ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
No 3
شاعر: شہزادنیّر
ﺁﭖ ﺩﻝ ﺟﻮﺋﯽ ﮐﯽ ﺯﺣﻤﺖ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺭﻭ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﺏﺍﻭﺭ ﺭُﻻﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻠﻨﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ
ﺁﭖ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺠﮫﺳﮯ ﻣﻼﺋﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺣﺠﺮﮦ ﺀ ﭼﺸﻢ ﺗﻮ ﺍﻭﺭﻭﮞﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ
ﺁﭖ ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻭ ﻣﺨﺘﺎﺭ ﮨﯿﮟﺁﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺎﻧﺴﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮﮞﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮﮞ ﮔﺎ
ﻟﻮﮒ ﺭﻭ ﺭﻭ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺍﺏ ﻣﺠﮫﮐﻮ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﮞ ﮐﮭﻮﻝﮐﮯ ﻟﮑﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﻧﺞﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ
آپ پھر لے کے چلے آئے ہیں دین و دنیا
اب مجھے کچھ بھی نہیں چاہیئے،جائیں جائیں
ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﮯﮨﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻭﺭﺩ ﮐﺮﺍﺋﯿﮟ ﮐﮧﺑﻼﺋﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺩﺭﻣﺎﻥ _ﻣﺤﺒﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯿﮟ، کوئی ﺯﺧﻢ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ، ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺁﻣﺪ ﻭ ﺭﻓﺖ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎئیں ﭘﮍﯼ ﮨیں ﻧﯿﺮ
ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺑﺎﺯﺍﺭﺑﻨﺎﺋﯿﮟ،ﺟﺎﺋﯿﮟ
شہزاد نیر صاحب کی غزل پیش نظر ہے ، یہ غزل اس ادارے میں پہلے بھی سن اور پڑھچکا ہوں ، ایک اچھی نرم اور پھوکے الفاظ سے سجائی ہوئی غزل غزل ے ، مترنم۔اور غنائیت لیے لفظوں سے مزین کی ہوئی یہ غزل ، کسنوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہے ، زبان کی چاشنی کی داد دیے بًغیر نہیں رہا جاسکتا ، لیکن،
اس غزل میں جو ردیف و قوافی ، اٹھائیں جائیں ، رلائیں جائیں ، ملائیں جائیں استعمال کیے ہیں وہ ہمارے یہاں ، یعنی امروہا اور دہلی وغیرہ میں استعمال نہیں کیے جاتے ، ہمارے یہاں فعل یہ طریقہ ،اس طرح مستعمل ہے ،، کیا ہم کھائیں کیا سوئیں، کیا بیٹھیں، کیا جائیں ، یعنی اس،میں ایک قسم کا سوال بھی مضمر ہوتاہے ، اور نیر صاحب نے اسکو کراچی و نواح کی زبان کے انداز میں استعمال کیا،ہے ، گویا صیغئہ امر میں استعمال کیا ہے ، ہمارے یہاں یہ بات یوں کہی جاتی ہے ،، آپ دل جوئی کی زحمت مت اٹھائیے ،جائیے ، (نثر ), امر کے صیغے میں آئیے ،جائیے ، بیٹھئیے دیکھیے ،دکھائیے ، وغیرہ صحیح ہے اور دکھائیں اٹھائیں وغیرہ میں بتا چکا ہوں ، سو یہ زبان کی خامی ہے ، اہل زبان اس طرح استعمال نہیں کرتے ،
دوسرے مصرعے میں الفاظ کی نشست و برخواست میں گڑبڑی ہے ، اب اور نہ رلائیں، درست ہے ، نہ اب اور رلائیں زبان کی کمزوری ہے ، جو ذرا دی محنت میں درست کی جاسکتی تھی ، دوسرے یہ کہ دونوں مصرعوں میں لفظ ، نہ ، کا استعمال ہوا،ہے ے
دوسرے شعر میں ، فرماتے ہیں کہ ،، مجھسے کیا ملنا کہ میں خود سے جدا بیٹھا،ہوں ، اس،مصرع میں ایسا لگتا ہے کہ شاعر ، خود سے دوری اور فراق سے مطمئن ہے اور دوسرے مصرع میں خود سے ملنے کی تمنا اور محبوب سے تم میرا مقصد حل کرکے چلے جاوُ تو یہ تو خود غرضی ہوئی ، اگلے شعر میں حجرئہ چشم تو اوروں کے لیے بند کیا ہے ہونا چہیے تھا جو تھوڑی کوشش کے بعد ہوسکتا تھا ، لہک شاعر کی سہل پسندی نے ،ہے ، کی کمی کو منظور کیا
اتنا سانسوں سے خفا ہوں کہ نہیں مانونگا ، غالباً اس میں شاعر کا مقصد یہ ہے کہ میں مرچکا ہوں اور لوگ مجھپر رو رہے ہیں ، ، لیکن شعر اس بات کو قاری تک پوری طرح نہیں پہنچارہا ، اور لوگ کسی کے مرنے پر اپنح نقصان کو روتے ہیں ، مردے کو منانے کےلیے نہیں ، دوسرے یہ کہ سانسوں سے خفا ہونا سمجھمیں نہیں ارہا کہ یہ ایسا کیوں کہا گیا ، سانسوں سے کیا ناراضگی ہے
اگلے شعر ، زندگی تونے دکاں کھول کے لکھرکھا ہے
، اپنی مرضی کا کوئی اٹھائیں جائیں ،
رنج تو بیشک جھیلا جاتا ہے ، اٹھایا جاتا ہے لیکن دوکان سے ( یا دکّان ) سے کوئی شے خریدی جاتی ہے ، اپنی مرضی کا رنج اٹھایا نہیں جاتا ، نیز یہ۔کہ لفظ دکان مستعمل تو ہے لیکن اصل لفظ دُکّان یا دوکا ن ہے ، دوسرا شعر ، اب مجھے کچھ بھک نہیں چاہیے جائیں جائیں عمدہ شعر ہے اور خوب تیور ہیں
ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں ہمارے گھر میں
کون سا،ورد کرائیں کل بلائیں جائیں ، بہت عمدہ اور بھر ہور معنی خیز شعر ہے ، اس،میں ردیف اور قافیہ دونوں ہی بہ اعتبار زبان درست ہیں ، نیز یہ کہ خون کے چھینٹے کہ کر بہت عمدہ اشارہ کیا ہے ،اپنے ملک و قوم کی طرف ، اس شعر میں شاعر نے بڑی شاعرانہ چابک دستی سے کام لیا ہے
اگلا شعر خالص غزلکا شعر ہے اور مقطعے میں دل کی بستی کو نہ بازار بنائیں جائیں ، بہت اچھا مصرع ہے لیکن اس میں بھی ردیف کمزور ہے ،چونکہ نہ بازار بنائیں پر ہی بات مکمل ہوجاتی ہے ، اور اس لفظ بازار کی ضرورت نی پہلے مصرع میں آمد و رفت کہلوایا ،
ویسے عمومی طور پر غزل عمدہ ہے اور کاوش کرکے غنائی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے میری طرف سے مبارک باد
شفاعت فہیم ، امروہا ، انڈیا
==========================
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 211
کلام: ڈاکٹر مینا نقوی.مراداباد ..بھارت
گفتگو: افتخار راغب
تورات کی ہیں مثل نہ انجیل کی طرح
ہم علم میں ہیں سوکھی ہوئی جھیل کی طرح
✒ دوسرے مصرع کو پڑھ کر جی جھوم اٹھا۔ واہ ! سبحان اللہ!
ہم علم میں ہیں سوکھی ہوئی جھیل کی طرح
سوکھی ہوئی جھیل نے شاید ہی اس قدر لطف دیا ہو۔ قوم کی تعلیم ہی نہیں بلکہ علم سے دوری کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پہلے مصرع کا پہلا حصہ کچھ کمزور ہے جو شعر کی مجموعی فضا کو متاثر کر رہا ہے۔ پھر بھی ایک عمدہ مطلع ہے۔
خوشبو قلم میں آگئ لکھتے ہی اس کا نام
پرنور لفظ ہو گئے قندیل کی طرح
✒ بہت عمدہ اور مرصع شعر ہے۔ کوئی بھی حصہ سست نہیں ہے۔ محبوب کا نام لکھتے ہی قلم میں خوشبو آگئی اور لفظ قندیل کی طرح پر نور ہوگئے۔
تعبیر بن کے خواب کا پیکر نہیں ملا
پایا نہ کوئ شخص بھی ثمثیل کی طرح
✒ شعر گنجلک ہو گیا ہے۔ تعبیر بننا کوئی محاورہ نہیں ہے تعبیر کرنا کہتے ہیں۔ تعبیر بننے کے بعد خواب کا پیکر نہیں ملا کہنا بھی بے معنی سا ہے۔ تعبیر خواب ہی کی ہوتی ہے یعنی خواب کے پیکر کی تعبیر۔ دوسرے مصرع میں بھی صرف تمثیل کی طرح کہنا بھی محلِ نظر ہے۔
پہلے مسافتیں تھیں توانائیوں کے نام
اب اک قدم بھی لگتا ہے سو میل کی طرح
✒ دوسرا مصرع بہت بے ساختہ ہے میل کے قافیے کا جواب نہیں ہے۔ البتہ پہلا مصرع ذرا پیچیدہ ہو گیا ہے۔ مسافتیں توانائیوں کے نام تھیں سے کیا مراد ہے؟ نام کی جگہ نذر ہوتا تو مفہوم کچھ واضح ہوتا یعنی
پہلے مسافتیں تھیں توانائیوں کی نذر
آنکھوں میں اشک, دل میں چبھن اور اداس شام
دن آج کا بھی گزرا ہے تعطیل کی طرح
✒ تعطیل یعنی چھٹی کے دن عام طور سے انسان آرام کرتا ہے فرصت میں رہتا ہے۔ لیکن وہی فرصت جب کسی کی یاد کی زد میں آجاتی ہے تو آنکھوں میں اشک تیرنے لگتے ہیں دل میں چبھن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بہت اچھا شعر ہے۔
سردی کی رت میں چھوئ موئ گنگنی سی دھوپ
ماضی بیان کرتی ہے تفصیل کی طرح
✒ پہلا مصرع بہت اچھا ہے لیکن دوسرے میں ماضی بیان کرنا اور تفصیل کی طرح کہنا دونوں ہی محل نظر ہیں۔ ماضی کی یاد دلانا، ماضی کی بات کرنا اور تفصیل سے وغیرہ کہنا درست ہوتا ہے۔
ظلم و ستم مٹا دے زمانے سے اے خدا
لشکر کوئی تو بھیج ابابیل کی طرح
✒ ابابیل لفظ سے شعر تلمیحی ہو گیا ہے۔ بہت اچھا شعر ہے۔
"مینا" کسی کے سامنے کھلنا نہیں کبھی
رکھنا چھپا کے جذبوں کو زنبیل کی طرح
✒ کسی چیز کو زنبیل کی طرح چھپا کر رکھنا کہنا مناسب نہیں لگ رہا ہے۔ در اصل چیزوں کو زنبیل میں چھپا کر رکھا جاتا ہے نہ کہ زنبیل کو۔ مصرع اس طرح ہو سکتا تھا کہ
جذبوں کو رکھنا قلب میں زنبیل کی طرح۔
==========================
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 211
کلام: صابر جاذب لیہ پاکستان
گفتگو: افتخار راغب
ردیف ۔لکیریں
جو میری ہتھیلی پہ ہیں دوچار لکیریں
اک عمر سے ہیں لاغر و بیمار لکیریں
✒ ایک ردیف حشو ہو گئی ہے۔ ایسی ردیفوں کو نبھانے کے لیے خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ لاغر و بیمار لکیروں سے شاعر نے خراب قسمت مراد لیا ہے۔
کاغذ پہ ابھر آتا ہے موہوم سا چہرہ
یونہی تو نہیں کھینچتا فنکار لکیریں
✒ فنکار کے لکیریں کھینچ کر کوئی تصویر بنانے کے عمل کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دوسرے شعر میں موہوم کا لفظ کچھ مناسب نہیں لگ رہا ہے یا پہلا مصرع اور بہتر ہوتا تو شعر زیادہ پرکشش لگتا۔ مثلاً
کاغذ پہ ابھر آتی ہے دل کش کوئی تصویر
اس طرح لگی ذہن پہ حالات کی ٹھوکر
ماتھے پہ ہوئیں سوچ کی بیدار لکیریں
✒ دوسرا مصرع تعقید کا شکار ہے شاعر کہنا یہ چاہتا ہے کہ ماتھے پر سوچ کی لگیریں بیدار ہوئیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب نے تعقید پیدا کر کے اس کے حسن کو متاثر کر دیا ہے۔ حالات کی ٹھوکر خوب ہے۔
طوفان کی آمد کا یقیں ہونے لگا ہے
ساحل کی جبیں پر نہیں بیکار لکیریں
✒ پہلا مصرع بہت عمدہ ہے۔ دوسرے میں شاعر نے بیکار سے بے وجہ مراد لیا ہے جو مناسب نہیں لگتا۔ جس کی وجہ سے شعر کو جس بلندی تک جانا چاہیے تھا نہیں جا سکا ہے۔ ساحل کی جبیں پر لکیریں کہنا قابل تعریف ہے۔
بے ربط ستاروں کے ملائے گئے گوشے
تھیں شب کی سیہ پرت پہ خمدار لکیریں
✒ پرت کا لفظ اپنے درست وزن پر نہیں باندھا گیا ہے جس کی وجہ مصرع بے وزن سمجھا جائے گا۔ پرت کا تلفظ پَ رَت بر وزن قمر ہے۔ خمدار لکیریں خوب ہے پہلا مصرع بھی اچھا ہے۔
کیوں چیختی چلاتی ہیں حرفوں کی زباں میں
قرطاس کے سر پر تو نہیں بار لکیریں
✒ شعر کا مفہوم گنجلک ہو گیا ہے۔ کون چیختی ہیں؟ شاید لکیریں۔ لیکن کیوں؟ دوسرے مصرع میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کہیں لکیریں کاغذ پر بار تو نہیں ہیں؟ اگر لکیریں بار ہیں تو کاغذ کو چلانا چاہیے تھا۔ حرفوں کی زباں میں چلانا بھی کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ شاید شاعر جو کہنا چاہ رہا ہے کہہ نہیں سکا ہے۔
ہم ڈوبتے مہتاب سے لائیں گے نئی صبح
ابھری ہیں سر سحر ضیا ء بار لکیریں
✒ بہت اچھا خیال پیش کیا گیا ہے۔ ضیا بار لکیروں کا بھی جواب نہیں ہے۔ شعر کے پہلے مصرع میں اگر لائیں گے کی جگہ لائے ہیں ہوتا تو اور زیادہ مربوط لگتا۔
مضمون کی تفہیم کو میں بھانپ گیا ہوں
قرطاس کے ابرو پہ ہیں خمدار لکیریں
✒ پہلے مصرع میں تفہیم حشو ہے۔ مضمون کو بھانپ گیا ہوں کہہ دینا کافی تھا۔ تفہیم کا بھانپنا بھی درست نہیں ہے۔ دوسرے مصرع میں آبرو کی جگہ ماتھے ہوتا تو شعر زیادہ با معنی لگتا۔
تصویر خیالی کو بنانے لگا نقاش
منہ تکنے لگیں اس کا طرحدار لکیریں
✒ پہلے مصرع میں کو کی جگہ جو زیادہ مناسب ہوتا یعنی
تصویرِ خیالی جو بنانے لگا نقاش
دوسرے مصرع میں منہ تکنا محاورہ بھی بر محل نہیں لگتا۔ کچھ اس طرح ہوتا تو مربوط لگتا ہے کہ
دکھلانے لگیں رنگ طرح دار لکیریں
ہر دیکھنے والا ہی بنا نقش بہ دیوار
صابر نے جو کھینچیں سر دیوار لکیریں
✒ عمدہ مقطع ہے۔ نقش بہ دیوار ہونا کا محاورہ خوب استعمال ہوا ہے اور دوسرے مصرع میں سرِ دیوار کی ترکیب بھی خوب لگ رہی ہے۔ مجموعی طور پر مقطع از حد قابلِ تعریف ہے۔
==========================
افتخار راغبؔ، غزل کی دنیا کا عظیم نام
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
چھُپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے
کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے
آس ٹوٹی تو ساتھ ہی راغبؔ
سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے
افتخار راغبؔ دوحہ قطر
===============
باعثِ اضطراب خاموشی
اک مسلسل عذاب خاموشی
گفتگو ہے ابھی ہمہ تن گوش
کر رہی ہے خطاب خاموشی
کس قدر دل خراش ہے مت پوچھ
خامشی کا جواب خاموشی
سارے لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا
جب ہوئی باریاب خاموشی
خوش بیانی کا زعم ختم ہوا
کر گئی لاجواب خاموشی
اک طرف پرکشش مرے اشعار
اک طرف اجتناب، خاموشی
اُن کے ہونٹوں پہ کچھ نہیں راغبؔ
ہو گئی بے نقاب خاموشی
افتخار راغبؔ دوحہ قطر
==============
کیوں ہے لہجہ بجھا بجھا تیرا
کیا ہوا اب وہ ولولہ تیرا
وقفے وقفے سے کھول کر کھڑکی
اچھا لگتا ہے جھانکنا تیرا
تیری آنکھوں میں جھانک کر دیکھوں
عکس میرا ہو آئنہ تیرا
کیا منائے گا اپنے دل کی خیر
جس سے پڑ جائے واسطہ تیرا
تیر سا لگ رہا ہے غیروں کو
میرے شعروں پہ تبصرہ تیرا
ٹوٹ جائے نہ ڈور سانسوں کی
باندھ رکھا ہے آسرا تیرا
جو بھی ملتا تھا مرنے والا تھا
کس سے کرتا میں تذکرہ تیرا
جھانک کر تیری جھکتی آنکھوں میں
پڑھ لیا میں نے فیصلہ تیرا
کون سمجھے گا میرے دل کا حال
کس نے دیکھا ہے دیکھنا تیرا
جانے کب پگھلے اُن کا دل راغبؔ
جانے کب حل ہو مسئلہ تیرا
افتخار راغبؔ دوحہ قطر
============================
گفتگو : غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
چھُپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے
کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے
آس ٹوٹی تو ساتھ ہی راغبؔ
سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے
⛧ ⛧ ⛧
باعثِ اضطراب خاموشی
اک مسلسل عذاب خاموشی
گفتگو ہے ابھی ہمہ تن گوش
کر رہی ہے خطاب خاموشی
کس قدر دل خراش ہے مت پوچھ
خامشی کا جواب خاموشی
سارے لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا
جب ہوئی باریاب خاموشی
خوش بیانی کا زعم ختم ہوا
کر گئی لاجواب خاموشی
اک طرف پرکشش مرے اشعار
اک طرف اجتناب، خاموشی
اُن کے ہونٹوں پہ کچھ نہیں راغبؔ
ہو گئی بے نقاب خاموشی
⛧ ⛧ ⛧
کیوں ہے لہجہ بجھا بجھا تیرا
کیا ہوا اب وہ ولولہ تیرا
وقفے وقفے سے کھول کر کھڑکی
اچھا لگتا ہے جھانکنا تیرا
تیری آنکھوں میں جھانک کر دیکھوں
عکس میرا ہو آئنہ تیرا
کیا منائے گا اپنے دل کی خیر
جس سے پڑ جائے واسطہ تیرا
تیر سا لگ رہا ہے غیروں کو
میرے شعروں پہ تبصرہ تیرا
ٹوٹ جائے نہ ڈور سانسوں کی
باندھ رکھا ہے آسرا تیرا
جو بھی ملتا تھا مرنے والا تھا
کس سے کرتا میں تذکرہ تیرا
جھانک کر تیری جھکتی آنکھوں میں
پڑھ لیا میں نے فیصلہ تیرا
کون سمجھے گا میرے دل کا حال
کس نے دیکھا ہے دیکھنا تیرا
جانے کب پگھلے اُن کا دل راغبؔ
جانے کب حل ہو مسئلہ تیرا
——
افتخار راغبؔ، غزل کی دنیا کا عظیم نام
فطری طور پر بنی نوع انسان کو دیگر مخلوقات کی نسبت عمیق حسیات ودیعت کی گئی ہیں۔ قدرت نے جسے تخلیقی اظہار کے وصف سے نوازا ہو اُس میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ طبعی اضطراب گہری حساسیت کا غماز ہوتا ہے یہ وہ وصفِ عجیب ہے جس کے باعث داخلی اظہار کو فروغ ملتا ہے۔ جو لوگ داخلیت میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ان کے ہاں اضطرابی کیفیات مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ اس کڑی میں ہم افتخار راغب کا نام بڑے احترام سے لے سکتے ہیں۔ ان کے ہاں داخلی افکار وفور سے ملتے ہیں اُن کا شمار اُن شعراء میں ہوتا ہے جن کے حوالے سے ناقدینِ فن کے مابین ایک معتبر رائے ملتی ہے۔ ان کا شعری سفر تسلسل سے جاری و ساری ہے۔ ان کے فکر و فن کی بالیدگی کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
اور
کس قدر دل خراش ہے مت پوچھ
خامشی کا جواب خاموشی
سارے لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا
جب ہوئی باریاب خاموشی
اور
جھانک کر تیری جھکتی آنکھوں میں
پڑھ لیا میں نے فیصلہ تیرا
کون سمجھے گا میرے دل کا حال
کس نے دیکھا ہے دیکھنا تیرا
اور
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
اور
اک طرف پرکشش مرے اشعار
اک طرف اجتناب، خاموشی
اُن کے ہونٹوں پہ کچھ نہیں راغبؔ
ہو گئی بے نقاب خاموشی
اضطراب اگرچہ ایک داخلی کیفیت ہے لیکن یہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے جو شاعر کو مقبولیت و پذیرائی کی دوامی خصوصیت عطا کرتا ہے۔ اس کی جھلک تمام شعراء و شاعرات کے ہاں کم و بیش پائی جاتی ہے۔ افتخار راغب صاحب کے ہاں دیکھیں کہ :
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
اور
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
اور یہ دیکھیں کہ :
جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے
کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے
شاعری کے مابین افکار میں حیرت و استعجاب کا اہتمام غمازِ جدت ہوا کرتا ہے اور یہ ندرت ایک طویل ریاضِ سخن کے باعث میسر آتی ہے۔ جب فکر و فن پر شاعر کی گرفت مضبوط ہو جاتی ہے تو پھر لاشعوری اور شعوری طور پر اُس کے افکار میں تحیّر کے شواہد نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی کیفیت راغب صاحب کی غزلیات میں دیکھیں :
دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
اور
کون سمجھے گا میرے دل کا حال
کس نے دیکھا ہے دیکھنا تیرا
جانے کب پگھلے اُن کا دل راغبؔ
جانے کب حل ہو مسئلہ تیرا
اور
گفتگو ہے ابھی ہمہ تن گوش
کر رہی ہے خطاب خاموشی
افتخار راغب صاحب فکر و فن پر دستگاہ رکھنے والے شاعر ہیں اس لیے انہوں نے تمام غزلیں پورے وثوق سے کہی ہیں۔ وہ فکری فنی وسعتوں سے ہمکنار ہیں۔ ان کا کلام قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ مصرع در مصرع شعر در شعر اور غزل در غزل اُن کے افکار کی پرتیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ویسے تو اُن کے ہاں ایک موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے لیکن تحیّر ایک مستقل حوالے کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کی مثالیں اوپر میں نے پیش کر دی ہیں۔
============================
چشمِ دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحنِ دل میں بہت چہکتی ہے
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
چھُپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشمِ سخن پھڑکتی ہے
جلنے والوں سے کیا کوئی پوچھے
کیوں انھیں روشنی کھٹکتی ہے
آس ٹوٹی تو ساتھ ہی راغبؔ
سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے
افتخار راغبؔ ۔ دوحہ قطر
گفتگو: محمد زبیر، گجرات، پاکستان
رومان و عرفان کے تار و پود سے بافتہ محترم جناب افتخار راغب کی دلکشا اور روح پرور غزل اس وقت نظر نواز ہے۔
شاعروں کے مرغوب و محبوب پیمانے(وزن) ” فاعلاتن مفاعلن فعلن“ میں لکھی یہ غزل عام سطحی قافیہ و ردیف کی حامل ہے تاہم شاعر موصوف نے فنی چابک دستی سے ایسی قافیہ گری کی ہے کہ اپنے مطلوبہ معانی کا اک اک جہاں تخلیق کر دیا ہے۔ کڑکتی ، درکتی، پھڑکتی وغیرہ کو کمالِ ہنر سے برتا ہے ۔
مطلع صورتِ نوینی میں عرفانِ ذات اور تعمیرِ ذات کی خاطر طبیبِ خاص اور معمارِ نفس کے انتظار میں شاعر کے اضطراب کو عیاں کرتا ہے ۔ شاعر کی یہ عالی حوصلگی ان کے جہانِ دروں کی پختگی پہ دال ہے۔
شعرِ دوم میں ایک گوہرِ حکمت سے قارٸین کو متمول کیا گیا ہے جس کی تاٸید میں کہا جا سکتا ہے ۔” سہج پکے سو میٹھا ہو “
شعرِ سوم میں کم و بیش مطلع میں پیش کردہ مضمون کو دہرایا گیا ہے مگر یہاں مقصود سے ملاقات کی آرزو اور اشتیاق کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اضطراب کی بجاٸے امید کی چہکار کا ذکر شاعر کی طبع میں انبساط وطرب کے وفور کا پتہ دیتا ہے۔
شعرِ چہارم میں فطری مظہر کو عمومی انداز میں بیان کیا گیا ۔ ”درکتی ہے “ کے استعمال سے ندرت پیدا کی گٸی ہے۔ مٶثر قرینے سے درس ِ زندگانی دیا گیا کہ ایک کے دردناک انجام کو محسوس کرنا اور عبرت حاصل کرنا تقاضاٸے انسانیت ہے۔ عالم امکانات میں اعمال اور ان کے عواقب کا ادراک شاعر کی فہم و بصیرت کا عکاس ہے۔
شعرِ پنجم روایتی شاعرانہ رومانویت کو عمومی انداز میں بیان کرتاہے۔ جبکہ شعرِ ششم اور شعرِ ہفتم میں مطلع کے مضمون ہی کی تکرار ہے ۔ فقط اشعار کی تعداد میں اضافہ پیشِ نظر ہوگا حالانکہ اس طرح غزل کی مجموعی تابناک فضا ماند پڑ تی نظر آتی ہے۔
شعرِ ہشتم البتہ پر حکمت اور بصیرت افروز ہے ۔ غزل کا مان بڑھاتا ہوا۔
مقطع ”جب تک سانس تب تک آس“ کی بطرزِ نو پیشکش ہے جو یقینًا شاعر موصوف کی شاعرانہ ہنرمندی کی دلیل ہے۔
حرفِ آخر کے طور پر عرض ہے کہ شاعر موصوف اشعار کی تعداد کو غزل کی توقیر بنانے یا بڑھانے کی بجاۓ کم اشعار کی اثر آفرینی پہ توجہ رکھتے اور ایک ہی مضمون و خیال کی تکرار سے احتراز کرتے تو غزل مزید پراثر اور جانفزا ہو سکتی تھی۔
شاعر کے علم و فن میں فزونی کی دعا کے ساتھ، ۔۔۔۔۔۔
============================
شاعر : افتخار راغب
گفتگو: شیخ نورالحسن حفیظی کشمیر
چشم دل جس کی راہ تکتی ہے
اب وہ بجلی کہاں کڑکتی ہے
واہ خوبصورت و عزم و ہمّت سے بھر پور مطلع
شاعر نامدار بجلیوں کے کڑکنے اور آسمانی روشنی سے آنکھیں روشن کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ وہ بجلی نہیں جس کا ذکر۔قرآن نے بایں طور کیا ہے
او کصیب من السماء فیہ ظلمت و رعد و برق
بلکہ اس بجلی کی راہ تکتے ہیں جو طور پہ چمکی تھی جس کی روشنی حرا کی پہاڑی سے نکل کر عالم کو روشن کر گئی اور جس بجلی کو مقرّبین بارگاہ ایزدی اپنے سینوں میں دبائے پھرتے ہیں شاید شاعر اسی بجلی کی راہ تکتے ہیں جو اب دنیا کی عارضی چکا چوند میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوئی ہے
ہو سکتا ہے شاعر اپنے محبوب سے آنکھیں ملانا چاہتا ہو
اے واعظِ ناداں کرتا ھے کیوں روز قیامت کا چرچا
یہاں روز نگاہیں ملتی ہیں اور روز قیامت ہوتی ھے
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا. کرے کوئی
دیر لگتی ہے جس کو جلنے میں
آگ وہ دیر تک دہکتی ہے
یہ بھی عمدہ شعر ہے کہ جو چیز جتنی دیر میں ملے وہ اتنی ہی پائیدار ہوتی ہے
جب وظیفہ مکمل ہوتا ھے تو نتیجہ برآمد ہوتا ھے
تجھ سے ملنے کی آس کی چڑیا
صحن دل میں بہت چہکتی ہے
تصوّف کا رنگ لیے ہوے خوبصورت شعر
آس کی چڑیا سے روح بھی مراد لی جاسکتی ہے
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
تجھ سے ملنے کی آس کی …. جگہ ملنے کی آس میں ہوتا تو بہتر تھا
جان تو جاتے ہی جائے گی قیامت یہ ھے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ھے نظارا تیرا
دل دہلتا ہے دوسری کا بھی
ایک دیوار جب درکتی ہے
ایں اب دیواروں کے دل بھی ہوگئے
یہی شاعر محترم کا خاصہ ہے کہ نئی تراکیب بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں
قوم مسلم کو اگر دیوار کہا جائے تو ایک کے بعد ایک مسلم ممالک ریت کی دیواروں کی طرح ٹوٹ رہے ہیں اس پر دل دہکنا لازمی امر ہے
چھپنے والی نہیں مری چاہت
تیری آنکھوں میں جو چمکتی ہے
عشق کی پختگی اور عاشق کی استقامت معشوق کی آنکھوں میں جگہ بنا لیتی ہے
خوب ہے
تشنگی میری جس سے ہے منسوب
وہ صراحی کہاں چھلکتی ہے
مطلع کی طرح اس شعر میں بھی روحانی بے چینی اور مے خانوں کی نایابی کا شکوہ کیا ہے
یا تلاش ہے کہ وہ صراحی کہاں چھلکتی تاکہ وہاں تک جانے کی سعی کی جائے
اللہ کسی ساقیِ بادہ گلفام سے ملادے
جانے کب وہ غزل ہو جلوہ گر
روز چشم سخن پھڑکتی ہے
خوب سے خوب تر کی تلاش
گویا
ابھی دریا کو پی کر آگیا ہوں
سمندر سے کہو میں ہوں پیاسا
جلنے والوں سے کوئی کیا پوچھے
کیوں انہیں روشنی کھٹکتی ہے
بہت خوبصورت شعر
آس ٹوٹی تو ساتھ ہی راغب
سانس کی ڈور ٹوٹ سکتی ہے
بہت خوبصورت مقطع
آس ہے تو سانس ہے
امید پہ دنیا قائم ہے
حسرت پرواز میں کیا شان ہے پرواز کی
بہت خوبصورت و معیاری غزل
نا امیدی کفر ھے بالفاظِ دیگر نا امیدی موت ھے
اللہ آپ کے علم میں ، عمل میں ، رزق میں بے پناہ برکت عطا فرمائے
==========================
ناقد غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان کی شاعری
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
نالہ سیلابِ نارِ گریہ ہے
آہ پروردگارِ گریہ ہے
آدمیت حصارِ گریہ ہے
یعنی تارِ مدارِ گریہ ہے
طرہ بردوش شمعِ ہستی سے
موم گرتا فشارِ گریہ ہے
عہدِ آئندہ خوابگاہِ عروس
عمرِ رفتہ غبارِ گریہ ہے
عارضِ نو دمیدہ پر شبنم
زخمہ یابِ تتارِ گریہ ہے
بستِ مژگاں ،کشادِ چشمِ سحاب
لحظہ لحظہ شمارِ گریہ ہے
رقصِ آہوئے شوقِ آوارہ
پیشِ رُوئے مزارِ گریہ ہے
اشکِ خُونِیں سے خدِّ افقِ حباب
سُرخ بہرِ شرارِ گریہ ہے
طاسکِ سرنگوں کی پہنائی
مثلِ کَف خواستگارِ گریہ ہے
آتشِ شعلہ وَر کی نیرنگی
لالہ زارِ بہارِ گریہ ہے
ہر نَفَس سے عیاں سرودِ سرشت
دخترِ روزگارِ گریہ ہے
سازِ بلبل ہے زمزمہ انداز
نغمہ کارِ فگارِ گریہ ہے
عہدِ نو میں ہر ایک چہرے پر
منسلک اشتہارِ گریہ ہے
بالِ طاؤسِ مردمِ دائمؔ
سر بسر زیرِ بارِ گریہ ہے
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
ذہن کی لوحِ مزار پہ دائِم یورشِ معنیٰ سمجھے کون؟
جدتِ ذوق کی داد تو دے دے، پرسشِ معنیٰ سمجھے کون؟
رختِ خيال کو دوشِ نوشتہ مل بھی جائے اگر، لیکن
لفظ میں پنہاں عکسِ تماشا، جوششِ معنیٰ سمجھے کون؟
ذوقِ نمودِ تجمُّلِ مطلق، شعلۂ سینا، طُور، کلیم
سب کچھ سادہ سی باتیں ہیں، جنبشِ معنیٰ سمجھے کون؟
میرا تو ہر گام سلاسل میں جکڑا ہے، ظاہر ہے
قدموں کی جھنکار سے عریاں لرزشِ معنیٰ سمجھے کون؟
لفظ لبادہ ہو جائے تو باطن میں ہوگا مفہوم
لفظ اشارت ہو جائیں تو پوششِ معنیٰ سمجھے کون؟
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
موجۂِ ریگِ رواں کی ہے عناں گیر صبا
سُوئے گلزار چلی از رہِ تسخیر صبا
ہم پئے لطفِ بہاراں جو چمن گیر ہوئے
ہر گُلِ بستہ کے سینے پہ تھا تحریر صبا
میرے آوازۂِ اقبال پہ حیراں کیوں ہو؟
شمعِ شہرت کی مری کرتی ہے توقیر صبا
سرمۂِ چشمِ غزالاں کی قدم بوسی کو
عازمِ دشت ہوئی صورتِ زنجیر صبا
میں نہیں داد طلب اپنے ہُنر کا دائمؔ
میرے افکار کی کرتی تو ہے تشہیر صبا
غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان
============================
ذہن کی لوحِ مزار پہ دائِم یورشِ معنیٰ سمجھے کون؟
جدتِ ذوق کی داد تو دے دے، پرسشِ معنیٰ سمجھے کون؟
رختِ خيال کو دوشِ نوشتہ مل بھی جائے اگر، لیکن
لفظ میں پنہاں عکسِ تماشا، جوششِ معنیٰ سمجھے کون؟
ذوقِ نمودِ تجمُّلِ مطلق، شعلۂ سینا، طُور، کلیم
سب کچھ سادہ سی باتیں ہیں، جنبشِ معنیٰ سمجھے کون؟
میرا تو ہر گام سلاسل میں جکڑا ہے، ظاہر ہے
قدموں کی جھنکار سے عریاں لرزشِ معنیٰ سمجھے کون؟
لفظ لبادہ ہو جائے تو باطن میں ہوگا مفہوم
لفظ اشارت ہو جائیں تو پوششِ معنیٰ سمجھے کون؟
غلام مصطفیٰ دائم اعوان
گفتگو: محمد زبیر، گجرات، پاکستان
اشہبِ ابر پہ سوار ایک باکمال فضاٸے بسیط میں گرداں اہلِ خاک سے یہ امید رکھے ہوٸے کہ وہ اس کے کمالات سے محظوظ ہوں، اس کے ہنرِ دل ربا کی موشگافیوں کو سمجھیں اور اس کو داد وتحسین کا خراج پیش کریں ۔ صاحب ! کرم فرماٸیے ! اپنے ہم نفسوں میں آٸیے۔ ان کی زبان، ان کے لہجے میں بات سمجھاٸیے تاکہ ”سمجھے کون؟“ کے شکوے کی تکرار نہ کرنا پڑے۔
” معنٰی سمجھے کون؟“ کی استفہامیہ ردیف حسنِ غزل کو دوبالا کر رہی ہے۔تاہم یہ استفہام جہاں قاری کی کم فہمی کو نمایاں کرتا ہے وہاں شاعر کی ابلاغیاتی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر شاعر موصوف اپنی لفظیاتی کاٸنات کو پیچیدہ تر اور دقیق تر تخلیق نہ کرتے تو انہیں یورشِ معنٰی، جوششِ معنٰی اور لرزشِ معنٰی وغیرہ نہ سمجھے جانے کا قلق نہ ہوتا کہ کسی متکلم بالخصوص شاعر کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کا گفتہ سنا جاٸے اور سمجھا جاٸے۔
دوسرے زاویہ سے دیکھا جاٸے تو شاعر شکوہ نما سوال ”سمجھے کون“ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ ذوقِ ادب بالخصوص شعری ذوق کا فقدان اہلِ علم میں بھی در آیا ہے کہ اشعار کی صورت جواہرِ حکمت سے مستفیض ہونے سے محروم رہتے ہیں۔ اور یہ ایک المیہ ہے۔
مجموعی طور پر زیرِ نظر غزل شاعر کی علمی بضاعت اور فکری ریاضت کا قابلِ قدر ماحصل ہے۔
شاعر موصوف کے لیے نیک تمناٸوں کے ساتھ،
محمد زبیر، گجرات، پاکستان
=============================
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
موجۂِ ریگِ رواں کی ہے عناں گیر صبا
سُوئے گلزار چلی از رہِ تسخیر صبا
ہم پئے لطفِ بہاراں جو چمن گیر ہوئے
ہر گُلِ بستہ کے سینے پہ تھا تحریر صبا
میرے آوازۂِ اقبال پہ حیراں کیوں ہو؟
شمعِ شہرت کی مری کرتی ہے توقیر صبا
سرمۂِ چشمِ غزالاں کی قدم بوسی کو
عازمِ دشت ہوئی صورتِ زنجیر صبا
میں نہیں داد طلب اپنے ہُنر کا دائمؔ
میرے افکار کی کرتی تو ہے تشہیر صبا
کلام : غلام مصطفیٰ دائم
گفتگو : افتخار راغب بھارت
موجۂِ ریگِ رواں کی ہے عناں گیر صبا
سُوئے گلزار چلی از رہِ تسخیر صبا
بڑا پیار مطلع ہے۔ شاعر کہنا ہے کہ صبا ریگِ رواں کی موج کی عناں گیر ہے یعنی لگام پکڑنے والی یا کنٹرول کرنے والی ہے۔ دوسرے مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ صبا تسخیر کی راہ سے گززتی ہوئی گلزار کی طرف چل پڑی ہے۔ بڑے مرصع و مسجع مصرعے ہیں۔ مجھے صبا کا لفظ پڑھ کر تھوڑی حیرانی ہوئی کہ شاعر نے صبا کہہ کر شعر کو محدود کیوں کر دیا ہے۔ اس کی جگہ ہوا کیوں نہیں کہا ہے۔ صبا ایک خاص ہوا کو کہتے ہیں جو صبح میں چلتی ہے جو خوشبو دار ہوتی ہے وغیرہ۔ موجۂ ریگِ رواں کی عناں گیر کے طور پر ہوا زیادہ مناسب ہے۔
ہم پئے لطفِ بہاراں جو چمن گیر ہوئے
ہر گُلِ بستہ کے سینے پہ تھا تحریر صبا
شاعر کہتا ہے کہ ہم بہاراں کا لطف لینے کے لیے جب چمن میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ہر افسردہ گلوں کے سینے میں لفظ صبا لکھا ہوا ہے گویا سبھی صبا کی محبت میں گرفتار ہیں یا اس کے منتظر ہیں۔ پئے لطفِ بہاراں، چمن گیر اور گلِ بستہ جیسی تراکیب بہت عمدہ ہیں۔
میرے آوازۂِ اقبال پہ حیراں کیوں ہو؟
شمعِ شہرت کی مری کرتی ہے توقیر صبا
شاعر کہتا ہے کہ میری خوش بختی کے آوازے پر کیوں حیراں ہو؟ میری شہرت کی شمع کی توقیر صبا کرتی ہے۔ بہت عمدہ شعر ہے۔
سرمۂِ چشمِ غزالاں کی قدم بوسی کو
عازمِ دشت ہوئی صورتِ زنجیر صبا
پہلا مصرع بہت واضح ہے لیکن دوسرے میں دو الفاظ عازم اور زنجیر شعر کو گنجلک بنا رہے ہیں۔
میں نہیں داد طلب اپنے ہُنر کا دائمؔ
میرے افکار کی کرتی تو ہے تشہیر صبا
دوسرا مصرع دیگر مصرعوں کے معیار کے مقابلے بہت کمزور ہو گیا ہے۔ تشہیر لفظ کا بھی آج کل غلط استعمال ہونے لگا ہے ورنہ متقدمین میں یہ رسوا کیے جانے کے معنوں مستعمل ملتا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ
موئے پر اور بھی کچھ بڑھ گئی رسوائی عاشق کی
کہ اس کی نعش کو اب شہر میں تشہیر کرتے ہیں
دوسرے مصرع میں ردیف صبا بھی چسپاں نہیں ہے۔ کوئی جواز فراہم نہیں کیا گیا ہے کہ صبا کیوں کرتی ہے تشہیر۔
مجموعی طور پر ایک مشکل زمیں میں دلکش تراکیب و مشکل لفظیات سے مزین ایک اچھی غزل ہے۔ البتہ میں اب بھی کہوں گا کہ شاعر نے صبا کی جگہ ہوا ردیف کے ساتھ غزل کہی ہوتی تو اشعار میں اور معنویت پیدا ہوئی ہوتی۔ پھر بھی ایک اچھی کاوش کے لیے داد و مبارکباد
=============================
شاعر: غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان
گفتگو:محمد زبیر، گجرات، پاکستان
سبک خرام قافیہ اور دلکشا ردیف ”صبا“ کی حامل غزل نظر نواز ہے۔ شاعر موصوف نے عام مستعمل اور شعرا ٕ کے دلپسند وزن ” فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن“ کو اپنی غزل کی بافت کے لیے منتخب کیا ہے۔
اولین خواندگی میں دلکش ردیف و قافیہ اور قدرے نادر تراکیب سے فاضل شاعر قارٸین کو متأثر و مسحور کرنے کی سعی کرتے ہوٸے نظر آتے ہیں
مطلع میں موجہِ ریگِ رواں اور سوٸے گلزار ایسی شاندار اور جاندار تراکیب جلوہ فگن تو ہیں تاہم ”صبا“ کے کردار کو اس کی فطری اور عمومی خصوصیت کے بر عکس پیش کیا گیا ہے۔ صبا سے تو بالعموم دلکشاٸی اور روح افزاٸی منسوب ہے تاہم یہاں وہ عناں گیریت کا منصب سنبھالے دکھاٸی دے رہی ہے جو اولًا صحرا کی ہیٸت کو تاراج کرتی ہے ۔بعدًا تسخیر کے لیے واردِ گلزار ہوا چ