انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو ہمیشہ یاد رہتے ہیں اور مستقبل کی زندگی پر ان کے نہ ختم ہونے والے نقش اور اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ میری زندگی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر شاہ نواز بھٹو کی وفات کے گہرے اثرات مرتب ہو کر رہ گئے ۔ جب 18 جولائی 1985 کو میر شاہ نواز بھٹو کی موت واقع ہوئی اس دوران ،میں شہداد کوٹ سندھ کے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا ۔ میرا گھر تو نصیرآباد بلوچستان میں تھا لیکن حصول علم کی غرض سے میں شہداد کوٹ میں زیر تعلیم تھا ۔ میر شاہ نواز بھٹو کی وفات کے چند روز بعد ان کی میت لاڑکانہ لائی گئی( مجھے وہ تاریخ یاد نہیں ) تو اس روز جیسے ہی ہمارے اسکول کی چھٹی ہوئی میں نے اپنے قریبی دوستوں جاوید شیخ اور لیاقت پٹھان سے کہا کہ ہم ابھی یہاں سے جلوس نکال کر بازار کی طرف چلیں گے اور کوٹو موٹو چوک پر جلسہ بھی کریں اور سوگ میں شہر کو مکمل طور پر بند کر دیں گے ۔ دوستوں نے مجھ سے اتفاق کیا، میں نے مارشل لاء اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف سخت نعرہ لگایا اور جیئے بھٹو کا نعرہ بھی لگادیا جس کے بعد ہم بازار کی طرف جلوس کی صورت میں چل پڑے ۔ اسکول کے سیکڑوں طلبہ میری قیادت میں نعرے بازی کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر بند ہو گیا ۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے کے مارشل لاء کا خوفناک دور تھا ۔ ہمارا اچانک جلوس دیکھ کر شہر کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی صاحب بھاگم بھاگ آئے اور مجھے احتجاج ختم کرنے کے لئے دھمکیاں اور دلاسے دیتے رہے لیکن ہم نے ایک بھی نہیں سنی اور شہر کے مشہور ترین " کوٹو موٹو " چوک پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔ میرے دوستوں نے لکڑی کے بنے ہوئے ایک صندل کو " اسٹیج " قرار دے کر مجھے اس پر کھڑے ہو کر خطاب کرنے کا مشورہ دیا ۔ یہ میری زندگی کا پہلا خطاب تھا جس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے ۔ اس احتجاج اور جلوس کی ایک خصوصی اہمیت یہ تھی کہ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے خوف سے بھٹو یا بھٹو کے خاندان کی حمایت میں نہ کوئی جلسہ اور جلوس کر سکتا تھا اور نہ ہی ہڑتال وغیرہ لیکن میں نے یہ کامیاب جلسہ، جلوس اور شہر بند کر کے شہداد کوٹ میں اس حوالے سے ایک تاریخ رقم کر دی تھی حالانکہ میرا پی پی پی سے تعلق بھی نہیں تھا بس یہ شاہنواز بھٹو کی موت پر میرا ایک جذباتی ردعمل تھا ۔
شہداد کوٹ شہر کا کوٹو موٹو چوک بہت مشہور ہے جو وہاں کے 2 ہندو بھائیوں کے نام سے منسوب ہے ۔ ہم بچپن میں ان 2 ہندو بھائیوں کوٹو اور موٹو سے کھانے کی چیزیں اور کھلونے وغیرہ خرید تھے ۔ ان کا پورا نام کوٹو مل اور موٹو مل تھا۔ سندھ کی مشہور بزرگ شخصیت سید غلام حسین شاہ قنمبر شریف والے نے کوٹو موٹو چوک کا نام تبدیل کرکے صدیقی ز1چوک رکھا لیکن عوام نے شاہ صاحب کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اس لیئے صدیقی چوک کا سکہ نہیں چل سکا اور آج بھی کوٹو موٹو چوک کا نام برقرار ہے ۔ یہ نام اتنا مشہور ہے کہ اس پر کئی سندھی شعراء نے شاعری بھی کی ہے ۔ ایک سندھی گلوکار نے تو اس پر گانا بھی گایا جو بہت مشہور ہوا ۔ اس گانے کے مطلعے کا اردو ترجمہ ہے
خوب صورت لوگ روڈ پر گھوم رہے ہیں
کوٹو موٹو چوک پر گھوم رہے ہیں
شہداد کوٹ شہر کے حوالے سے یاد آیا کہ سندھ کے عوام میں 2 نعرے بہت مشہور اور مقبول ہیں ۔ ایک جیئے بھٹو اور دوسرا جیئے سندھ ۔ لوگوں کا پاکستان پیپلزپارٹی سے یا جیئے سندھ تحریک سے تعلق ہو یا نہ ہو لیکن جذباتی طور پر یہ نعرے ضرور لگاتے ہیں ۔ جیئے بھٹو اور جیئے سندھ کے علاوہ سندھ میں یا علی کا نعرہ اور یا علی مدد کے الفاظ بھی عوام میں بہت مقبول ہیں یا علی کا نعرہ لگانے اور یا علی مدد کہنے والوں میں مرد و خواتین اور بچے سبھی شامل ہیں بلکہ ہندو اقلیت کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی جیئے سندھ اور یا علی مدد کہنے والوں میں شامل ہے ۔ موضوع کی مناسبت سے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرا اصل نام نیاز علی ہے لیکن مشہور آغا نیاز کے نام سے ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ شہداد کوٹ میں میرے ایک دوست اور کلاس فیلو لیاقت علی پٹھان نے ایک روز کہا کہ ہم پٹھان لوگ اپنے بڑے یا سربراہ کو آغا کہتے ہیں چوں کہ آپ ہمارے گروپ کے سربراہ ہیں اس لیئے آج سے ہم آپ کو آغا کہیں گے اس پر میرے دوستوں جاوید شیخ و دیگر نے اس بات پر اتفاق کیا اور اس دن سے میرا نام نیاز علی سے آغا نیاز بن گیا ۔ جاوید شیخ بھی میرے کلاس فیلو تھے وہ شہر کے مشہور ترین وکیل عبدالجبار شیخ کے فرزند ہیں ۔ عبدالجبار شیخ صاحب شہداد کوٹ کے چیئرمین بھی رہے ہیں ۔ جاوید شیخ سندھ پولیس میں بھرتی ہو گئے وہ کچھ عرصہ حیدر آباد میں ایس ایچ او رہے اور بہت مشہور ہوئے آج کل کراچی میں انسپکٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف عمل ہیں جبکہ لیاقت پٹھان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔ اس دور میں شہداد کوٹ میں فلم کی 2 سینمائیں ہوتی تھیں ان میں سے نشاط سینما لیاقت پٹھان کے والد صاحب کی تھی۔ میٹرک کرنے کے بعد میں جب واپس ڈیرہ مراد جمالی نصیرآباد آیا تو اس کے بعد ان دونوں دوستوں سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے ۔