شہزاد نیر ایک منفرد شاعر
شہزاد نیرمیجر شہزاد نیر 29 مئی 1973 میں گوجرانوالہ کے نوا حی قصبہ گوندلانوالہ میں پیدا ھوئے۔۔۔۔۔۔ابتدائی تعلیم آپ نے گوجرانوالہ سے حاصل کی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایف سی کالج لاھور سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد عسکری ملازمت اختیار کر لی اور مختلف مقامات پر تعینات رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے ایم اے اردو فرسٹ ڈویژن میں کرنے کے بعد میس کمیونیکیشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور اب ایم فل کر رہے ہیں۔ فارسی زبان و ادب میں ڈپلومہ حاصل کیا۔۔۔۔۔ آپکو عربی زبان سے بھی واقفیت ھے، پنجابی میں شاعری بھی کرتے ہیں۔
شعر و ادب کے ساتھ رغبت کا آغاز اسکول کے زمانے سے ھی ہو گیا اور خود بخود اشعار ھونے لگے ۔۔۔۔۔۔ متعدد ادبی جرائد مثلاً فنون ، اوراق ، معاصر وغیرہ میں آپکا کلام شائع ھوتا رھا ۔۔۔۔۔۔ آپ ملکی و غیر ملکی ادب کے پُر شوق قاری ہیں۔۔۔۔۔۔برطانیہ، فرانس، سعودی عریبیہ اور متحدہ عرب امارات کے یاد گار بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی۔۔۔ ادبی تنقید اور لسانیات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادبی تنقید پر آپ کے متعدد مقالے شائع ہو چکے ہیں ۔
شہزاد نیر کے مجموعہ ہائے کلام
شہزاد نیر صاحب کا شاھکار نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ ’’برفاب‘‘ 2006 میں شائع ھوا جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کئے ۔ برفاب کو بین الاقوامی ادبی تنظیم نے ’’پین ایوارڈ ‘‘ سے بھی نوازا ۔(’’PEN AWARD ‘‘ )اب تک ’’برفاب‘‘ کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔اور اس شاندار مجموعہ کلام پر درجنوں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔
آپکا دوسرا مجموعہ ء کلام ’’چاک سے اُترے وجود‘‘ 2009 میں منظر ِعام پر آیاجو نظموں اور غزلوں پر مشتمل ھے۔ اس کتاب کو پروین شاکر عکسِ خوشو ایوارڈ سے نوازا گیا
شہزاد نیر صاحب کا تیسرا مجموعہ ء کلام ’’گرہ کُھلنے تک ‘‘ 2013 میں شائع ہوا ، اس کا دوسرا ایڈیشن زیرِ طبع ہے
ایوارڈز کی تفصیل
PEN International Award
صوفی غلام مصطفٰی تبسم ایوارڈ
ایوان فیض امن ایوارڈ
اقبال ایوارڈ دُبئی
اس کے علاوہ بہت ساری ادبی تنظیموں کی طرف سے لاتعداد اعزازی شیلڈز اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔
عصر ِ حاضر میں زود گو شعرا کے جم ِ غفیر میں اپنی ایک الگ پہچان بنانا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن شہزاد نیر نے یہ مشکل کام بہت آسانی سے کر لیا ہے ۔بہت کم عرصے میں شہزاد نیر نے اپنی تخلیقی توانائیوں کا لوھا منوا کر اردو شاعری میں ایسا مقام بنا لیا ہے جس کی تمنا بہت سے شاعر ساری عمر کرتے رہتے ہیں مگر وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے جو شہزاد نیر صاحب نے بہت کم عمری میں حاصل کر لیا ہے۔ شہزاد نیر کی شاعری کا ایک اور بہت ہی خوبصورت پہلو یہ ہے کہ میجر شہزاد نیر نظم اور غزل بیک وقت ان دونوں اصناف میں اپنے فن کا لوہا منوا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کی طویل نظموں ’’خاک‘‘ ، ’’سیاچن‘‘ اور ’’نوحہ گر‘‘ , نے شہرہ ء آفاق مقبولیت حاصل کی ۔۔۔۔۔ سنجیدہ ادبی حلقوں شہزاد نیر کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نظم ہو یا غزل۔۔۔۔۔۔ اپنا ایک منفرد لہجہ اور مزاج ہے جو انھیں اپنے ہم عصر شعرا سے ممتاز کرتا ہے آپکی شاعری پر درجنوں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔۔۔۔صرف برفاب پر ھی اب تک چالیس مقالے لکھے ہیں۔
شہزاد نیر کے بارے میں احمد ندیم قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’شہزاد نیر نوجوان شاعر ھیں مگر انہوں نے نوجوانی ھی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوھا منوا لیا ھے۔۔۔۔۔۔وہ دونوں اصناف ِ شعر ، نظم اور غزل کو سلیقے سے برتتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کا جوھر بیشتر ان کی نظموں میں کھلتا ھے۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے آس پاس کی صورتحال کا مطالعہ بہت ذھانت اور ذکاوت کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور اس مطالعے کے فنکارانہ اظہار میں کوئی بھی مصلحت ان کی مزاحم نہیں ھوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ ان کی شاعری کا نمایاں تاثر صداقت اور حقیقت ھے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خواب بھی یقیناً دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔مگر ان خوابوں کو بھی ماورائیت کے سمندر میں ڈوبنے سے بچائے رکھتے ہیں اور یہ بہت بڑی بات ہے ‘‘
( احمد ندیم قاسمی)
امجد اسلام امجد شہزاد نیر کے بارے میں لکھتے ہیں
’’یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ھوتی ھے کہ شہزاد نیر کی بیشتر شاعری سیاچن کے علاقے کی ھے اور یہ ’’علاقہ‘‘ موضوع کے ساتھ ساتھ معیار کا بھی احاطہ کرتا ھے۔۔۔۔۔۔ذاتی طور پر مجھے شہزاد نیر کی نظموں نے زیادہ متاثر کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔انہیں نظم کی بنت کا فن اتا ھے۔۔۔۔۔اور وہ اندرونی قافیوں اور مترنم بحروں کی مدد سے اپنی نظم میں وہ خصوصیت پیدا کرنے میں کامیاب ہیں جو قاری کو اپنے سحر میں لے کر نظم کی آخری لائن تک اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی بیشتر نظموں میں سیاچن تجربے کے باعث ایک ایسی امیجری در آئی ھے جس کی مثال اردو شاعری میں بہت مشکل سے ملے گی۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے برف میں ایسے خوش رنگ پھول کھلائے ہیں جن سے اردو نظم کی فضا یقیناً معطر اور لکش ہو گئی ھے ۔۔۔۔‘‘
( امجد اسلام امجد)
شہزاد نیر پاکستان کے بہت معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اور محبت کرنے والے انسان بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو آپ کی طبیعت میں عاجزی و انکساری ھے۔۔۔۔۔۔ شہزاد نیر صاحب حسد ، کینہ ، بغض ، نفرت اور سیاسی آلودگی جیسی روایتی نفسیاتی بیماریوں سے پاک وسیع القلب اور مہربان شخصیت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی وجہ سے آپ شعرا ء ادبا ء اور قارئین میں بھی اُسی قدر مقبول ہیں۔۔۔۔۔ شہزاد نیر جیسے خوبصورت شاعر کے تخلیقی وفور اور گہرے شعور کو دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ھے کہ مستقبل قریب کے ایک لِوونگ لیجنڈ کی سِیٹ ریزرو ہو گئی ھے
شہزاد نیر صاحب کے اپنے الفاظ ’’دعائے استقامت ہو میں لفظوں کی لگن لے کر چلا ہوں‘‘ سو شہزاد نیر کے لئے دعائے استقامت ! اور بہت ساری خیر !
مضمون نگار : ناز بٹ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“