پاکستان کے سول افسران میں ڈپٹی کمشنر سب سے زیادہ بااختیار یا پاور فل ہوتا ہے ۔ پولیس میں ایس ایچ او اور محکمہ روینیو میں پٹواری ۔ یعنی پاکستان میں اگر اختیارات کا جائزہ لیا جائے تو یہی وہ 3 افسران اور اہلکار ہیں جن کے قلم سے قوم کی تقدیر بنتی اور بگڑتی ہے ۔ ان اختیارات کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ان تینوں کو اکثر حکمران قومی مفاد کی بجائے اپنی مرضی اور ذاتی مفادات کی خاطر ریموٹ کنٹرول کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ تاہم اس کے باوجود یہ لوگ کسی حد تک اپنی مرضی اور اپنے ذاتی اور کبھی خلق خدا کی بھلائی کے لیے بھی اپنے اختیارات استعمال کر جاتے ہیں ۔ عام طور پر ڈی سی، ایس ایچ او اور پٹواری کی تعیناتی اور تقرریاں علاقہ کے ایم پی اے اور ایم این اے کی مرضی سے کی جاتی ہیں اس لیئے پھر یہ لوگ اپنی مرضی کے نہیں رہتے ۔ جہاں حکمران جماعت کے ایم پی اے اور ایم این اے نہیں ہوتے وہاں ان تینوں افسران کی تعیناتی اس صورت میں کی جاتی ہے کہ وہ وہاں پر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنائیں اور وہاں حکمران جماعت کے عہدے داروں کے ساتھ خصوصی تعاون کریں ۔ ڈپٹی کمشنر اگر ادیب اور شاعر ہو تو وہ اپنی برداری کو بہرحال کچھ نہ کچھ اخلاقی، مالی اور انتظامی فائدہ پہنچانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔
پاکستان کے مشہور شاعر مصطفے زیدی ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنے عہدے کو ادباء اور شعراء کو اگر فائدہ نہ بھی پہنچایا ہو لیکن نقصان بھی نہیں ہونے دیا ۔ وہ ڈپٹی کمشنر نواب شاہ تعینات تھے اور مشہور شاعر محسن بھوپالی حیدر آباد میں ایک محکمہ میں ملازم تھے ۔ اس دوران مصطفے زیدی نے نواب شاہ میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے محسن بھوپالی کو بھی مدعو کیا ۔ مشاعرے میں شرکت کے ایک ہفتے بعد محسن بھوپالی صاحب کو ان کے محکمہ کے ایکسیئن یعنی ایگزیکٹو انجنیئر نے اپنے دفتر میں طلب کر کے جواب طلبی کا نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے بغیر چھٹی کے مشاعرے میں شرکت کی ہے جس کے لیے آپ کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ محسن صاحب پریشان ہو گئے اور مصطفے زیدی صاحب کو فون کر کے اس صورت حال سے آگاہ کیا ۔ مصطفے زیدی نے متعلقہ انجنیئر کو فون کر کے کڑکدار آواز میں کہا کہ میں ڈپٹی کمشنر ہوں اور مجھے یہ اختیار ہے کہ میں جس کو جب چاہوں کسی بھی سلسلے میں طلب کر سکتا ہوں اور بلا سکتا ہوں محسن بھوپالی صاحب کو میں نے مشاعرے میں بلایا تھا آپ ان کی حیثیت سے واقف ہی نہیں ہیں ان کے خلاف جاری نوٹس واپس لے لیں ۔ مذکورہ انجنیئر کے پسینے چھوٹ گئے اور مصطفے زیدی صاحب کے ساتھ ساتھ محسن بھوپالی صاحب سے بھی معذرت کر لی ۔
مصطفے زیدی صاحب لاہور میں ڈپٹی کمشنر تعینات تھے ۔ ایک دن ان کے اہلکار نے آواز لگا کر ایک شخص کو ان کے سامنے پیش ہونے کے لئے نام لیتے ہوئے کہا کہ مسمی محمد طفیل حاضر ہو۔ اس نام پر مصطفے زیدی صاحب چونک گئے جب ملام حاضر ہوا تو وہ نقوش کے چیف ایڈیٹر محمد طفیل صاحب تھے ۔ مصطفے زیدی نے اپنا پروٹوکول بالائے طاق رکھ کر طفیل صاحب کا کھڑے ہو کر استقبال کیا اور اپنے اسسٹنٹ سے استفسار کیا کہ ان کا کیا جرم ہے جواب ملا کہ انہوں نے اپنے رسالے میں فحش مواد چھاپا ہے ۔ مصطفے زیدی صاحب نے کہا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ محمد طفیل صاحب اس طرح کی حرکت کریں اور انہوں نے اسی وقت ان کا کیس ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ طفیل صاحب کے قد کاٹھ سے واقف نہیں ہیں ۔
1995 میں ،میں نے اپنی تنظیم بلوچستان سوشل اکیڈمی کے زیر اہتمام جشن ڈیرہ مراد جمالی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس وقت بلوچی زبان کے معروف ادیب و شاعر عبدالغفار ندیم بلوچ نصیر آباد کے کمشنر تھے جو کہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے بڑے بھائی تھے جبکہ ادب دوست شخصیت جواد رفیق ملک صاحب ڈپٹی کمشنر نصیرآباد تھے جو اس وقت پنجاب کے چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہیں ۔ ان دونوں نے مجھ سے بھرپور تعاون کیا جن کی بدولت بہترین مشاعرے اور محفل موسیقی کا انعقاد ہو سکا ۔ ان کے بعد ایک لکھاری ڈپٹی کمشنر ظفراللہ بلوچ اور ادب دوست شخصیت ظفر اقبال کمشنر نصیرآباد تھے ان کے تعاون سے جشن ڈیرہ مراد جمالی کی شاندار تقریبات کا اہتمام کیا گیا جبکہ 1993 میں انگریزی کے مشہور شاعر حفیظ الرحمن صاحب کمشنر نصیرآباد تعینات ہوئے انہوں نے بھی مجھ سے بھرپور تعاون کرتے ہوئے مشاعرے منعقد کرائے اور ایک لائبریری بھی قائم کرا دی لیکن جب سے نصیرآباد میں ادیب و شاعر قسم کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی ختم ہوئی تو اس وقت سے نصیرآباد میں علمی اور ادبی سرگرمیاں بھی ختم ہو کر رہ گئیں ۔