“ یار کچھ اور باتیں کرو “
“بھئی آج کل کچھ اچھا نہیں لگتا “
“خدا کے واسطے سنجیدہ ہو جاؤ، یہ ہنسی مذاق کا وقت نہیں”
سن دو ہزار بیس آدھا گذر گیا۔ اس قسم کے جملے ہر دوسری تیسری بات چیت میں سنائی دیتے ہیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ کوئی بری خبر نہیں سنائی دیتی۔ اپنے پیاروں کی جدائی سے بڑھ کر اور دکھ بھی کیا ہوگا۔ کل ہی کی بات ہے میں نے ایک دو نہیں، پوری دس ایسی بری خبریں سنیں۔(اور آج اور ابھی دوست محمد فیضی کی خبر سنی) ایسے میں واقعی کچھ اچھا نہیں لگتا۔
اور ہر ایسی خبر دینے والا اسے حددرجہ مغموم بنا کر پیش کرتا ہے، سننے والے مزید سوگ کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ لوگ اب دکھ میں ہی سکھ پاتے ہیں۔ ہر ایک کا جی چاہتا ہے کہ “ مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں”۔
خیر یہ آج کی بات ہے لیکن یوں بھی ہمارے ہاں دُکھی رہنے کو ہنسنے بولنے پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کوئی کسی کے بچھڑنے کی خبر سنائے تو اسے ہمت دلانے کی بجائے ہم اپنا رونا پیٹنا شروع کردیتے ہیں کہ “جب میرے ابا میاں گذرے تو میں نے کئی دن کھانا نہیں کھایا، تم سے بھلا یہ غم کیسے سنبھلے گا ، تم تو خالو جان کے بہت لاڈلے تھے۔ “۔ مطلب یہ کہ خبردار اس دکھ کو بھلانے کی کوشش نہ کرنا۔
زندگی کی یہی ناہمواریاں، راستے کے یہی کانٹے، زیست کی یہی مشکلیں ہیں جنہیں کچھ لوگ ہمارے لئے برداشت کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ میری دادی بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن وہ بتاتی تھیں کہ انتقال سے ایک رات پہلے میرے دادا ایک شعر پڑھتے تھے
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
ہم تو اس زندگی کو روکر ہی گزارنا چاہتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمیں گدگداتے ہیں، منہ چڑاتے ہیں، خود بھی ہنستے ہیں اور ہمیں بھی ہنساتے ہیں۔ یہ کام آسان نہیں۔ لیکن کچھ لوگ یہ مشکل کام بڑی آسانی سے کر گزرتے ہیں۔ ادب میں ایسے لوگوں کو مزاح نگار کہتے ہیں۔
میں نے جب سے پڑھنا سیکھا اور میں نے بہت کم عمری سے ہی اردو پڑھنا سیکھ لیا تھا، اس وقت سے ہی یہ ہنسنے ہنسانے والے بھی ساتھ ساتھ رہے۔زندگی کی کٹھنائیاں ان کی وجہ سے آسان ہوجاتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مجھے ادب کی سب سے متاثر کن صفت مزاح نگاری لگتی ہے۔اور یہی میری پسندیدہ ترین صفت بھی ہے۔
ظرافت، بذلہ سنجی، طنز، ہجو کیا ہیں، ان میں کیا فرق ہے یا کیا مشترک ہے مجھے اتنی باتیں نہیں آتیں۔ یہ سب بڑے لوگوں کی اور پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں ہیں اور مجھے ضرورت بھی نہیں آپ کو یہ سب کچھ سمجھانے کی۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ میں تو صرف آپ کو اپنے ساتھ طنزومزاح کی، ہنسی مذاق کی ان راہوں، پگڈنڈیوں اور شاہراہوں پر لیے پھرنا چاہتا ہوں جن سے میں گذرا۔ آپ بھی کہیں نہ کہیں ان راستوں سے گذرے ہونگے۔
میری سب سے پہلی یاد وہ دو رسالے ہیں جو کبھی کبھار میرے گھر آیا کرتے تھے اور وہ تھے “ تیس روزہ چاند” اور “ قہقہہ”۔ چاند کے مدیر وحشی مارہروی تھے جو خود کو “ پیر جنگلی علیہ ماعلیہ” لکھتے تھے۔ چاند میں آسان ترین مزاح ، لطیفے، کارٹون، پیروڈی اور مزاحیہ خبریں وغیرہ ہوا کرتی تھیں ۔ بہت سے نفیس طبع قاری شاید اسے مزاح کے اس معیار سے دور پائیں جو دوسرے مزاح نگاروں نے مقرر کیا۔ لیکن چاند اور قہقہہ کی وجہ سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ دل ہنسنے بولنے کی طرف مائل ہوا ورنہ اس سے پہلے عصمت وغیرہ جیسے رسالے مقبول تھے جس کے مدیر “ مصور غم” کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔
اور یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دوسری، تیسری جماعت میں تھا۔ طنزومزاح کی دیگر کتابیں بھی ہوں گی لیکن اس وقت تک ہماری دسترس سے دور تھیں۔ لیکن انہی دنوں اخبار بینی کا شوق ہوا اور میرا سب سے پسندیدہ کالم “ جنگ” اخبار میں ابراہیم جلیس کا “ وغیرہ وغیرہ” تھا۔ اس وقت یعنی آتھ نو سال کی عمر میں وہ باتیں سمجھ تو نہ آتیں لیکن پڑھنے میں مزہ آتا۔ اسی طرح “ انجام” اخبار میں فکاہیہ کالم چھپتا تھا جس کا عنوان مجھے یاد نہیں لیکن اسے کوئی “ رمضانی” لکھا کرتے تھے۔ میری ماں اسے بہت شوق سے پڑھتی تھیں۔ جنگ اور انجام کی مقبولیت کے عین زمانے میں ایک اور اخبار اس آن وشان سے آیا کہ اس نے دونوں اخباروں کی چکا چوند کو ماند کردیا اور وہ تھا “ حریت”۔ نصراللہ خان حریت میں “ آداب عرض” کے عنوان سے طنزیہ اور مزاحیہ کالم لکھتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ میرے دل میں “ وغیرہ وغیرہ” جیسی جگہ نہ پاسکے۔ انہی دنوں جنگ یا انجام میں کبھی کبھار مجید لاہوری اور اور چراغ حسن حسرت کا تذکرہ ہوتا۔ لیکن یہ میرے ہوش سنبھالنے سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔یہ دونوں بزرگ اس سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ یاد رہے میری اخبار بینی کا آغاز ساٹھ کی دہائی کی ابتداء میں ہوا تھا۔
یا پھر ایک نام سنائی دیتا اور وہ تھا شوکت تھانوی کا۔ شاید انجام میں بھی شوکت تھانوی لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ریڈیو سے قاضی جی کا قاعدہ بھی بہت مقبول تھا۔ گھر میں کبھی کبھار دنیائے تبسم یا بحرِ تبسم نامی کتابیں نظر آتیں۔ میری ماں صرف چار جماعت پڑھی تھیں لیکن انہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ رمضانی کے علاوہ شوکت تھانوی کو بھی بہت شوق سے پڑھتیں اور میرے چھوٹے چچا سے اس بارے میں تبصرے کرتیں۔ یہ باتیں ہمارے کانوں میں بھی پڑتیں اور ہمیں بھی علم ہوگیا کہ شوکت تھانوی “ ہنسانے والی” کہانیاں لکھتے ہیں۔
ان دنوں ہندوستانی رسالے شمع اور بیسویں صدی نئی دہلی بھی آیا کرتے تھے۔ ہر دورسالوں میں راجہ مہدی علی خان کی نظمیں چھپتیں اور اتنی عام فہم ہوتیں کہ مجھ تیسری، چوتھی جماعت کے طالب علم کے بھی کچھ نہ کچھ سمجھ آہی جاتیں۔ ساتھ ہی ڈائجسٹ رسالوں کا ظہور ہوا اور اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ بھی گھر میں نظر آنے لگے۔ ان ڈائجسٹوں میں “ مشکور حسین یاد” کے مضامین دل میں گھر کرنے لگے۔
طنزومزاح اب شوق نہیں ضرورت بن گئے تھے۔ اخبار ہوں یا رسالے،ریڈیو ہو یا فلم اس میں مزاحیہ چیزیں سب سے زیادہ توجہ پاتیں۔ ریڈیو پر ایک پروگرام ہوا کرتا تھا “ دھنک” جس کا نام بعد میں “ کہکشاں” ہوگیا تھا۔ اس میں مختصر مزاحیہ خاکے پیش کیے جاتے تھے اور یہ اور اسٹوڈیو نمبر نو ان دنوں کے ایسے ہی مقبول پروگرام تھے جیسے آج ڈرامہ ارطغرل ہے۔ کہکشاں میں رتن ناتھ سرشار کے فسانہ آزاد کے کردار “ میاں خوجی” نے بڑی دھوم مچائی تھی۔
ادھر ریڈیو پر “ سید محمد جعفری” کی شاعری سنتے اور سر دھنتے۔” نقشِ محبوب مصور نے سجا رکھا تھا۔۔مجھ سے پوچھو تو تپائی پہ گھڑا رکھا تھا” جیسے اشعار اب ہماری بھی سمجھ میں آنے لگے تھے۔ ریڈیو کا دور ختم ہورہا تھا اور ٹی وی کا زمانہ آرہا تھا ساتھ ہی دلاور فِگار اور ضمیر جعفری کی مزاحیہ شاعری بھی اپنا رنگ جما رہی تھی۔ آج کل انور مسعود بھی بہت مقبول ہیں
ادھر اخباروں میں ایک نئے کالم نگار نے ایسا رنگ جمانا شروع کیا کہ “ وغیرہ وغیرہ “ کا برسوں سے چھایا رنگ دھندلا ہونے لگا۔ یہ تھے انشاء جی۔ اور پھر انشاء جی نے، جن کا کاٹا سوتے میں بھی مسکراتا ہے، ایسا دل و دماغ پر قبضہ کیا کہ آج تک ان کے سحر سے نہیں نکل سکا۔
ہمارے گھر والوں کی طبیعت میں ہی شاید حسِ مزاح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ امی کو تو شوق تھا ہی چھوٹے چچا اور بڑے چچا بھی مزاحیہ تحریروں کے پرستار تھے یہی وجہ ہے کہ گھر میں یہاں وہاں شفیق الرحمن، کنہیا لال کپور، مشتاق احمد یوسفی کی کتابیں بکھری نظر آتیں۔ ان پر تبصرے ہوتے، اقتباسات ایک دوسرے کو سنائے جاتے، ہنستے، خوش ہوتے۔ میرے بڑے چچا جو بحرین میں رہتے ہیں ، یوسفی صاحب کے حافظ ہیں۔ چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت یا آب گم کا کونسا ایسا صفحہ ہے جو انہیں زبانی یاد نہیں۔ ضیاء محی الدین نے تو اب یہ “ پڑھنت” شروع کی۔ چچا تو ستّر کی دہائی سے بحرین کی ادبی محفلوں میں یوسفی صاحب کو سنا سنا کر “ مشاعرہ” لوٹ لیتے ہیں۔
شفیق الرحمن اور ان کے “ شیطان” کو یوسفی صاحب اور ان کے مرزا عبدالودود بیگ نے آکر بھگا دیا۔ لیکن میں اب بھی گاہے انہیں پڑھ کر سر دھنتا ہوں۔ شفیق الرحمان، یوسفی صاحب اور انشاء جی وغیرہ کو تو گھر پر پڑھا۔ جب اسکول میں نویں جماعت سے باقاعدہ اردو ادب پڑھنا شروع کیا تو پطرس اور رشید احمد صدیقی سے تعارف ہوا۔ پطرس کے پہلے مضمون “ میبل اور میں “ نے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا۔ لیکن بہت سالوں بعد جب ضیاء محی الدین کی زبانی پطرس کو سنا تو ان کے گُن آشکار ہوتے گئے اور اب میرے پاس پطرس کے دو مجموعے ہیں۔ صدیقی صاحب ایک پڑھے لکھے آدمی کے ادیب ہیں۔ ان میں عوامیت خال ہی نظر آتی ہے لیکن ان کے “ دھوبی” کا جواب نہیں۔ ان کے علاوہ عظیم بیگ چغتائی کا “ یکّہ” اور “ نانی چندو” بھی کورس میں پڑھے، لیکن انشاء جی ، شفیق الرحمان اور یوسفی صاحب کو پڑھنے کے بعد عظیم بیگ چغتائی کا رنگ نہ جم سکا۔
کالج کے دنوں میں “ کرنل محمد خان” کا ظہور ہوا اور پہلی بار مزاحیہ تحریر پڑھ کر قہقہے لگائے۔ کرنل صاحب کی طرز پر اشفاق حسین نے بھی جنٹلمین بسم اللہ، الحمدللّٰہ، سبحان اللہ اور اللہ اللہ سیریز شروع کیں لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
دوبئی آنے کے بعد مجھے “ محمد خالد اختر” کی “ چچا عبدالباقی” ملی۔ یہ ایک اور ہی طرح کا مزاح تھا۔ لگتا ہے جیسے انگریزی سے ترجمہ کرکے کوئی سنا رہا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہی انداز سارا مزہ دیتا ہے۔ جو حال میرے چچا کا یوسفی صاحب کے ساتھ ہے ، میرا وہی معاملہ “ چچا عبدالباقی” کے ساتھ ہے۔ نجانے کتنی بار پڑھ چکا ہوں۔
یہ سارے مزاح نگار اپنی مثال آپ ہیں لیکن میری نظر میں تین چار ایسے نام ہیں جو اس پورے منظر پر چھائے ہوئے ہیں اور وہ ہیں یوسفی صاحب، انشاء جی اور شفیق الرحمٰن، اور پطرس۔۔اب آپ اسے چاہے میری پسند کہہ لیں ۔ اور ان سب میں یوسفی صاحب کا درجہ میری نظر میں ( جی ہاں صرف میری نظر میں) اردو کے مزاحیہ ادب میں وہی ہے جو اردو شاعری میں غالب کا ہے۔ لیکن آپ شاید حیران ہوں گے کہ میری اولین پسند صرف اور صرف انشاء جی ہیں ۔ یوں کہہ لیں کہ انشاء جی اپنے میر تقی میر کی جگہ ہوئے۔
یوسفی صاحب بے پناہ مطالعے کے حامل ہیں ۔ ان کی انگریزی، ہندی اور فارسی ادب پر گہری نظر ہے اور ان کا ایک ایک جملہ شاہکار ہے۔ بہت سے جملے تو اب ضرب المثل اور محاوروں کی جگہ لے رہے ہیں۔ مقبولیت میں شاید ہی کوئی ان کا پاسنگ ہو۔ جس طرح جملوں کو سجا سنورا کر اور چمکا کر وہ ترتیب دیتے ہیں ، انہی کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ دہائیوں میں ان کی صرف چار ہی کتابیں آئیں۔ مجھے کسی نے بتایا کہ انہیں یوسفی صاحب نے بتایا کہ وہ ایک ایک پیراگراف کئی ہفتوں میں لکھتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
انشاء جی کا معاملہ مجھے بالکل الٹ لگتا ہے۔ یوسفی صاحب کے ہاں آورد ہی آورد ہے جبکہ انشاء جی سرتا پا “ آمد” ہیں ۔ ان کے جملے لگتا ہے بنے بنائے، گھڑے گھڑ اۓ نازل ہورہے ہیں۔ وہ بات نہیں کہتے، بات خود کو ان سے کہلواتی ہے۔ یوسفی صاحب کے ہاں غالب کی سی معنی آفرینی ہے تو انشاء جی کے ہاں میر کی سی سادگی و پُر کاری ۔ بہر حال دونوں بہت بڑے ادیب اور اردو ادب کی آبرو ہیں۔
لیکن اس سارے ادبی منظر نامے میں بمشکل دس پندرہ یا بیس نام ہی نظر آتے ہیں جن کا حوالہ طنز ومزاح ہے، گویا یہ چند نام ہی پورے اردو ادب کے لیے فرضِ کفایہ انجام دے رہے ہیں۔ خیر میں کیا اور میری اوقات کیا کہ ان بڑے ناموں پر اپنی رائے دے سکوں۔ یہ سب وہ ہیں جو ہماری زندگی میں رنگ بکھیرتے ہیں۔ زندگی کی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں فراہم کرتے ہیں۔ مزاح سے تعلق رکھنے والے چاہے ادیب ہوں یا شاعر یا اداکار، یہ سب میرے لیے بہت بڑا درجہ رکھتے ہیں۔ میں انہیں دُکھی انسانیت کا مرہم سمجھتا ہوں۔
آج کے دور کی سوغات یعنی سماجی زرائع ابلاغ کی اہم شاخ فیس بک نے بھی مزاح کی ترویج میں کردار ادا کیا ہے۔ اب وہ کردار بھلا ہے یا برا، مثبت ہے یا منفی یہ الگ بحث ہے لیکن بہرحال اس سوشل میڈیا کی وجہ سے وہ جنہیں لکھنے کا شوق تھا اور کہیں موقع نہیں ملتا تھا، بقول یوسفی صاحب، ان کا “ ہیاؤ” کھلا۔ ایک بڑی کھیپ برے بھلے مزاح نگاروں کی منظر عام پر آرہی ہے۔ کچھ واقعی کمال کے ہیں کچھ سیکھنے کے مراحل میں ہیں۔ کچھ کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ ہم یوسفی ، شفیق الرحمن یا پطرس کو پڑھ رہے ہیں ( رہے انشاء جی تو ان جیسا کوئی لکھنے کی کوشش بھی نہیں کرسکتا کہ ان کی تحریر الہامی ہوتی تھی)۔ کچھ کی تحریر میں جملے اور الفاظ اس طرح کے ہوتے ہیں گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ میں نے ہنسانے کے لئے لکھا ہے۔
پاکستان فلم انڈسٹری کے اچھے دنوں میں دو مشہور ترین مزاحیہ اداکار ہوتے تھے رنگیلا اور لہری صاحب ( لہری غالبا پاک و ہند کے واحد مزاحیہ اداکار ہیں جن کے نام کے ساتھ لوگ احتراما “صاحب” لکھتے ہیں)۔ رنگیلا اپنی شکل بگاڑ کر، نہ صرف الفاظ بلکہ اپنے ہاتھ پیروں کو بھی توڑ مروڑ کر ہنساتے تھے۔ وہ بے حد مقبول تھے۔ سارا ہال انہیں دیکھ کر قہقہوں سے گونج اٹھتا تھا۔ لہری صاحب بالکل سادہ سے انداز میں صرف مکالمے کو اس انداز سے ادا کرتے کہ لوگوں کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ پھیل جاتی جو وہ گھر بھی اپنے ساتھ لے جاتے۔
یہی حال آج کل کے مزاح نگاروں کا بھی ہے۔ کچھ پورا زور لگاتے ہیں ہنسانے کے لیے۔الفاظ کو تو مروڑ کر، جملوں کو پالش کرکے، چمکاکر۔۔ کچھ بات صرف اس طرح کرتے ہیں کہ پہلے پڑھنے والے کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے، پھر ہونٹوں میں خفیف سی جنبش ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے، پھر باچھیں کھلنے لگتی ہیں، دانت نظر آنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہنسی قہقہہ میں بدل جاتی ہے۔
بہرحال جو جیسے بھی لکھتا ہے، اچھا کرتا ہے کہ آج کی دُکھی دنیا کو ہنسی کی بہت ضرورت ہے۔ بہت زیادہ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...