاعری سے سائنس نہیں ہوتی لیکن گوئٹے کو یاد رکھنے کی وجہ یہ نہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی انسان تھے جو آج کے جرمنی کے ہیرو ہیں اور ان کا بھی سائنس کی تاریخ میں حصہ ہے۔
آج کے منگولیا پر ایک پوسٹ
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_465.html