شاعر
(ہرمن ہیسے کی ’Der Dicker ‘ نامی یہ کہانی پہلی بار جرمن جرنل ’ Der Iag ‘ میں 19133 ء میں ' Der Weg zur Kunst ' کے نام سے شائع ہوئی تھی ۔ بعد ازاں یہ کہانی جرمن زبان میں ہرمن ہیسے کی آٹھ کہانیوں کے مجموعے ’ Märchen ‘ میں سن 1919 ء میں شائع ہوئی ۔ اس کا انگریزی ترجمہ امریکی مترجم ڈینور لنڈلے 'Denver Lindley ' نے 1972 ء میں کیا جو دیگر سات کہانیوں کے ساتھ اسی سال ' Strange News from Another Star ' کے نام سے شائع ہوئی ۔ یہ کہانی مِنیسوٹا یونیورسٹی میں جرمن زبان کے پروفیسرجیک زیپیز ’ Jack Zipes‘ کی کتاب ’Fairy Tales of Hermann Hesse ‘ میں بھی شامل ہے جو 1995 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ )
ہرمن ہیسے ، اردو قالب
یہ کہانی ایک چینی شاعر ہان فوک کے بارے میں سنائی جاتی ہے جو ایک ایسا نوجوان تھا جسے غیر معمولی شوق تھا کہ وہ سب اسرار و رموز جانے جس سے وہ شاعری کے فن میں طاق ہو جائے ۔ اس وقت وہ اپنے ’ دریائے زرد ‘ کے کنارے واقع اپنے آبائی گھر میں ہی رہتا تھا اور اس کی اپنی اچِھا کے مطابق ہی ، اپنے والدین ، جو اس سے بہت پیار کرتے تھے ، کی مدد سے ایک بھلے خاندان کی لڑکی سے منسوب تھا ۔ اس کی شادی مستقبل قریب میں کسی بھی ساز گار دن کو ہونا قرار پائی تھی ۔ ہان فوک اس وقت لگ بھگ بیس برس کا تھا ۔ وہ خوش شکل ، سادہ لوح ، اخلاق اور تعلیم وتربیت میں سلجھا ہوا نوجوان تھا ۔ اپنی نوجوانی کے باوجود کئی شاندار نظموں کی وجہ سے اس نے اپنا نام کما رکھا تھا اور علاقے کے ادبی حلقوں میں لوگ اسے جانتے تھے ۔ وہ امیر تو نہ تھا لیکن اس کے پاس اتنے پیسے ضرور ہوتے تھے کہ وہ آرام دہ زندگی گزار سکے ویسے اس بات کا امکان بھی موجود تھا کہ جہیز کی وجہ سے اس کی دولت میں اضافہ بھی ہو جائے اور چونکہ اس کی منگیتر بہت خوبصورت اور نیکو کار تھی اس لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کی زندگی خوشیوں سے خالی رہے ۔ لیکن کچھ ایسا تھا کہ وہ مکمل طور پر مطمئن نہ تھا ، اس کی تمنا تھی کہ وہ ایک کامل شاعربنے ۔
ایک شام جب دریا کے ایک کنارے پر قندیلوں کا تہوار منایا جا رہا تھا تو دوسرے پر ہان فوک اکیلا مٹر گشت کر رہا تھا ۔ اس نے ایک ایسے درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائی جو پانی کے اوپر جھکا ہوا تھا ۔ اسے نظر آیا کہ دریا کے پانیوں میں ہزاروں روشنیاں جھلملاتی تیر رہی ہیں ۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے مرد ، عورتیں اور جوان بچیاں کشتیوں اور بجروں میں سوار ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دینے میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے تہواری کپڑے پہن رکھے تھے اوروہ خوبصورت پھولوں کی مانند لگ رہے تھے ۔ اسے چمکیلے بہتے پانی کی مدہم سرگوشی ، گویوّں کی مدھر آوازیں ، ’ ستار‘ سے نکلتے سُر اور بانسری بجانے والوں کے دھنیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔ اس نے نیلگوں رات کو بھی دیکھا جو مندر کی محراب کی طرح شام کو اپنے غلاف میں لپیٹتی جا رہی تھی ۔ نوجوان ہان فوک ، جو اس سارے منظر کا اکیلا ناظر تھا ، کا دل اچھلا اور وہ اس خوبصورت نظارے کے حسن سے سرمست ہو گیا ۔ گو اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ دریا عبور کرکے اس سارے میلے کا حصہ بن جائے اور اپنی منگیتر و دوستوں کے ساتھ مل کر تہوار کا مزہ لے لیکن اس نے اس حسین نظارے کو بطور ایک باریک بین مشاہدہ کرنے والے کی طرح ہی دیکھنے پر اکتفا کیا اور رات کی نیلاہٹ و پانی پر روشنیوں کے کھیل ، لوگوں کے لطف اندوز ہونے اور دریا کنارے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے خاموش ناظرکے بیانیہ پر ایک اچھی نظم لکھی ۔ اس نے محسوس کیا کہ اسے دوبارہ دنیا میں ایسا کوئی تہواری یا لطف اندوز ہونے کا موقع میسّر نہیں آئے گا جو اسے اتنی طمانیت اور خوشی دے سکے ۔ اسے یہ بھی خیال آیا کہ وہ زندگی کے منجدھار میں اکیلا ، کسی حد تک ناظر اوراجنبی ہی رہے گا ۔ اسے یہ بھی لگا جیسے اور چیزوں کے ساتھ ساتھ اس کی روح کی تشکیل ہی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ وہ قدرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز تو ہو لیکن اس کا حصہ بن کر نہیں بلکہ باہر کھڑے تماشائی کی طرح جو اس کا حصہ بننے کی خواہش دل میں رکھتا ہو لیکن بن نہیں پاتا ۔ یہ سوچ کر وہ اداس ہو گیا اور معاملے پر غور کرنے لگا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے حقیقی خوشی اور گہرا اطمینان تب ہی مل پائے گا جب وہ اپنی نظموں میں دنیا کا کامل نقشہ کھینچ لینے میں کامیاب ہو جائے جس کے لئے دنیا کا ادراک حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کا بیان و مصوری خالص اور لافانی انداز میں کی جا سکے ۔
ہان فوک کو اندازہ نہ رہا کہ وہ جاگ رہا ہے یا سو گیا ہے ۔ سرسراہٹ محسوس ہوئی تو اس نے چونک کر دیکھا کہ ایک اجنبی درخت کے تنے کے پاس کھڑا ہے ۔ وہ ایک قابل احترام بزرگ آدمی تھا جس نے بنقشی چولا پہن رکھا تھا ۔ ہان فوک سیدھا کھڑا ہوا اور اُس انداز میں اسے تعظیم پیش کی جو مدبروں ، بزرگوں اور خاص لوگوں کو پیش کی جاتی ہے ۔ بزرگ جواب میں صرف مسکرایا اور اس نے چند ایسے اشعار پڑھے جن میں بڑے شاعروں کی طرح عمدہ بحر و وزن میں وہ سب بیان کیا گیا تھا جو جوان ہان فوک کے دل میں تھا ۔ انہیں سن کر اس کے دل کی دھڑکن تھم سی گئی ۔
” آپ کون ہیں ؟ “ ، اس نے انتہائی ادب سے جھک کر پوچھا ، ” آپ جو میری روح میں جھانک سکتے ہیں اور ایسی شاعری فرما رہے ہیں جو اُس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے جو میں نے اپنے استادوں سے سنی رکھی ہے ۔ “
اجنبی پھر مسکرایا ، اک ایسی مسکراہٹ ، جو کسی عظیم مدبّر کو ہی نصیب ہوتی ہے اور بولا ؛
” اگر تم شاعر بننا چاہتے ہو تو میرے پاس آﺅ ۔ تمہیں میرا جھونپڑا اس عظیم دریا کے منبع ، جو شمال مغربی پہاڑوں میں ہے ، پر ملے گا ۔ لوگ مجھے ’ قادرِ الفاظ ‘ کے طور پر جانتے ہیں ۔ “
یہ کہہ کر وہ وہ بزرگ درخت کے مہین سائے میں گھسا اور غائب ہو گیا ۔ ہان فوک نے اس کو بہت تلاش کیا لیکن اسے اُس بزرگ کا نشان تک نہ ملا اور اس نے اس بات پر یقین کر لیا کہ یہ سب خواب تھا جو اس نے ٹہل سے تھک کر عالم غنودگی میں دیکھا تھا ۔ وہ تیزی سے تیرتا دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا اور کشتیوں میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ تہوار کے جشن میں شریک ہو گیا لیکن گفتگو اور بانسریوں کی دھنوں کے دوران بھی اسے اُس جنبی کی پراسرار آواز سنائی دیتی رہی ۔ لگتا تھا کہ ہان فوک کی روح اس کا ساتھ چھوڑ کر اس بزرگ کے ساتھ جا چکی تھی کیونکہ وہ وہاں خوابناک آنکھوں کے ساتھ خوش و مسرور لوگوں سے کٹا بیٹھا ہوا تھا جو اس کی حالت پر اس لئے ٹھٹھا کر رہے تھے کہ وہ اپنی منگیتر کے دھیان میں مگن ہے ۔
کچھ دن بعد ہان فوک کے والد نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لئے مدعو کرنا چاہا لیکن اس نے مخالفت کی اور کہا ؛
” میں آپ کی بات نہ ماننے پر معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ شاعری کے فن پر عبور حاصل کرنے کی میری خواہش کتنی اہم ہے ۔ یہ درست ہے کہ میرے دوست میری شاعری کی تعریف کرتے ہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ میں تو اس میدان میں ابھی طفلِ مکتب ہوں اور ابھی مجھے بہت لمبا سفر کرنا ہے ۔ اس لئے مجھے اجازت دیں کہ میں کچھ عرصے کے لئے اپنا دھیان اپنے مطالعے کی طرف لگاﺅں ۔ اگر میں نے اپنی بیوی اور گھر کو ترجیح دی تو میں شاید ایسا نہ کر پاﺅں ۔ میں ابھی جوان ہوں اور ذمہ داریوں سے آزاد بھی ہوں لہذٰا میں چاہوں گا کہ کچھ عرصہ اپنی شاعری کے لئے مختص کروں جس سے مجھے نہ صرف باطنی خوشی حاصل ہو گی بلکہ شہرت بھی ملے گی ۔ “
اس کے اس کہے پر اس کا باپ حیران ہوا اور جواب دیا ؛
” مانا کہ تمہاری سب سے اولین ترجیح شاعری ہے جس کے لئے تم شادی ملتوی کرنا چاہتے ہو لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ تمہارے اور تمہاری منگیتر کے درمیان کوئی پاڑ آ گیا ہو ؟ ایسا ہے تو مجھے بتاﺅ تاکہ میں مفاہمت میں اپنا کردار ادا کر سکوں یا پھر تمہارے لئے کوئی اور دلہن کو تلاش کروں ۔ “
بیٹے نے جواباً قسم اٹھائی کہ وہ اپنی منگیتر سے ابھی بھی اسی طرح محبت کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا ۔ ان میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا ۔ پھر ہان فوک نے اپنے والد کو بتایا کہ ’ قادرِ الفاظ ‘ قندیلوں والے تہوار پر اس کے خواب میں آیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ اس کی شاگردی اختیار کرے ۔
” ٹھیک ہے ۔“ ، اس کے والد نے کہا ، ” میں تمہیں ایک سال دیتا ہوں ، تم اپنے خواب ، جو شاید خدا کی طرف سے تمہیں دکھایا گیا ہے ، کا پیچھا کر کے دیکھ لو ۔ “
” ہو سکتا ہے کہ اس میں دو سال لگ جائیں ۔“ ، ہان فوک نے گڑبڑاتے ہوئے جواب دیا ، ” کون جانتا ہے ؟ “
اس کا والد اس ساری گفتگو پر ناخوش اور پُرملال تھا لیکن اس نے بیٹے کو جانے دیا ۔ ہان فوک نے اپنی منگیتر کو خط لکھا ، اسے الودع کہا اور چل دیا ۔
ایک لمبے عرصے کی دشت نوردی کے بعد وہ دریا کے منبع پر پہنچا اوراس نے ایک الگ تھگ مقام پر بانسوں سے بنا ایک جھونپڑا دیکھا جس کے سامنے ایک بزرگ آدمی چٹائی پر بیٹھا بربط بجا رہاتھا ۔ یہ وہی بزرگ تھا جسے ہان فوک نے دریا کنارے درخت کے تنے کے پاس کھڑا دیکھا تھا ۔ جب اس بزرگ نے نیازمند ہان فوک کو اپنی طرف آتے دیکھا لیکن وہ نہ کھڑا ہوا اور نہ ہی اسے خوش آمدید کہا ، بس مسکرایا اور اپنی انگلیاں مشاقی سے تاروں پر پھیرتا رہا جس سے جادوئی موسیقی کی چاندنی پھوٹ کر وادی میں پھیلتی رہی ۔ نوجوان چندھیائی آنکھوں سے اس چمکیلے و رسیلے ماحول کو تکتا رہا اور باقی سب بھول گیا یہاں تک کہ بزرگ نے اپنا چھوٹا سا بربط ایک طرف رکھا اور جھونپڑے میں داخل ہو گیا ۔ ہان فوک نے تعظیم کے ساتھ اس کی پیروی کی اور اس کے ساتھ خادم و طالب علم بن کر رہنے لگا ۔
مہینہ بھی نہ گزرا ہو گا کہ ہان فوک کو اپنے لکھے تمام گیت حقیر لگنے لگے اور اس نے انہیں اپنی یاداشت سے نکال باہرکیا ۔ اگلے کچھ ماہ کے بعد اس نے ان گیتوں کو بھی بھلا دیا جو اس نے گھر پر اپنے استادوں سے سنے تھے ۔ ’ قادرِ الفاظ ‘ اس سے کم ہی بات کرتا تھا ۔ اس نے ہان فوک کو بربط بجانا سکھایا اور اسے خاموشی کے ساتھ بجانے میں مشاق کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اس کا وجود روح کی گہرائیوں تک اس سے سرشار ہونے لگا ۔ ایک دفعہ ہان فوک نے خزاں کی ایک شام میں دو پرندوں کی اڑان پر ایک گیت ترتیب دیا ، اسے یہ اچھا لگا لیکن ہمت نہ ہوئی کہ وہ اسے استاد کے سامنے پیش کرے لیکن ایک شام اس نے جھونپڑے کے ایک طرف بیٹھ کر اسے گایا ۔ استاد نے یہ نغمہ سنا لیکن کچھ کہے بغیر اپنا بربط بجاتا رہا یہاں تک کہ فضا خنک ہونے لگی اور مغرب کا وقت ہو گیا ۔ گو یہ گرمیوں کا وسط تھا لیکن اچانک تیز ہوا چلی اور دو بگلے سرمئی ہوتے آسمان پر یوں اڑے جیسے نقل مکانی کرنا چاہتے ہوں ۔ یہ سارا منظر اتنا خوبصورت اور کامل تھا کہ ہان فوک کو اپنے اشعار اس کے آگے ہیچ لگنے لگے ۔ وہ اداس ہو کر خاموش ہو گیا اور خود کو حقیر جاننے لگا ۔ ہر بار جب ہان فوک کوئی نظم کہتا ، بزرگ کچھ ایسا ہی سماں کھڑا کر دیتا جس سے ہان فوک کو اپنی شاعری گھٹیا لگنے لگتی ۔ سال گزرا تو وہ بربط بجانے میں تو ماہر ہو گیا لیکن اسے یقین ہونے لگا کہ شاعری کا فن کہیں زیادہ مشکل اور اعلیٰ و ارفع ہے ۔
دو سال گزرے تو ہان فوک کو شدت سے اپنے والدین ، منگیتر اور وطن کی یاد آنے لگی ۔ اس نے استاد سے گھر جانے کی اجازت مانگی ۔
استاد مسکرایا اور سر ہلاتے ہوئے بولا ؛
” تم میری طرف سے آزاد ہو۔ تم جہاں جانا چاہتے ہو جا سکتے ہو ۔ واپس نہ آنا چاہو تب بھی ٹھیک ہے ، آنا چاہو تو بھی مجھے اعتراض نہ ہو گا ۔ جیسا دل کرے ویسے کرنا ۔ “
ہان فوک نے بِنا رُکے گھر کی جانب سفر شروع کر دیا ۔ آخر ایک صبح وہ اپنے گھر کے پاس بہنے والے مانوس دریا کے کنارے کھڑا سورج کو طلوع ہوتے دیکھ رہا تھا ۔ محرابوں والے پل کے پار اس کا آبائی گاﺅں تھا ۔ وہ خاموشی سے اپنے والد ، جو ابھی سو رہا تھا ، کے باغ میں داخل ہوا ۔ اس کی آرام گاہ کی کھڑکی سے اسے اپنے والد کے خراٹوں کی آواز آ رہی تھی ۔ پھر وہ پھلوں کے اس باغ میں گیا جو اس کی منگیتر کے گھر کے ساتھ تھا ۔ ناشپاتی کے ایک درخت پر چڑھ کر اس نے دیکھا کہ اس منگیتر اپنے کمرے میں کھڑی بال سنوار رہی ہے ۔ اس نے موازنہ کیا کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا تصور اس نے اس وقت کیا تھا جب اسے وطن کی یاد شدت سے آ رہی تھی ۔ اسے احساس ہوا کہ شاعر بننا ہی اس کا مقدر ہے اور ایک شاعر کے خواب جن کا دنیا کی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہ ہو ان پر مبنی شاعری فضول ہی ہوتی ہے ۔ وہ درخت سے اترا ، باغ سے نکلا بھاگ کر پُل پار کیا اور اپنے آبائی گاﺅں سے دور ہوتا چلا گیا ۔ جب وہ بلند پہاڑوں پر وادی میں گیا ، اس کا بزرگ استاد اپنے جھونپڑے کے باہر اسی طرح اپنی سادہ چٹائی پر بیٹھا بربط کے تاروں پر انگلیاں پھیر رہا تھا جیسے پہلے بیٹھا ہوتا تھا ۔ ہان فوک کو خوش آمدید کہنے کی بجائے استاد نے دو مصرعے فن کی عظمت اور توصیف میں پڑھے جن میں گہری دانائی اور ہم آہنگی کا حسین امتزاج تھا ۔ انہیں سن کر ہان فوک کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔
وہ ایک بار پھر ’ قادرِ الفاظ ‘ کے ساتھ رہنے لگا ۔ وہ اب اسے’ ستار‘ سکھا رہا تھا کیونکہ اب وہ بربط بجانے میں مہارت اختیار کر چکا تھا ۔ وقت یوں بیتتا چلا گیا جیسے مغربی ہوا چلنے پر پہاڑوں سے برف پگھلتی جاتی ہے ۔ دو بار اس پر گھر کی یاد پھر شدت سے حاوی ہوئی ۔ ایک دفعہ تو اس نے رات کی تاریکی میں استاد کو بتائے بِنا پہاڑوں کو چھوڑ دیا لیکن ہوا نے جھونپڑے کے باہر دروازے پر لٹکی ستار کے تاروں میں ایسے سُر پیدا کئے کہ وہ وادی کے آخری موڑ سے لوٹنے پر مجبور ہو گیا ۔ دوسری بار اس نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے باغ میں ایک درخت کا پودا لگا رہا ہے ۔ اس کی بیوی اس کے پاس کھڑی ہے اور اس کے بچے دودھ اورشراب سے پودے کی ترائی کر رہے ہیں ۔ جب وہ جاگا تو کمرے میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی ۔ وہ بے چین ہو کر اٹھ بیٹھا ۔ اس نے پاس سوئے استاد کو دیکھا جس کی سرمئی داڑھی ہوا سے ہولے ہولے ہل رہی تھی ۔ پہلے تو ہان فوک کو اس شخص سے نفرت محسوس ہوئی جس نے اس سے اس کا مستقبل چھین کر اس کی زندگی تباہ کر دی تھی ۔ پھر اس کا دل چاہا کہ وہ جھپٹ کر اسے قتل کر دے لیکن اسی لمحے دانا نے آنکھیں کھولیں ، اداسی لیکن لطافت سے مسکرایا اور ہان فوک کا غصہ ہوا ہو گیا ۔
” ہان فوک ! یاد رکھو ۔ “ ، بزرگ نے نرمی سے کہا ، ” تم اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہو ۔ تم گھر واپس جا سکتے ہو اور درخت اگا سکتے ہو ۔ تم مجھ سے نفرت بھی کر سکتے ہو یہاں تک کہ قتل بھی ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ “
یہ سن کر ہان فوک ششدر رہ گیا اور چلایا ، ” اوہو ، میں آپ سے نفرت کیسے کر سکتا ہوں ؟ آپ سے نفرت کرنا جنت سے نفرت کرنے کے مترادف ہے ۔ “
ہان فوک ’ قادرِ الفاظ ‘ کے پاس ہی رہا اور اس سے ستا ر بجانا سیکھتا رہا ، پھر اس نے بانسری بجانی سیکھی اور پھر استاد کی راہنمائی میں نظمیں لکھنی شروع کیں ۔ آہستہ آہستہ اس نے وہ پراسرار فن سیکھا جس کے ذریعے سادہ اور سہل مظاہر و مناظر کو ایسے بیانیے میں ڈھالا جا سکے کہ وہ سننے والے کی رو ح کو ایسے چھو کر گزریں جیسے ہوا پانی کی سطح کو چھو کر آگے بڑھتی ہے ۔ اس نے پہاڑوں کی اوٹ سے سورج کے طلوع ہونے کو اس طرح بیان کیا جیسے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوڑنے سے گریزاں ہو ۔ پانی تلے مچھلیوں کی خاموش پھرتیلی حرکت کو سائے کی حرکت یا بہار میں ہوا سے سرسراتے بید مجنوں سے تشبیہہ دے کر بیان کیا ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور جب لوگوں نے اس کی شاعری سنی تو یہ صرف سورج کی بات نہ تھی ، مچھلی کا بیانیہ نہ تھا اور نہ ہی بید مجنوں کی سرسراہٹ تھی ایسا لگتا تھا کہ زمین و آسمان کچھ ساعتوں کے لئے ایک ساتھ ترنگ میں جھوم رہے ہیں اور سامعین نفرت و محبت کی جانے والی چیزوں کے بارے میں یا تو خوشی محسوس کرتے یا رنج ان پر حاوی ہو جاتا ؛ بچے اپنی کھیلوں کے بارے میں ، جوان اپنی محبتوں کے بارے میں اوربوڑھے موت کے بارے میں ۔
ہان فوک کو اندازہ ہی نہ رہا کہ اس نے ’ دریائے زرد ‘ کے منبع پر اپنے استاد کے ساتھ کتنے سال بِتائے ۔ وہ جب بھی اس بارے میں سوچتا اسے لگتا جیسے وہ ایک روز پہلے ہی اس وادی میں پہنچا تھا اور اس نے ’ قادرِ الفاظ ‘ کو بربط بجاتے دیکھا تھا ۔ اسے ایسا بھی لگتا تھا جیسے انسانیت کے تمام ادوارغائب ہو چکے ہیں اور وقت تھم گیا ہے ۔
پھر ایک صبح جب وہ سو کر اٹھا تو اکیلا تھا ۔ اس نے بہت تلاش کیا لیکن اپنے استاد کو نہ پا سکا ۔ لگتا تھا خزاں راتوں رات در آئی ہے ۔ تیز کھردری ہوا نے جھونپٹرے کو ہلا کر رکھ دیا اور ہجرت کرنے والے بگلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا بیٹھے حالانکہ یہ ان کی ہجرت کا زمانہ نہیں تھا ۔
ہان فوک نے ننھا بربط اٹھایا اور اپنے وطن کی راہ لی ۔ راستے میں جہاں کہیں اسے لوگ ملتے وہ اسے وہ تعظیم دیتے جو بزرگوں کو دی جاتی ہے ۔ جب وہ گھر پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ اس کا والد ، منگیتر اور رشتہ دار مر چکے ہیں اور وہاں نئے لوگ آباد ہیں ۔ اس شام پھر قندیلوں والا تہوارلب ِ دریا منایا جانا تھا ۔ شام ہوئی تو شاعر ہان فوک نے پار کے تاریک کنارے کے ساتھ موجود بوڑھے درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائی اور بربط بجانا شروع کر دیا ۔ عورتوں نے رات کے اندھیرے میں اس طرف دیکھتے اور حیران کن نغمے سنتے ہوئے اضطراب سے آہیں بھرنا شروع کر دیں ۔ جوان لڑکیوں نے بربط نواز کو پکارنا شروع کر دیا جو انہیں کہیں نہ مل پایا ۔ سب نے اقرار کیا کہ اس سے پہلے انہوں نے بربط کی دھنوں پرایسے گیت نہ سنے تھے ۔ ہان فوک مسکرایا ۔ اس نے دریا کے پانیوں پر نگاہ کی جہاں ہزاروں قندیلوں کی روشنیاں تیر رہی تھیں کچھ ایسے کہ اصل قندیلوں اور کے عکس آپس میں مدغم ہو چکے تھے ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور ہان فوک نے جانا کہ اس کی روح بھی اب اس فرق کو بھول چکی ہے جو موجودہ تہوار اوراس وقت کے تہوار میں تھا جب وہ جوان تھا اور اس نے پہلی بار اجنبی استاد کے الفاظ سنے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔