’’گاندھی جی اسلام کی بہت تعریف کرتے ہیں‘‘ محمد علی جوہر سُن کر مسکرائے اور جواب دیا‘ ’’اگر اسلام گاندھی جی کو اتنا ہی پسند ہے تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘
ملا عمر کے شیدائیوں سے بھی یہی سوال پوچھنا چاہیے۔ سب سے نہیں‘ مگر اُن سے ضرور جو بیٹھتے ملا عمر کے کیمپ میں ہیں اور کرتے وہ سب کچھ ہیں جو ملا عمر کو پسند نہیں!
ملا عمر کے طرفدار دو قسم کے تھے۔ ایک تو اہلِ مدارس! ان کے بارے میں اور جو کچھ بھی کہیں‘ ملا عمر کے حوالے سے انہیں منافق نہیں کہا جا سکتا۔ چند سال پہلے کی بات ہے۔ سکردو کی ایک مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے داخل ہوا۔ خطیب صاحب تقریر کر رہے تھے جو ملا عمر کے فضائل پر تھی۔ وہ ان کے لیے امیر المومنین کا لقب استعمال کر رہے تھے۔ دل میں سوچا اگر پاکستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہو تو خطیب صاحب کو کیا فرق پڑے گا؟ کچھ بھی نہیں! پگڑی باندھ رکھی ہے۔ باریش ہیں۔ حجرے میں رہتے ہوں گے یا سادہ سے کچے مکان میں‘ بیگم بیٹیاں سختی سے پردہ کرتی ہوں گی۔ باہر نکلتی ہوں گی تو میاں یا بھائی یا باپ ساتھ ہوتا ہوگا۔ صاحبزادے مدرسہ میں زیر تعلیم ہوں گے۔ رہیں بین الاقوامی امور کی گہرائیاں یا ملکی معیشت کی نزاکتیں یا صنعتی اور زرعی پالیسیوں کی تہہ در تہہ مشکلات… تو ان سے لینا دینا ملا عمر کو ہے نہ اُن کے اُن متبعین کو جو زندگی اپنے امیر کی طرح گزار رہے ہیں!
مگر عجیب و غریب طرزعمل اُن حضرات کا ہے جو ملا عمر کی حیات میں بھی ان کی شان میں رطب اللسان رہے اور ان کی وفات پر بھی ان کے طرزِ زندگی اور طرزِ حکومت کے حوالے سے ناسٹیلجیا سے چھلکتے مضامین لکھے۔ بعض نے تو ڈانڈے قرونِ اولیٰ تک سے ملا دیے! مگر ان کی عملی زندگیوں پر ملا عمر کا کوئی اثر نہ تھا!
ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے‘ افغانستان پر اپنی عمل داری قائم کرنے کے بعد ملا عمر مشرق کا رُخ کرتے اور اسلام آباد میں بیٹھ کر پورے پاکستان پر حکومت کرنا شروع کردیتے تو اُن سب حضرات پر کیا گزرتی جو انہیں عالم اسلام کا نجات دہندہ قرار دے رہے تھے۔ ان میں صحافی‘ بیوروکریٹ اور جرنیل سب تھے۔ کچھ تھری سٹار جرنیل دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کچھ فورسٹار ابھی حیات ہیں۔ تصور کیجیے‘ انہیں داڑھیاں رکھائی جاتیں‘ پھر لالٹین کے شیشے سے ماپی جاتیں‘ سروں پر پگڑیاں ہوتیں۔ بیگمات شٹل کاک برقعے پہنتیں۔ سینکڑوں تھری پیس سوٹ‘ ریشمی نکٹائیاں‘ ارمانی اور باس کی فرنگی قمیضیں‘ پتلونیں‘ خواتین کے ملبوسات سے بھرے وارڈ روب‘ سب کا کیا ہوتا؟ شاپنگ کرنے والیوں کی سرِ بازار پٹائیاں ہوتیں!
یہ موازنہ تو ہم ایک تنگ دائرے میں کر رہے ہیں! یہ سوال تو پوچھ ہی نہیں رہے کہ سیکرٹریٹ میں کیا ہوتا؟ سپریم کورٹ پر کیا گزرتی؟ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو کون چلاتا۔ سٹیٹ بینک سے لے کر ضلعی اکائونٹس کے دفتروں تک…سینکڑوں اداروں کا کیا بنتا؟
دارالحکومت کے ایک مقام‘ پشاور موڑ کے قریب بازار کے وسط میں ایک افغان نانبائی تھا۔ صدقہ خیرات کرنے والے رقم اس کے حوالے کر جاتے۔ وہ حساب کر کے روٹیاں ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتا۔ ایک بار یہ منظر آنکھوں سے دیکھا۔ دکان کے سامنے درجنوں افغان خواتین کچھ چہروں کو ڈھانپے اور کچھ شٹل کاک برقعوں میں ملفوف‘ سڑک کے کنارے انتظار میں بیٹھی تھیں۔ دکاندار نے بلایا تو اُن کا ہجوم تھا۔ ایک ایک روٹی کے لیے ہاتھ آگے کر رہی تھیں! عقیدت مندی ہمیشہ شخصیت پرستی تک لے جاتی ہے۔ حیرت کی انتہا نہ رہی‘ ملا عمر کا ذکر کرتے ہوئے امیر المومنین عمر فاروقؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ تک کو اُسی قطار میں رکھ دیا گیا! خدا اِس قوم کی حالت پر رحم کرے‘ مرحوم کے لیے عمر ثالث کے الفاظ اِن آنکھوں نے پڑھے۔ کہاں در بدر‘ ماری ماری پھرتی دستِ سوال پھیلاتی‘ ہزاروں لاکھوں افغان خواتین! اور کہاں یہ فرمان کہ فرات کے کنارے کتا بھی مر گیا تو جواب دہی ہوگی! پیٹھ پر راشن لاد کر‘ ایک ایک عورت کے گھر پہنچانا۔ شیرخوار بچوں کے وظائف مقرر کرنا! کہاں وہ طرزِ فکر کہ غیر مسلموں کے قبول اسلام پر محکمۂ مال نے کمنٹ دیا کہ جزیہ کی وصولی کم ہو جائے گی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ پیغمبرِ اسلام کو اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا تھا کہ مال اکٹھا کریں۔ کہاں یہ مائنڈ سیٹ کہ ہمارے علاوہ کوئی مسلمان ہی نہیں! اسلام کے دائرے کو نہ صرف اپنی فقہ‘ بلکہ اپنے مسلک تک محدود کر دیا!
خدا ملا عمر کو اپنی بے پایاں رحمتوں سے ڈھانپ لے اور اُن کی قبر کو مغفرت کے نور سے منور کرے۔ مسلمانوں کو پستی کی ذلت اور زوال کے گڑھے سے نکالنے والا لیڈر اُن جیسا نہیں ہوگا۔ ہرگز نہیں! اُسے عصرِ حاضر کے تقاضوں کا پورا ادراک ہوگا۔ وہ عسکری پہلوئوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی‘ سیاسی اور اقتصادی گتھیوں کو بھی سلجھائے گا۔ اس کے پاس کرۂ ارض کے ملکوں‘ ان کی پالیسیوں اور ان کی قوت اور کمزوریوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات ہوں گی۔ اس کا فہمِ اسلام اپنے مسلک اور چند ظاہری امور تک محدود نہیں ہوگا۔ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو وہی اہمیت دے گا جو دینی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جو مخلوقِ خدا اُس کے دائرۂ اختیار کے اندر بستی ہوگی‘ وہ اس کی فلاح‘ بقا‘ مسرت اور ا طمینان کا ذمہ دار ہوگا! وہ نیکر پہن کر فٹ بال کھیلنے والے غیر ملکیوں کے سر مونڈنے کا مضحکہ خیز حکم نہیں دے گا۔ وہ خواتین کو سرعام مارنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا نہ ہی وہ ان کی ملازمتیں چھڑوا کر انہیں بے دست و پا جانوروں کی طرح کھونٹوں سے باندھ دے گا! نہ ہی وہ اپنے لوگوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چھُپ جائے گا اور سامنے آنے سے اتنا گریز کرے گا کہ لوگوں کو کچھ اس کی زندگی کے بارے میں معلوم ہو نہ اس کی موت کی خبر ہو‘ نہ کسی کو پتہ ہو کہ وہ کہاں تھا اور دفن کہاں ہوا؟ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنے پیروکاروں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور ساتھ مرتا ہے!
عمر فاروقؓ کے بارے میں ہم یہ بات سنتے ہیں کہ کسی ملک کا سفیر آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ مسجد نبوی کے قریب زمین پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔ سر کے نیچے اینٹ دھری تھی! فرض کیجیے‘ حضرت عمرؓ کے دامن میں فتوحات‘ اصلاحات‘ اجتہاد میں سے کچھ بھی نہ ہوتا تو کیا محض سادہ زندگی انہیں وہ عمر فاروق بنا پاتی جسے دنیا عظیم مدبروں اور Statesmen میں شمار کرتی ہے؟ لیڈرشپ کہیے یا مسلمانوں کی امارت یا خلافت‘ جو نام بھی دے دیجیے‘ اس کا انحصار محض اس بات پر نہیں کہ کمرے میں چارپائی بان کی ہے اور دیوار کے ساتھ اوپر نیچے ٹرنک رکھے ہیں۔ نہ ہی محض تلوار اور بندوق پر ہے۔ نہ ہی اس بات پر کہ کسی کے بھی مشورے کو تسلیم نہ کیا جائے! اس کے لیے ذہن کی وسعت اور خیال کی رفعت درکار ہے! عورت جو زنا کے جرم میں لائی گئی‘ اُس سے پس منظر پوچھا گیا۔ اس نے بتایا کہ جنگل میں جہاں وہ مویشیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی‘ شدید پیاس کا شکار ہوئی۔ ساتھی چرواہے کے پاس پانی تھا۔ اس نے شدید مجبوری سے فائدہ اٹھا کر جسم مانگا۔ زندگی بچانے کا اور کوئی طریقہ نہ تھا۔ حضرت علیؓ پاس تشریف فرما تھے۔ انہوں نے رائے دی‘ یہ مجبور تھی! عمر فاروقؓ نے اسے چھوڑ دیا۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے‘ کیا یہ طالبان کی حکومت میں ممکن تھا؟ قحط کے دوران قطعِ ید کی سزا ختم کردی۔ مفتوحہ علاقوں کی زرعی زمینیں مالِ غنیمت کی طرح بانٹنے سے انکار کردیا!
عمر بن عبدالعزیزؓ کو اڑھائی برس ملے۔ شیرشاہ سوری کو صرف پانچ سال۔ ان کی سلطنتوں کی وسعتیں اور آبادی کوئی کھیل نہ تھی۔ پھر بھی قلیل عرصے میں وہ کام کیے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اثرات اور مظاہر موجود ہیں۔ ملا عمر نے اپنے دورِ امارت میں مفتوح شہروں کے عوام کے لیے کوئی ایسا کام نہ کیا جسے بعد کے حکمران اپنانے پر مجبور ہو جاتے۔ کوئی اقتصادی پالیسی! جو غریب عورتوں‘ بوڑھوں اور بچوں کی زندگی سہل کر دیتی! کوئی تعلیمی ادارے! جو نوجوانوں کو دنیا کے سامنے کھڑے ہو جانے کے قابل بنا دیتے! کوئی ایسی سرگرمی! جو بیکار افراد کو مصروف کرتی اور قلیل ہی سہی‘ آمدنی کا ذریعہ بنتی! آس پاس کے ملکوں سے کوئی تجارتی معاہدہ! جو افغانوں کو فائدہ دیتا! دو ملک‘ سعودی عرب اور پاکستان‘ ان کی حکومت کو تسلیم کر رہے تھے۔ ان سے یہی معاہدہ کر لیتے کہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمارے اتنے سو لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دو‘ انہیں دین کے علوم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر‘ انجینئر یا ماہرِ زراعت بنا دو تاکہ واپس آ کر ملک کی حالت بدل سکیں۔ یہ درست ہے کہ پوست کی کاشت ختم کی اور لوگوں سے ہتھیار رکھوائے مگر تاریخ کا طالب علم یہ بھی تو سوچتا ہے کہ اپنی سلطنت میں عوام کے آرام اور خوشحالی کے لیے ان کا وژن کیا تھا اور انہوں نے کیا کیا کام کیے! ان کا فہمِ دین کیا کہتا تھا کہ مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا اور وہ دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس اعتبار سے ملا عمر اور ہمارے مولانا صوفی محمد کے وژن میں کتنا فرق ہوگا؟ مولانا صوفی محمد نے ایک جلسے میں حاضرین سے حلف اٹھوایا کہ وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کی پگڑی باندھیں گے۔ مولانا فضل اللہ ان کے شاگرد‘ دست راست اور داماد تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ اُس زمانے کے ہر اخبار نے لکھا تھا اور ہر ٹی وی چینل نے بتایا تھا کہ مولانا فضل اللہ کو طالبان کی قیادت ملا عمر کے فیصلے کے مطابق سونپی گئی تھی! پھر یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ پشاور سکول پر حملہ مولانا فضل اللہ نے کرایا تھا۔ شاہراہ کو دیکھنے والے یہ بھی تو دیکھیں کہ کون کون سی پگڈنڈیاں کہاں کہاں سے آ کر شاہراہ میں ضم ہو رہی ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“