شاعری شعور سے تعلق رکھتی ہے۔
ایسا کلام موزوں جو شعوری حالت میں کہا جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر مجنون اور ساحر کہا گیا یہاں شاعر سے مراد زمانہ جاہلیت کے شعرا تھے۔ سبع معلقہ کے شعرا کی طرح جس کی آخری کڑی متنبی تھے جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور محض سورہ فاتحہ کی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت پر اپنی شاعری قربان کر کے باقی ماندہ زندگی تلاوت کلام پاک پر بسر کی۔ سبحان اللہ!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار حضرت متنبی رضی اللہ کو لکھا کہ تازہ کلام لکھ بھیجیں۔ انہوں نے سورہ فاتحہ تحریر فرما کر بھیج دی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے فرمایا کہ اپنا کلام؟
جواب الجواب میں عرض کیا کہ یہ پڑھنے کے بعد کچھ لکھا نہیں گیا۔ پس عشق قرآن ہی مطمحِ نظر ہے۔
میرا نقطہء نظر
میرا عقیدہ ہے کہ شاعر بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ہاں وہ خود کو مطالعہ اور روزمرہ محاورہ اور دیگر علوم مثلاٙٙ علم الکلام، منطق، فلسفہ و تاریخ وغیرہ پڑھ کر اپنا علم و فضل بڑھا سکتا ہے جس سے شاعری میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔
سورةُ الشعراء کی آخری سات آیات میں امام الکلام میں اللہ رب العزة والشرف نے فرمایا کہ:
ھل اُنبئکم علی من تنزل الشیاطین۔
تنزل علی کُل افاک اثیم۔
یلقون السمع و اکثرھم کٰذبون۔
والشُّعراء یتبعہم الغاوُون۔
الم تر انہم فی کُل واد یہیمون۔
و انہم یقولون ما لا یفعلون۔
الا الذین اٰمنوا و عملوا الصّٰلحٰت و ذکروا اللہ کثیرٙٙا وّٙ انتصروا من بعد ما ظلموا و سیعلم الذین ظلموا ای مُنقلب ینقلبون۔
ترجمہ:
کیا میں تمہیں اس کی خبر دوں جس ہر شیاطین بکثرت اُترتے ہیں؟
وہ ہر پکّے جھوٹے، سخت گناہ گار پر بکثرت اُترتے ہیں۔
وہ ان کی باتوں پر کان دھرتے اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔
اور جہاں تک شعرا کا معاملہ ہے تو محض بھٹکے ہوئے ہی ان کی پیروی کرتے ہیں۔
کیا تو نے دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں رہتے ہیں۔
اور یقیناٙٙ ان کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔
سوائے ان کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال بجا لائے اور کثرت سے ذکر الٰہی کیا اور ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اس کا بدلہ لیا۔ اور وہ جنہوں نے ظلم کیا عن قریب وہ جان لیں گے کہ وہ کس لٙوٹنے کے مقام پر لوٹ جائی گے۔
پس مذکورہ بالا شعرا اور ایسی شاعری سے پرہیز کرنا چاہیے اور اِلّٙا کی استثنیٰ والے شاعر بننے کی دعا اور سعی کرنی چاہیے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خیال اغلب ہے کہ غالب کے پیش نظر یہی آیات تھیں جو فرمایا کہ
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
لیکن یہ بھی فرمایا کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب سریر خامہ نوائے سروش ہے
انبیاء کرام اور ان کے صحائف
انبیاء کرام علیہم السلام بلامبالغہ تشبیہات استعارات سے پُر مرصع و مقفی کلام فرمایا کرتے تھے اس لیے اس زمانہ کے لوگ انہیں اول طور پر شاعر ہی گردانتے۔
عہدنامہ قدیم میں غزل الغزلات اس کی بہت اعلی مثال ہے۔
قرآن کریم میں خصوصاٙٙ سورہ رحمان کا طرزِ کلام اس کا نادر نمونہ ہے لیکن شاعری ہر گز نہیں۔
اسی بنا پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر مجنون اور ساحر کہا گیا یہاں شاعر سے مراد زمانہ جاہلیت کے شعرا تھے سبع معلقہ کے شعرا کی طرح جس کی آخری کڑی متنبی تھے جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور سورہ فاتحہ کی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت پر اپنی شاعری قربان کر دی۔ باقی زندگی تلاوت کلام پاک پر بسر کی۔
عربی شعری ادب کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے والے حضرت متنبی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بار لکھا کہ تازہ کلام لکھ بھیجیں۔ انہوں نے سورہ فاتحہ تحریر فرما کر بھیج دی۔ حضرت فاروق رضی اللہ نے فرمایا کہ اپنا کلام بھیجیں تو انہوں نے جواب الجواب میں عرض کیا کہ یہ پڑھنے کے بعد کچھ لکھا نہیں گیا۔ پس عشق قرآن ہی مطمحِ نظر ہے۔
شاعری موہبت ہے
میرا عقیدہ ہے کہ شاعر بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے۔ شاعری کسب کا کمال نہیں بلکہ موہبت و عطائے ربانی کا جمال ہے۔ ہاں مطالعہ اور روزمرہ محاورہ اور دیگر علوم مثلاٙٙ علم الکلام، منطق، فلسفہ و تاریخ وغیرہ پڑھ کر کوئی شاعر قدرت کلام اور ندرت بیان کے اعتبار سے اپنا علم و فضل بڑھا سکتا ہے جس سے شاعری میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔
مختلف زبانیں اور شاعری
اگر آپ فصاحت و بلاغت کے سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہتے ہیں تو عربی شاعری پڑھیں۔
اگر آپ نزاکت کے آسمان چھونا چاہتے ہیں تو فارسی کلام آپ کو متمتع کر سکتا ہے۔
اگر آپ رکھ رکھاو والا کلام پڑھنا چاہتے ہیں تو اردو کلام اٹھا لیں۔
اگر آپ کسی معاملہ کو بالتفصیل پڑھنا چاہتے ہیں تو انگریزی شاعری پڑھیں۔
اگر آپ فلسفیانہ اور لٹریچر والی منطقی شاعری سے فیض پانا چاہتے ہیں تو فرانسیسی شاعری اٹھا لیں۔
اگر آپ مجاز کے حقائق جاننا چاہتے ہیں تو جرمن اور ڈینش زبان کی کتب اٹھا لیں۔
اگر آپ خیالات کو مجسم کرنا چاہتے ہیں تو ہسپانوی شاعری آپ کے لیےممد ہو گی۔ علی ہٰذا القیاس
خاکسار
احقرالعباد
احمد منیب