کچھ زکر شاہ زیب قتل کیس کا ۔۔۔۔۔۔
دو ہزار تیرہ میں روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک المناک قتل کیس کا واقعہ پیش آیا تھا ،قتل کے اس واقعے کو ہائی پروفائل قتل کیس کہا گیا ۔ہائی پروفائل قتل کیس کے واقعے کے بعد عوام ،سول سوسائیٹی اور عدالت کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا ۔اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے اس قتل کیس کا سوموٹو نوٹس لیا گیا تھا ۔جی ہاں میں زکر کررہا ہوں شاہ زیب قتل کیس کا ۔۔۔۔سندھ کے طاقتور جتوئی خاندان کے بگڑے سپوت شاہ رخ جتوئی سمیت سراج تالپور وغیرہ اس قتل کیس میں ملوثپائے گئے ۔ملوث افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کورٹ میں دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی تھی ۔قتل میں ملوث شاہ رخ خان جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت سنائی گئی تھی ،جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کو عمر قید کی سزا دی سنائی گئی ۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ مقتول شاہ زیب اپنی ہمشیرہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ شاہ رخ جتوئی کے ملازم غلام مرتضی لاشاری نے شاہ زیب کی ہمشیرہ کے ساتھ بدتمیزی کی ،میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہ زیب کے سامنے اس کی بہن کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی ،اس کے بعد توں توں ،میں میں ہوئی ،کہا گیا کہ اس کے بعد شاہ رخ اینڈکمپنی نے شاہ زیب کو گولیاں مار کر موقع پر ہی ہلاک کر دیا ۔شاہ زیب کی عمر بیس سال تھی اور ان کے والد کراچی میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز ہیں ۔پھر دونوں پارٹیوں کے درمیان settlement ہو گئی ،میڈیا میں یہ خبریں چلی کہ شاہ زیب کے والدین نے مجرموں کو معاف کردیا ہے۔کہا گیا کہ قصاص اور دیت کے قانون کے تحت شاہ زیب کے والدین کو 27 کروڑ دیئے گئے ۔۔۔کیونکہ مجرموں پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی تھی ،اس لئے دیت اور قصاص کے قانون کے تحت اگر ورثاٗ معاف بھی کردیں تو یہ معافی تسلیم نہیں کی جاسکتی ۔کچھ عرصہ قبل شاہ رخ جتوئی کے وکیل فاروق نائیک یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں لے گئے ،سندھ ہائی کورٹ میں یہ پٹیشن دائر کی گئی کہ شاہ زیب قتل کیس کا واقعہ دہشت گردی نہیں تھا بلکہ زاتی جھگڑے کا ایک واقعہ تھا ۔فاروق نائیک کی جانب سے دلائل دیئے گئے کہ اس قتل کیس میں دہشت گردی کی دفعات ہٹائیں جائیں ،کیونکہ واقعہ زاتی دشمنی اور جھگڑے کا ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ شاہ رخ جتوئی نے جب یہ جرم کیا تو اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کے وکیل کے دلائل کو تسلیم کر لیا اور دہشت گردی کی دفعات یا کلازز شاہ زیب قتل کیس سے فارغ کر دی گئیں ۔ اب شاہ رخ جتوئی جن کو سزائے موت ہوئی تھی اور باقی مجرموں کی سزائیں معطل ہو گئی ہیں ۔سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ شاہ زیب قتل کیس کا مقدمہ اب سیشن کورٹ میں چلایا جائے ۔کیونکہ مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات نکل گئی ہیں ۔میڈیا رپورٹس اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ کیونکہ شاہ زیب کے والدین مجرموں کو معاف کر چکے ہیں اس لئے تمام مجرم عدالت سے چھوٹ بری ہو جائیں گے ۔وکیلوں کے مطابق کیونکہ ورثاٗ نے معاف کردیا ہے ،عدالت کے پاس مجرموں کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ۔کیونکہ قصاص بھی دے دیا گیا ہے ۔شاہ زیب کے والدین اور مجرموں کے والدین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ راضی نامہ ہوچکا ہے۔دیت اور قصاص قوانین ہیں ،اسلام میں سب برابر ہیں ،گورا کالا ،امیر غریب ،عربی عجمی ،دیت اور قصاص کا قانون صرف امیر کے لئے نہیں ،امیر غریب سب کے لئے ہے ،امیر کا بیٹا قتل کرے ،قصاص دے اور رہا ہو جائے اور غریب کا بیٹا قتل کرے ،قصاص نہ دے تو پھانسی پر لٹک جائے ؟غریب قتل کرے تو اس کے لئے سولی ہے اور امیر کے پاس پیسے ہیں وہ چھوٹ جائے ،یاد ہے ریمنڈ ڈیوس کیس میں بھی ریاست نے دیت کرائی تھی اور ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں قتل کرکے امریکہ اڑ گیا تھا ۔سوال یہ ہے کہ کہیں اسلامی قوانین کا استعمال غلط تو نہیں کیا جارہا ،اگر ایسا ہے تو عدالت ،علماٗ اور مفکرین کو مل بیٹھ کر اس پر سوچنا چاہیئے ؟بیس سال کے شاہ زیب کا خوفناک انداز میں قتل ہوا ،اب مجرم رہا ہونے والے ہیں۔۔۔۔ایسا ہو کہ امیر اور غریب دونوں دیت اور قصاص کے قوانین سے فائدہ اٹھائیں ،ایسا نہیں کہ صرف امیر ہی بچیں اور غریب کے لئے کوئی سہولت میسر نہ ہو ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہ زیب کے والدین کو ستائیس کروڑ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا میں گھر بھی لیکر دیا گیا ،اور فیملی کو وہاں سیٹل کرانے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ۔وکیلوں نے بھی اس کیس سے کروڑوکمائے ،مجرم بھی رہا ہورہے ہیں ،بیچارہ شاہ زیب کا کیا جو بے گناہ قتل کردیا گیا ،جس کی عمر صرف بیس سال تھی اور جس کی آنکھوں میں ہزاروں خوب صورت سہانے خواب تھے ۔کیا قوانین بھی ان کے لئے ہیں جن کے پاس پیسہ طاقت اور پاور ہے اور غریب کے لئے کچھ نہیں ؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔