ہندوستانی فلمی گیتوں یا نغمہ نگاروں کا ذکر جب بھی آئے گا، تو مرحوم شیلندر کا نام ضرور یاد کیا جائے گا۔ آج وہ ہمارے درمیان جسمانی طور پر نہیں ہیں، مگر ان کے بے مثال نغموں کا انمول خزانہ ان کی یاد ہمیشہ ہمارے ذہن ودل میں بنائے رکھتا ہے۔ اس انمول خزانے کو پرکھنے پر آج ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے تجربہ کار قلم سے نکلے ہوئے یہ خوبصورت نغمے فلم کی اپنی ضرورتوں کو تو پورا کرتے ہی تھے… ان میں شیلندر کی شخصیت کی جھلک بھی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
فلموں میں نغمہ نگاری سے قبل شیلندر ریلوے میں ایک معمولی سی ملازمت کرتے تھے۔ ان کا جنم ۳۰؍اگست ۱۹۲۳ء کو راولپنڈی میں ہوا تھا، جو اَب پاکستان میں ہے۔ ان کے والد فوج میں ملازم تھے، جس کی وجہ سے ہمیشہ ان کا تبادلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہوتا رہتا تھا… اس زمانے میں فوجی ملازمین کی نہ تو بہت زیادہ تنخواہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی زندگی کی دوسری آسائشیں فراوانی کے ساتھ ان کو میّسر تھیں۔
لہٰذا شیلندر نے بڑی غربت اور تنگ دستی سے مقابلہ کرتے ہوئے اتر پردیش کے متھرا شہر سے انٹر تک تعلیم حاصل کی تھی۔ انٹر کرنے کے بعد انہوں نے انجینئرنگ کے ایک کورس میں داخلہ لے لیا اور انٹر کی طرح انجینئرنگ کا امتحان بھی انہوں نے اول درجے میں پاس کیا… اور اس کے بعد بمبئی میں ماٹنگا کے ریلوے کے پٹیل ورکشاپ میں ملازم ہو گئے تھے۔ مگر اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل پر ہندی میں کویتائیں لکھتے رہتے تھے۔
اس زمانے میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی اور شیلندر ایک سچے محب وطن تھے، دیش بھکت تھے، لہٰذا اُن کی نظموں اور گیتوں میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ انقلاب کے ذریعہ آزادی کا حق چھیننے میں یقین رکھتے تھے۔
یہ ہندوستان کی آزادی سے کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے۔ شیلندر اپنے لکھے گیت جلسے جلوسوں میں خود گایا کرتے تھے۔ ان کی کچھ کویتائیں خاص طور پر مشہور تھیں۔ جیسے…
تو زندہ ہے تو زندگی کی جیت پر یقین کر
اگر کہیں سورگ ہے تو اُتار لا زمین پر
…اور تقسیم ہند پر لکھی گئی ان کی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ خاص طور پر مقبول تھیں۔ الفاظ کا استعمال اور ان کی پیشکش پر ان کی اچھی گرفت تھی۔ اس لئے جب کسی جلسے میں شیلندر اپنی نظمیں سناتے تو ایک سماں سا بندھ جاتا تھا۔
۱۹۴۷ء میں بمبئی کے مہاجرین کی امداد کے لئے ایک جلوس نکالا گیا، جو اپنے اختتام پر ایک جلسے میں تبدیل ہو گیا۔ اس جلسے میں شیلندر نے اپنی نظم ’’جلتا ہے پنجاب‘‘ پڑھی۔ مشہور اداکار، ہدایت کار وفلمساز راجکپور بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ راجکپور ان کی اس نظم سے، اس کو پڑھنے کے انداز سے اور شیلندر کی نظم نگاری کی صلاحیتوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس جلسے میں شیلندر نے اپنی ایک اور نظم ’’موری بگیا میں لگائے گئے آگ گورا پردیسی‘‘ اتنے جذباتی انداز میں سنائی کہ لوگ واہ واہ کر اٹھے، اور ان واہ واہ کرنے والوں میں راجکپور بھی شامل تھے… لہٰذا جلسے کے اختتام پر راجکپور نے فوری طور پر شیلندر کے اس گیت کو اپنی فلم میں استعمال کرنے کے لئے خریدنا چاہا۔ مگر شیلندر نے انکار کرتے ہوئے راجکپور سے کہا… ’’معاف کیجئے گا… میں اپنی یہ کویتا فلم کے لئے نہیں دے سکتا۔ فلم کا بھلا کویتا اور شاعری سے کیا تعلق…؟ میں نے تو فلموں میں صرف تک بندی ہی سنی ہے۔ سنجیدہ اور گہری شاعری تو میں نے کبھی فلموں میں نہیں سنی…‘‘
راجکپور نے انہیں بتایا کہ وہ جس قسم کی فلم بنا رہے ہیں، اس میں گیتوں کی شکل میں زندگی کے گہرے فلسفے کی بات کہی گئی ہے۔ مگر راج کپور کے سمجھانے پر بھی شیلندر نہیں مانے اور ان کی زندگی کی گاڑی ریلوے کے پٹیل ورک شاپ میں ایک ویلڈر کی حیثیت سے چلتی رہی۔
اس زمانے میں اپنی ملازمت کے علاوہ ان کا محبوب مشغلہ صرف اور صرف شاعری تھا۔ شاعری ہی انہیں سکون پہنچا رہی تھی۔ انہیں اور چاہئے بھی کیا تھا؟ اس وقت ماحول بھی ایسا ہی تھا کہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شیلندر ایک سے بڑھ کر ایک اُمنگ اور جوش اور زندگی سے بھرپور لکھتے جا رہے تھے… اور آخرکار ۱۹۴۷ء میں جب شیلندر کا خواب پورا ہوا، ملک آزاد ہوا… اور آزادی کے بعد انہیں گھر بسانے کی فکر ہوئی تو شیلندر نے شادی کر لی۔
شادی کے بعد ان پر نہ صرف گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھا، بلکہ انہوں نے مالی پریشانیوں کو بھی محسوس کرنا شروع کر دیا۔ ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ راج کپور سے ملاقات کر کے فلموں کے لیے نغمہ نگاری شروع کر دیں۔ مگر شیلندر کو ڈر تھا کہ خدا جانے فلموں کے لئے گیت لکھنے میں ان کے قلم کو کس قدر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔
ان دنوں راج کپور فلم ’’برسات‘‘ بنا رہے تھے۔ اس فلم کے لئے انہوں نے اپنا ایک خاص گروپ بنایا تھا، جس میں موسیقار شنکر جے کشن تھے، حسرتؔ جے پوری تھے اور گلوکار مکیش تھے۔ اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی ان کے اپنے پسندیدہ لوگ تھے۔ شیلندر کے آنے سے راج کپور کو خوشی ہوئی اور انہوں نے شیلندر کو ’’برسات‘‘ فلم کی یونٹ میں شامل کر لیا۔ ابھی برسات فلم کا ٹائیٹل گیت نہیں لکھا گیا تھا… لہٰذا راج کپور نے شیلندر کو ہاتھوں ہاتھ لیااور ان سے اپنی فلم ’’برسات‘‘ کے لئے دو گیت لکھوائے۔ ایک گیت تھا…
برسات میں ہم سے ملے تم سجن تم سے ملے ہم
…اور دوسرا گیت تھا…
پتلی کمر ہے، ترچھی نجر ہے
…اس فلم سے شیلندر کو نہ صرف راج کپور کا ساتھ مل گیا بلکہ موسیقار شنکر جے کشن کے بھی وہ قریب آگئے۔ فلم ’’برسات‘‘ کے یہ دونوں گیت سُپر ہٹ ثابت ہوئے اور شیلندر راتوں رات ایک کامیاب فلمی گیت کار بن گئے… اس کے ساتھ ہی موسیقار شنکر جے کشن کے ساتھ بھی ان کی جوڑی بن گئی۔
فلم ’’برسات‘‘ کے بعد شیلندر نے فلمساز، ہدایتکار اور اداکار راجکپور کی تقریباً سبھی اہم فلموں کے لئے گیت لکھے، جن میں خاص طور پر ’’آوارہ، شری چار سو بیس، چوری چوری، اناڑی، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، سنگم، بوٹ پالش، جاگتے رہو، کنہیّا، تیسری قسم، دیوانہ، ارائونڈ دی ورلڈ، انہونی، عاشق، ایک دل سو افسانے، سپنوں کا سوداگر‘‘ اور ’’میرا نام جوکر‘‘ وغیرہ فلموںمیں شیلندر کے لکھے فلمی نغمے بے حد مقبول ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ راجکپور کی فلمی شہرت میں شیلندر کے نغموں کا بھی بڑا حصّہ رہا ہے۔ ان کے لکھے گیتوں کو نہ صرف ہندوستان میں شہرت ملی بلکہ بیرون ملک بھی ان کی گوبج پہنچی۔
…خاص طور پر راجکپور پر فلمائے گئے گیت… ’آوارہ ہوں، میرا جوتا ہے جاپانی، سچ ہے دنیا والوں کہ ہم ہیں اناڑی، ہم اس دیش کے واسی ہیں جس دیش میں گنگا بہتی ہے، اور رامیّا وستا ویّا‘… وغیرہ گیت بیرون ملک میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔
راجکپور کی فلموں کے علاوہ بھی شیلندر نے بہت سی فلموں کے لئے گیت لکھے اور ان کی نغمہ نگاری کی صلاحیتوں کے جوہر اُن فلمی نغموں میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں… اور وہ بھی مقبولیت کی بلندیوں کو پہنچے ہیں۔ فلم ’’دل ایک مندر، پتیتا، داغ، انارکلی، دو بیگھہ زمین، دُور گگن کی چھائوںمیں، میری صورت تیری آنکھیں، بندنی، سنگیت سمراٹ تان سین، مدھومتی، گائیڈ، سیما‘‘ اور ’’بسنت بہار‘‘ ایسی فلمیں ہیں جن کے نغمے نہ صرف اُس زمانے میں مقبول ہوئے بلکہ آج بھی اتنی ہی توجہ سے سنے جاتے ہیں۔
ہندوستانی فلمی گیتوں کا جو معیار آج دکھائی دے رہا ہے، اُسے مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم شیلندر کے گیتوں کا تجزیہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے فلمی نغموں کے ذریعہ ایک بہت بڑا کام کر رہے تھے۔ گیت کیسا بھی کیوں نہ ہو، کسی بھی سچویشن پر گایا جانے والا ہو، انہوںنے ہمیشہ معیاری گیت ہی قلمبند کئے اور اتنے خوبصورت بھی کہ آتے ہی لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں ریڈیو سے نشر ہونے والے مقبول گیتوں میں سے آدھے سے زیادہ گیت شیلندر کے ہی لکھے ہوتے تھے۔
’’سجنوا بیری ہو گئے ہمار، اے میرے دل کہیں اور چل، او جانے والے ہو سکے تو لوٹ کے آنا، سجن رے جھوٹ مت بولو، ہم اس دیش کے واسی ہیں…‘‘ جیسے گیتوں کے خالق شیلندر آج ہمارے درمیان نہیں ہیں، مگر ان کے گیتوں کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہ ہندی کے خوبصورت الفاظ کا استعمال بڑی خوبی سے اپنے گیتوں میں کرتے تھے۔ انہوں نے پہلی بار اردو کے مشکل الفاظ کا استعمال کئے بغیر آسان اور عام بول چال کی زبان میں گیت لکھے، جس میں ہندوستان کی سوندھی مٹی کا احساس کراتے ہوئے انہوں نے حب الوطنی، انقلابی، رومانی اور جذبات سے بھرپور گیت لکھے… اور ایسا محسوس ہوا کہ ہندوستانی سینما پہلی بار ان کے گیتوں کے ذریعہ عام لوگوں میں سمانے لگا ہے۔
شیلندر نے بطور فلمساز راجکپور اور وحیدہ رحمن کو لے کر فلم ’’تیسری قسم‘‘ شروع کی۔ اس فلم کی کہانی فنیشور ناتھ رینو کی مشہور کہانی ’’تیسری قسم عرف مارے گئے گلفام‘‘ پر تیار کی گئی تھی۔ اس فلم کی تکمیل تک شیلندر پوری طرح کنگال ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ اُن کا گھر، زیور، سب کچھ دائو پر لگ چکا تھا، اُن دِنوں وہ کھار میں رہتے تھے اور اُن کے گھر کا نام ’رم جھم‘ ہوا کرتا تھا۔ قرض داروں سے تنگ آکر وہ ’رم جھم‘ میں ہی روپوش ہو گئے تھے۔ بعد میں راجکپور اور مکیش کی کوششوں سے یہ فلم مکمل ہو کر نمائش کے لئے پیش کی گئی۔ مگر پیشکش کے غلط طریقے سے فلم ’’تیسری قسم‘‘ بُری طرح ناکام ہو گئی۔ اس کی ناکامی میں شیلندر کی سادہ لوحی اور ان کے دوستوں کی مہربانیاں بھی شامل تھیں۔ وہ قطعی طور پر پروفیشنل نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فلم کا بجٹ بھی بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ ان ہی سب پریشانیوں سے تنگ آکر انہوںنے مئے نوشی میں بے حد اضافہ کر دیا، اور صرف ۴۳؍ برس کی مختصر سی زندگی کے بعد ۱۴؍دسمبر ۱۹۶۶ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
صرف چودہ سال فلمی دنیا سے وابستہ ہو کر انہوں نے تقریباً ایک ہزار گیت لکھے، جن میں سے بے شمار گیت مقبول ہو کر آج بھی ان کی یادوں کو ذہنوں میں منور کئے ہوئے ہیں۔
“