:::
نئی سے نئی شاعری کی کلاسیک اور روایت کو نظریات اور تنقیدی پیمانے مسترد کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ساختیاتی حوالے سے شاعری کی روایت سے نبر آزما ہو پاتی ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ یہ روایتی شاعرانہ حوالے سے واجب تحسین بھی ہے۔ جو ایک مخصوص مظہر کا ثقافتی حوالے سے ایک نظریاتی خاکہ ضرور تشکیل دے لیتی ہے۔ مگر یہ عمل اس بات پر اکساتی ہیں کہ " حاضر موجودیت" کا روایت سےتصادم ہو۔ جس کو " فن کی رسائی" بھی کہا جاتا ہے یوں ایک سطح پر شعری متن کا تجزیاتی عمل شروع ہوتا ہے۔ جس میں ساختیاتی نظرئیے کی رموزیات اور شاعری کی وظائفیت کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ یہ شاعری کے تجزیات ، تفھیم و تشریحات کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کی ساخت کی حرکیات و سکونیات کے علاوہ ا اس کی افقی اور عمودی تحدیدات کی نقشہ بندی بھی کرتے ہیں۔ اور اس میں پوشیدہ رموزیاتی اور غیر مسحوساتی حسیّات کو کھوجتا جاتا ہے ۔ جو نئے ساختیاتی مطالبات اور پیمانوں کو روشناس کرواتے ہوئے نئے تمثالی اور پیکری شعری حسیاتی رویوں کو نئی جمالیات کی خوشبوں سے متعارف کروتے ہیں ۔ جس سے شاعرانہ مسودے کی ساخت کو مکمکنہ طور پر نسبتا آسان بنایا جاتا ہے۔ ۔ ساخت کی ساختیات میں شاعرانہ روایت کی تحدیدات مد نظر رکھتے ہوئے۔ اس میں مسودے کی ساخت کی منطق اور الجھنوں میں تخفیف کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ شاعری کے ڈھانچے یا ہیت کی تفصیلات کی منطق اور جمالیات کی تشریح کے لیے یہ ساختیاتی پیمانہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور انھیں مقتدر تصور کیا جاتا ہے۔ جس میں تخلیق کار یا شاعر اور قاری کے درمیان فکری فاضلوں اور اجنبیت کو بھی کم کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہ عمل بڑا ڈرامائی ہوتا ہے اور کبھی کبھار داستانی رنگ بھی اختیار کرلیتا ہے۔ جس میں سکہ بندی کی روایت کی " پخ" بھی حلول کرجاتی ہے۔ ساختیاتی تجزیات اور مطالعوں میں متن کے تشریحات نو پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ اوریہ تنقیدی اور تجزیاتی میکانیت اس کی درست سمتیں متعین کرنےکرنے کے خواہان ہوتی ہیں۔ اور ساختیاتی حوالے سے " غلامانہ" اور رجعت پسند تشریحات کی نشاندہی بھی کرجاتی ہیں اوریوں نئے معنیاتی افق تلاش کئے جاتے ہیں۔ جو ساختیاتی تفھیمات اور تشریحات کو نئی مشقوں کے ساتھ شاعرانہ متن کے توضیحات کا جواز پھی پیش کرتے ہیں۔ یوں یہ ہمیں غیر متوقع لگتے ہیں:
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔