شہزادوں کے جزیروں میں باغی
میری سیاسی جہاں گردی میں استنبول کے مشرقی حصے میں بحیرۂ مارمرا میں شہزادوں کے جزیرے ہمیشہ شامل رہے ہیں۔بحیرۂ مارمرا، دنیا کا سب سے چھوٹا سمندر ہے۔ تاریخ، سماج اور سیاست میں دلچسپی کے نمایاں اثرات میری جہاں گردی میں شروع دن سے شامل رہے ہیں۔ تفریحی سفروں اور سیاحتی سفروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور پھر سیاحت کے بھی لاتعداد شعبے ہیں۔ بقول ارشاد احمد حقانی مرحوم، میں ایک ’’سیاسی جہاں گرد‘‘ ہوں۔ میری سیاسی جہاں گردی میں تاریخ، تہذیب وتمدن، سماج کو جاننا اور سیاحت کیے گئے ممالک اور خطوں کے سیاسی لوگوں اور دانشوروں سے ملنا شروع دن سے شامل رہا ہے۔ استنبول کی سیاحت کرتے ہوئے میرے نزدیک یہی نکات ہمیشہ سامنے رہے ہیں۔ آج کا استنبول، عثمانی دَور کا استنبول، بازنطینی رومن دَور کا استنبول اور اس سے کہیں پہلے فنیقی دَور کی معمولی سی بستی۔ مارمرا سمندر میں شہزادوں کے ان جزیروں کی تاریخ کے لاتعداد پہلو ہیں جن میں مقبولِ عام بازنطینی دَور میں سزایافتہ شہزادوں کی جلاوطنی، باغی اور اقتدار کے راستے میں رکاوٹ بننے والے شہزادوں کی جلاوطنی ہے۔ اور یہ روایت عثمانی دَور کی حکمرانی تک یہاں برقرار رہی۔ انگریزی میں غلط العام Princess Islandہے جبکہ حقیقت میں یہ Princes' Islandsہیں۔یہاں کون کون جلاوطن ہوا، اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ باغی شہزادے، بازنطینی تھے یا عثمانی، کہانی کا لب لباب ایک ہی رہاہے۔ ’’جو رستے میں آئے گا، کٹ جائے گا۔‘‘ استنبول کے تخت پر اقتدار کی داستانوں میں یہ جزیرے نمایاں رہے ہیں۔
1961ء میں ترک ڈکٹیٹر جنرل جمال گرسل نے منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ دیا تو صدر ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو عدنان میندریس کے لیے رحم کی اپیل دے کر ترکی بھیجا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ترک وزیرخارجہ سلیم شاپر کو کہا کہ صدرِ پاکستان چاہتے ہیں کہ آپ اپنے سابق وزیراعظم کو پھانسی کی سزا معاف کردیں۔ ترک وزیرخارجہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ ’’عدنان میندریس کو سزائے موت دینے سے ترکی مسائل سے باہر نکل آئے گا۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو رحم کی درخواست ٹھکرا دئیے جانے کے بعد اٹھے اور کہا، ’’God Bless You.‘‘ ۔ عدنان میندریس کو بحیرۂ مارمرا کے جزیرے ایمرالی میں سزائے موت دے دی گئی۔ ترک وزیراعظم کے لیے پاکستان کی رحم کی اپیل لے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ عدنان میندریس کی پھانسی کے ٹھیک اٹھارہ سال بعد پاکستانی آمر جنرل ضیا نے بھٹو کو دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تو ترکی کے وزیراعظم بلند ایجوت نے رحم کی اپیل بھیجی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت معاف کر دی جائے۔ پاکستان کے آمر نے جمال گرسل کی طرح رحم کی اس اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو موت کے گھاٹ اتارنے کے پروانے پر آخری دستخط کرکے پاکستان کے مسائل کا حل یقینی بنا لیا۔ لیکن درحقیقت مسائل کا آغاز ہوا۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ عدنان میندریس کو سزائے موت دئیے جانے کے بعد ترکی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔اس خوب صورت بحیرۂ مارمرا میں موجود خوب صورت جزائر بھی ایسی ہی داستانوں سے لبریز ہیں۔ ذرا غور کریں خوب صورت نظاروں کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ان سیاہ اوراق کی سیاحت کا کیسا امتزاج ہوگا۔ سیاسی جہاں گردی۔
ترکی کی سیاست میں بڑے مسائل ہیں ، جن میں ایک اہم مسئلہ کُرد علیحدگی پسند ہیں۔ اسّی کی دہائی سے علیحدگی پسند کُردوں کی ایک تنظیم کُردستان ورکرز پارٹی ہے جو دہشت گردی کو جدوجہد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ پی کے کے (کُرد ورکرز پارٹی) کی دہشت گردی اور اس کے خلاف ریاستی کارروائیوں میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ PKK کے بانی رہنما عبداللہ اوجلان کو ترک وزیراعظم بلندایجوت نے 1999ء میں ترک انٹیلی جینس اور کمانڈوز کے ذریعے کینیا سے گرفتار کرلیا۔ ترک وزیراعظم کے ترکی کے اس سب سے بڑے دہشت گرد کو گرفتار کرنے پر اُن کی سیاسی مقبولیت کا ستارہ اپنے عروج پر چلا گیا۔ عبداللہ اوجلان کی گرفتاری کے بعد اُن کا ٹرائل ہوا۔ اس وقت بلند ایجوت کی حکومت تھی۔ حکومت نے ٹرائل کرنے والی عدالت پر اس الزام پر کہ منصفین میں ایک فوجی بھی شامل ہے، اس عسکری رکن کو انصاف کی کرسی سے ہٹا دیا۔ عدالت نے ترکی کے سب سے بڑے باغی دہشت گرد کا ٹرائل بحیرۂ مارمرا کے جزیرے ایمرالی ہی میں کیا۔ یہیں پر عدنان میندریس کا ٹرائل ہوا تھا اور سزائے موت بھی۔ عبداللہ کو عدالت نے سزائے موت سنا دی۔ بلند ایجوت کی حکومت نے سزائے موت سنا دئیے جانے پر عمل درآمد کو یقینا سیاسی حکمت عملی کے تحت لٹکائے رکھا۔ اور اُن کی سزائے موت کے پارلیمنٹ سے حتمی فیصلے پر دستخط التوا میں رہے اور اس کے بعد ترکی میں سزائے موت ہی قانونی اور آئینی طور پر ختم کردی گئی۔ ترکی کا باغی دہشت گرد، اس خوب صورت سمندر مارمرا کے جزیرے میں زندگی کے اٹھارہ سال گزار چکا ہے۔ سزایافتہ موت کا منتظر باغی دہشت گرد۔
2002ء میں طیب اردوآن، ترکی کے مقبول لیڈر بن کر ابھرے۔ 2009ء میں ترک وزیراعظم نے اپنی حکومتی طاقت بڑھانے کے لیے بحیرۂ مارمرا کے جزیرے میں باغی دہشت گرد کے ساتھ رابطوں کا آغاز کیا۔ 2011ء میں مارمرا سمندر میں کسی نقطے کی طرح نظر آنے والے اس جزیرے میں ترک خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ عہدے داروں کے مذاکرات کامیاب ہوئے اور عبداللہ اوجلان کی PKK نے ہتھیار ڈال کر اردوآن حکومت کے ساتھ معاہدۂ امن کیا اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو مکمل طور پر روک دیا۔ اقتدار کے عجب تقاضے اور ثقافت ہوتی ہے۔ جب طیب اردوآن صدر بنے تو اُن کے لیے مذہبی رحجان سے زیادہ تنگ نظر قوم پرستی زیادہ طاقت دے سکتی تھی۔ اپنے استاد ومرشد فتح اللہ گلین جن کے سبب اُن کی سیاست اُن کی پارٹی اور حکومت مذہبی رحجان بنانے میں مددگار ثابت ہوئی، 2010ء میں اُن کے ساتھ طیب اردوآن حکومت کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ اردوآن حکومت نے مذہبی رہنما فتح اللہ گلین اور اُن کی تنظیم حزمت کو دہشت گرد قرار دے دیا۔ FETO یعنی Fateh Ullah Terrorist Organization۔ 2016ء کی ناکام بغاوت کے ذمہ دار بھی وہی ٹھہرائے گئے۔ اور اب ترکی میں صدارتی نظام کے بعد صدر طیب اردوآن نے کُرد علیحدگی پسندوں کے خلاف شدت کے ساتھ آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ مارمرا کے جزیرے میں مقید باغی دہشت گرد عبداللہ اوجلان کے ساتھ کیا گیا معاہدہ توڑ دیا گیا ہے۔ حکومت سخت گیر قوم پرستانہ رحجانات کے تحت ان علیحدگی پسندوں اور مذہبی دہشت گردوں (فتح اللہ گلین) کے خلاف بھرپور آپریشن کررہی ہے۔
شہزادوں کے جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ’’بیوک ادا‘‘ ہے۔ ترک زبان میں اس کا مطلب ہی ’’بڑا جزیرہ‘‘ ہے۔ میں جب بھی مارمرا سمندر کا سفر کرکے اس کے بیچوں بیچ شہزادوں کے جزیروں پر جاتا ہوں تو میرا ’’سیاسی جہاں گرد‘‘ دل قدرتی نظاروں اور بے رحم تاریخ کے ساتھ گھوم رہا ہوتا ہے۔ انہی جزیروں میں ایک سلطان نے استنبول کے ہزاروں کتوں کو جلاوطن کیا۔ وہ ہفتوں بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر گئے۔ ’’بیوک ادا‘‘ شہزادوں کا بڑا جزیرہ بہت ہی خوب صورت ہے۔ یونانی اور یہودی اور ترک امرا کے یہاں شان دار محلات نما گھر آج بھی آباد ہیں۔ سارا دن یہاں آنے والے سیاحوں میں سے بیشتر کا تعلق عرب ممالک سے ہوتا ہے جن کی سیاحت مختلف نوعیت کے لذیذ کھانوں کی تلاش اور نظاروں کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنانا ہے۔ اب ان میں چند ایک پاکستانی بھی نظر آتے ہیں جو ان قدرتی نظاروں کے ساتھ آگے پیچھے چلتی ہوئی جدید لباس میں ملبوس خواتین کو کسی طرح اپنی تصاویر میں شامل کرکے ’’سیاحت کی معراج‘‘ پالینے کے سرور میں خوشی سے پھولتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی کسی طرح مرچوں والا کھانا مل جائے تو سیاحت کی منزل پار ہوجائے۔ شہزادوں کے اس بڑے جزیرے میں دنیا کا سب سے بڑا اشتراکی رہنما بھی جلاوطن رہا۔ اس اشتراکی جلاوطن کی اس جزیرے پر بسنے کی کہانی کسی اگلے کالم میں۔ شہزادوں کے ان جزیروں کو ’’سیاسی جہاں گرد‘‘ قدرتی مناظر اور خوب صورت محلات نما گھروں اور رہن سہن کے ساتھ جس طرح دیکھتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سیاحت تفریح ہے کہ تاریخ کی تلاش ۔ شہزادوں کے ان جزیروں کو باغیوں کے جزیرے کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سیاحت کرنے والوں کے لیے تفریح اور بغاوت کرنے والوں کے لیے بڑے قید خانے۔