بلوچستان میں جن 2شعرا نے سب سے زیادہ عوامی مقبولیت اور شہرت حاصل کی ہے وہ میر گل خان نصیر اور عطا شاد ہیں . اتفاق سے یہ دونوں اردو اور بلوچی زبان کے صف اوّل کے شاعر ہیں . عطا شاد کا اصل نام محمد اسحٰق اور والد کا نام لعل خان ہے وہ نومبر 1939 کو مکران ڈویژن ضلع کیچ کے گاٶں” سنگانی سر “ میں پیدا ہوٸے. ان کی شاعری میں نہ صرف انسان اور آدمی سے محبت ہے بلکہ انہوں نے اپنی سزمین بلوچستان سے بھی ٹوٹ کر محبت کی ہے اور اس کو اپنا ”محبوب“ بنایا ہے . انہوں نے اپنے وطن کے موسموں سے بھی پیار کیا ہے . وہ نہایت صاف گو انسان تھے جو بات ان کے دل میں ہوتی تھی وہی زبان پر بھی لاتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کا اظہار اپنی شاعری میں بھی کرتے تھے .
عطا شاد بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے وہ بہ یک وقت ادیب ، شاعر ، مصنف ،صداکار، ڈرامہ نگار ، افسانہ نویس ،کالم نگار اور ماہر السّانیات بھی تھے . ان کے کٸی اشعار ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکے ہیں .وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر بھی تھے جو ڈاٸریکٹر اور سیکریٹری اطلاعات کے منصبٰ پر بھی فاٸز رہے مگر وہ آفیسر کے بجاٸے سراپا شاعر ہی لگتے اور محسوس ہوتے تھے. ان کی زبان و بیان میں بلا کی چاشنی و تاثیر اور روانی ہوتی تھی اور حیرت انگیز بات یہ کہ ان کی اردو شاعری میں دہلوی اور لکھنوی لہجہ بھی محسوس ہوتا تھا . وہ مرزا غالب ، عبدالحمید عدم ، جگر مراد آبادی اور ساغر صدیقی کی طرح بلا کے مہ نوش بھی تھے . سادہ پانی سے زیادہ ”انگور“ سے کشید کیا ہوا پانی پیتے تھے . عطا شاد کی اردو شاعری کے 2 مجموعے ” سنگاب“ اور ” برفاآگ“ شایع ہوٸے . سنگاب کو بہت زیادہ پذیراٸی حاصل ہوٸی. بلوچی شاعری کے 4 مجموعے شایع ہوٸے جن میں روچ گِر ، شپ، سحار ، اور ”اندیم“ شامل ہیں. اس کے علاوہ ان کی تصنیفات میں بلوچی نامہ ( ثقافت) دِرین ( بلوچی لوک گیت کے تراجم) گچین ( جدید بلوچی شعرا) بلوچی اردو لغت اور ہفت زبانی لغت ( حصہ بلوچی) شامل ہیں . ان کے غیر مطبوعات میں ” اب جب نیند ورق الٹے گی “ ” مزید بلوچی کلام“ اردو و بلوچی ڈرامے اور مضامین شامل ہیں .
عطا شاد کو بہترین ادبی و لسانی خدمات پر کٸی اعزازات سے نوازا گیا جن میں ستارہ امتیاز ، صدارتی تمغہ براٸے حسن کارکردگی ، خصوصی ایوارڈ ، وزارت اطلاعات و نشریات حکومتِ پاکستان ، ریڈیو ایوارڈ ، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ، فیلوشپ انٹر نیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ، سڈنی، آسٹریلیا و دیگر ایوارڈز شامل ہیں . بلوچستان کے اس سادہ مزاج مگر مقبول ترین شاعر عطا شاد کا 13 فروری 1997 میں کوٸٹہ میں انتقال ہوا . اپنی بہترین شاعری کے باعث وہ آج تک بلوچستان میں مقبول ہیں اور توقع ہے کہ وہ اپنی ادبی خدمات کے عوض ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے . مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ مجھ ناچیز کو ان کے ساتھ 2 بار مشاعروں میں اپنا کلام پڑھنے کا اور ایک بار ان کے ساتھ کوٸٹہ سے ڈیرہ مراد جمالی تک ہمسفر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے جو ہمیشہ یاد رہے گا. ان کی یہ رفاقت کمشنر نصیرآباد ڈویژن اور ادیب و شاعر عبدالغفار ندیم کے تعاون سے ہماری ادبی و سماجی تنظیم ” بلوچستان سوشل اکیڈمی“ کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے ”جشنِ ڈیرہ مراد جمالی“ کے مشاعرے میں شرکت کی غرض سے تھی جس میں نسیم احمد نسیم ، ڈاکٹر عرفان احمد بیگ، ڈاکٹر بیرم غوری ، افضل مراد ، حسن جاوید و دیگر شعرا بھی شریکِ سفر تھے . یہ مشاعرہ 28 اکتوبر 1996 کو منعقد ہوا تھا جس میں اوریا مقبول جان سمیت بہت سے دیگر نامور شعرا بھی شریک ہوٸے تھے . عطا شاد کی شاعری سے چند منتخب اشعار قارٸین کی نذر ہیں.
سیلاب کو نہ روکیٸے رستہ بناٸیے
کس نے کہا تھا گھر لبِ دریا بناٸیے
برف کے پالے جسموں سے مشک کی خوشبو پھیلی ہے
پانی ،اپنا یار عطا اور آگ اس کی سہیلی ہے
پارساٶں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سرِ بازار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آٸی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
رات پھولوں کی نماٸش میں وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوٸے اور ہمیں بیدار کیا
شمع چپ ہے بھی تو کیا ، دل کا اجالا بولے
وہ سنے یا نہ سنے رات کا سکتہ بولے
وہ کوٸی گل ہے کہ مہتاب، کرن ہے ہ دھنک
آپ وہ چپ رہے اور اس کا سراپا بولے
کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سو جاٸے تو بہتا ہوا چشمہ بولے
عطا نہ پوچھ کسی شبنمی خیال کی آنچ
خمارِ آبِ بقا چاہتی ہے خاطرِ شاد
عطا سے بات کرو چاندنی سی ، شبنم سی
خنک نظر ہے مگر دلِ الاٶ رکھتا ہے
تمام شب تھا، ترا ہجر ، ترا آٸینہ گر
تمام شب ، مرے پہلو میں آفتاب سجا