شاعرِ امروز
عمیر نجمی
میرے لیے کسی پر نثر میں کچھ لکھنا اُس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا کسی نثر نگار کے لیے کوئی نظم یا غزل کہنا مگر میں ادارہ بیاض کے منتظمین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مضمون کو پانچ منٹ میں ختم کرنے کی پابندی عائد کر کے میری یہ مشکل آسان کر دی ہے
اگرچہ عمیر نجمی کے پاس اچھے اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پانچ منٹ تو کیا میں ان کے سہارے ایک ڈیڑھ گھنٹہ آرام سے گزار سکتا ہوں
سو مضمون کا آغازعمیر کے اُس شعر سے کرتے ہیں جو میرے حافظے میں اُس وقت بھی موجود تھا جب میں اِس نوجوان سے ملا بھی نہیں تھا
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
میرے نزدیک شاعری پورا سچ ہے نہ پورا جھوٹ جس نے اس راز کو پا لیا اُسے خوب صورت اور قابلِ توجہ شاعری کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا عمر کے جس حصے میں عمیر نجمی پر یہ بھید کھلا ہے وہ میرے لیے باعثِ استعجاب بھی ہے اور باعثِ مسرت بھی باعثِ حیرت اِس لیے کہ جہاں اِس عمر کے نوجوان راستے کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے ہوتے ہیں عمیر نجمی نے نہ صرف وہ راستہ پالیا ہے بلکہ اُس پر سبک خرام بھی ہے اور اُس کی یہی سبک خرامی میرے لیے باعثِ مسرت ہے
سوشل میڈیا کی ہڑبونگ نے جہاں بہت سے نئے لکھنے والوں کو نقصان پہنچایا ہے وہاں کچھ لوگوں کو فائدہ بھی دیا ہے اور میری نظر میں عمیر نجمی اُن فائدہ حاصل کرنے والوں میں سے ایک ہے جس نے اپنے تخلیقی قوت کے بل بوتے پر دنوں میں وہ مقام حاصل کیا ہے جو گئے وقتوں میں لوگوں کو سالوں میں بھی مشکل سے میسر آتا تھا آج کل کے نامور شاعروں میں اِیسے شاعر بھی موجود ہیں جنہیں اپنی شاعری کا سکہ جمانے کے لیے اپنی شاعری کا کشکول اٹھا کر شہر شہر گھومنا پڑا جو یقیناً بڑے دل گردے کا کام ہے
اور اس کشٹ سے انہوں نے یقینأ فائدہ بھی حاصل کیا اور وہ بھی دہرا ……مگر فیس بک نے عمیر نجمی کو سب کچھ گھر بیٹھے بٹھائے دے دیا ہے اور وہ بھی کسی قسم کی دو نمبری کے بغیر
یہی وجہ ہے کہ سفارشوں اور سازشوں سے ترقی کی منازل طے کر کے شاعری کے گریڈ سترہ تک پہنچنے والے درجہ چہارم کے اُن شاعروں کو جن کا رزق شاعری سے وابستہ ہے اِس نوجوان کا سیدھے گریڈ سترہ میں داخلہ بہت کھٹک رہا ہے
حالانکہ بقول
اختر عثمان
ابھی تو پر بھی نہیں تولتا اڑان کو میں
بلاجواز کھٹکتا ہوں آسمان کو میں
ایک دور تھا جب شاعر کسی مستند جریدے میں چھپنا اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا تھا اور رفتہ رفتہ پہچان کے مراحل سے گزر کر اپنا اعتبار قائم کرتا تھا اور یہ عمل یقیناً شاعر کی تربیت کا باعث بھی ہوتا تھا کہ تمام مستند جرائد سال میں دو یا تین بار چھپتے تھے اور یہ عرصہ شاعر کو اپنی نئی تخلیقات کو تخلیقی خوش فہمی سے نکل کر دوبارہ دیکھنے کا موقع فراہم کرتا تھا
اگرچہ جرائد اب بھی موجود ہیں مگر سوشل میڈیا کی ناقص پزیرائی نے تربیت کے عمل کو بہت نقصان پہنچایا ہے خصوصاً نئے لکھنے والوں کو اِدھر چار اُلٹے سیدھے مصرعے ہوئے اُدھر فیس بک پر لٹکا دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سو کمنٹس اور چار سو لائکس کے جھوٹ نے نوجوان کا دماغ خراب کر دیا
فیس بک کے اِس طرح کے منظر نامے میں جب عمیر نجمی کی غزل آپ کا دامن پکڑ لے تو رک کر پڑھنا تو بنتا ہے اور جب پڑھنے کے بعد اُس کی وال سے نکلنے کو جی نہ چاہے تو آپ ایسے شاعر کی ادب سے سنجیدہ وابستگی پر کیسے انگلی اٹھا سکتے ہیں
عمیر نجمی کی جس پہلی غزل نے مجھے اُس کا گرویدہ بنایا وہ میں نے فیس بک پر پڑھی تھی اُس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
ہر اِک ہزار میں بس پانچ سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ
کہانیوں کے وہ کردار جو لکھے نہ گئے
خبر سے حذف شدہ واقعات ہیں ہم لوگ
یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ
سوشل میڈیا اب ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور بقول سعود عثمانی
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
بظاہر یہ مصرع مبالغے پر مبنی لگتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ عمر کی طرح زندگی اور اس سے جڑے لوازمات کا سفر آگے کی طرف ہوتا ہے پیچھے کی طرف نہیں
اس نوجوان کی شاعرانہ فضا منفرد اور جداگانہ ہے محبت جو اِس عمر کے ہر نوجوان کا مسئلہ ہوتی ہے اِس کا بھی ہے مگر اظہار کا جو رنگ ڈھنگ اِس نوجوان نے اپنایا ہے مجھے اِس کے ہم عمر نوجوانوں میں ارد گرد کہیں نظر نہیں آتا اور تو اور اِس نے اپنے سخن کا جو لب و لہجہ مرتب کیا ہے فیس بک پر بہت سے نوجوان مجھے اُس کے حصار میں نظر آتے ہیں
میرا یہ ماننا ہے کہ جب تک آپ اپنی ذات کو اپنی شاعری کا حصہ نہیں بناتے آپ انہیں گھسے پٹے مضامین کی جگالی توکر سکتے ہیں نئی اور تازہ کار شاعری نہیں کر سکتے
یہ نوجوان مجھے اپنے اِس شعر کی عملی تفسیر نظر آتا ہے
ہاتھ اوروں کے خرابوں میں نہ ڈالا کیجے
اپنے ملبے میں دبے شعر نکالا کیجے
اس نے بہت سے سینیرز اور جونیرز کی طرح دوسروں کے شعروں کو الٹ پھیر کے شعر مرتب کرنے کی بجائے اپنی ذات کی زنبیل سے اپنے اشعار نکالے ہیں
چند شعر دیکھیے
چاہتا ہوں کہ نظر نور سے مانوس نہ ہو
روشنی ہو مگر اتنی ہو کہ محسوس نہ ہو
اب یہ زردی بھی بھگتنا تو پڑے گی کچھ دن
میں نہ کہتا تھا ہرے رنگ میں ملبوس نہ ہو
تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں بات سمجھ
دل ودماغ ضروری ہیں زندگی کے لیے
یہ ہاتھ پاؤں اضافی سہولیات سمجھ
اس خرابے میں کچھ آگے وہ جگہ آتی ہے
کہ جہاں خواب بھی ٹوٹے تو صدا آتی ہے
میں نے زندان میں سیکھا تھا اسیروں سے اک اسم
جس کو دیوار پہ پھونکیں تو ہوا آتی ہے
کتنی جلدی دیا گھر والوں کو پھل اور سایہ
مجھ سے تو پیڑ کی رفتار زیادہ نکلی
کوئی روزن نہ جھروکا نہ کوئی دروازہ
میری تعمیر میں دیوار زیادہ نکلی
اک دن زباں سکوت کی پوری بناوں گا
میں گفتگو کو غیر ضروری بناوں گا
تجھ کو خبر نہ ہو گی کہ میں آس پاس ہوں
اس بار حاضری کو حضوری بناوں گا
ضرر رساں ہوں بہت آشنا ہوں میں خود سے
جَھی تو فاصلہ رکھ کر کھڑا ہوں میں خود سے
جھگڑتے وقت زرا بھی لحاظ رکھتا نہیں
اگرچہ عمر میں کافی بڑا ہوں میں خود سے
اس نوجوان کا کلام جدید تر ہونے کے ساتھ ساتھ روایت سے بھی مکمل طور پر جڑا ہوا ہے اس نوجوان نے انفراد کے نام پر نہ ہی انگریزی لفظیات کا سہارا لیا ہے اور نہ اپنے کلام کو سائنس فکشن بنانے کی کوشش کی ہے اس نے بڑے محتاط انداز میں دوسری زبانوں کے انہیں الفاظ کو اپنی غزل میں جگہ دی ہے جنہیں غزل نے خوش دلی سے قبول کیا ہے ورنہ زیادہ تر اس نوجوان نے نئی تلازمہ کاری سے مضامینِ تازہ کی بنیاد رکھی ہے اور وہ بھی ابلاغ سے بھر پور
کسی بھی لکھنے والے کے لیے لفظوں کا وہی زخیرہ ہے جو صدیوں سے برتا جا رہا ہے اور برتا جاتا رہے گا لحاظہ کوئی بھی لکھنے والا اس لغت کو تو نہیں بدل سکتا نئی تلازمہ کاری سے نئی شعری لغت ضرور ترتیب دے سکتا ہے اس نوجوان نے نہ صرف نئی زمینوں کا انتخاب کیا ہے بلکہ انہیں نئے قرینوں سے آباد بھی کیا ہے
اس نوجوان کی غزلوں کے اکثر اشعار صرف سنائی ہی نہیں دیتے بالکہ آپ اگر زرا سا غور کریں تو وہ آپ کو دکھائی بھی دیں گے
شاید ایسی شاعری کے لیے مجھ سے یہ شعر سر زد ہوا تھا
سنائی دینے سے آگے نکل گئی ہے غزل
جو سنتے وقت دکھائی بھی دے جدید سمجھ
یہ اشعار دیکھیں
تین کونوں سے نکلتے ہیں گھٹن خوف سکوت
میں سرکتا ہوا چوتھے میں دُبک جاتا ہوں
صحن میں پھرتی ہے برسوں کی سدھائی ہوئی یاد
جب بھی پچکار کے کہتا ہوں کہ آ آتی ہے
وہ ہجر تھا جس نے نم کیا اور بل نکالے
میں جتنا سیدھا ہوں اس کا بالکل الٹ رہا ہوں
عمیر کی شاعری ایک عجب قسم کی تمثال گری ہے جو پڑھنے والے کو بیک وقت صوتی بصری اور جمالیاتی سطحوں پر متاثر کرتی ہے
جس ایوارڈ کا آج یہ حق دار ٹھہرا ہے یہ واقعی اس کو ملنا چاہیے تھا نئی نکور زمینوں میں نئے طنتنے کے ساتھ کہے گئے شعروں کو دیکھ کر میں نے اِسے رسائل میں چھپنے کا مشورہ دیا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میرے اس مشورے پر عمل کر کے اس نے اپنی غزلوں اور ان کی زمینوں کو پیٹنٹ کروایا ادارہ بیاض بھی اس جوہر شناسی اور ادب نوازی پر تحسین کا مستحق ہے
شکریہ
نوٹ
یہ مضمون اُتنا ہی تھا جتنا کسی نئے لکھنے والے کے لیے پانچ منٹ کے مختصر دورانیے میں ہونا چاہیے مگر تقریب میں
عباس تابش صاحب نے سٹیج پر اِس بات کا اظہار کیا کہ میرا مضمون عمیر نجمی کی شاعری کے شایانِ شان نہیں تھا شاید انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ مجھے اظہارِ خیال کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے تھے
سو میں نے اُن کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اِس میں کچھ اضافہ کیا ہے اب بھی اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو معزرت خواہ ہوں
اُن دوستوں سے خصوصی معزرت جنہیں عباس تابش صاحب کی وجہ سے اتنی طویل تحریر کےعذاب سے گزرنا پڑا کہ میں خود فیس بک کی اتنی لمبی تحریر نہیں پڑھتا
اگرچہ اس مختصر تحریر میں بھی یہی سب کچھ تھا
اور عمیر نجمی کو شاعرِامروز کے انعام کی مبارکباد کے ساتھ تنبیہ کہ وہ میرے تقریب میں پڑھے گئے مضمون کو اپنے لیے کافی سمجھے اور اس اضافے پر بالکل توجہ نے دے کہ اُس کی شاعری کو نہ میرے پانچ صفحوں کے مضمون نہ عباس تابش صاحب کے لکھے گئے کسی کتابچے کی ضرورت ہے اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ اس کی اپنی شاعری کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کی ہے جو اس میں بدرجہ اتم موجود ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“