شاہنامہ کی تدوین
فردسی کی شہرہ آفاق مثنوی شاہنامہ جو کہ صرف فردوسی نے ہی بلکہ اس میں دقیقی اور حکیم اسدی فردوسی کا استاد کا کلام بھی شامل ہے اور اس بات کا فردوسی نے بھی دقیقی کے اشعار کا شامل کرنے شاہنامہ میں اعتراف کیا ہے اور فرشتہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ جب کہ آتشکدہ آذر میں حکیم اسدی کے اشعار شامل کرنے کے بارے میں روایت میں درج کی گئی ہے۔ تاہم شاہنامہ کا بشتر کلام فردوسی کا ہے اور اسے بھی نقل کرنے والوں نے شاہنامہ میں بہت سی تخیرب اور غلطیوں کے علاوہ شاہنامہ کے جو بھی نسخے ملتے ہیں ان میں مختلف اشعار کو اس کا حصہ بنایا گیا اور اس لیے ان میں اشعار کی تعداد بھی مختلف ہے۔ اس لیے پہلے پہل اسے شاہ عالم ثانی نے جمع کرکے ایک مستند نسخہ ترتیب دینے کو سوچا لیکن حالات کی خرابی کی وجہ سے وہ یہ کام مکمل نہیں کر پائے۔ یہاں تک اس کام کا بیڑا اودھ کے حکمران نواب نصیر الدین حیدر شاہ نے اٹھایا اور مختلف نسخوں کی مدد سے ایک نسخہ ترتیب دیا گیا۔ اس نسخوں کی ترتیب میں جن نسخوں کی مدد لی گئی ان کی تفصیل کچھ درج ذیل کی جاتی ہے۔
(1) یہ نسخہ مولانا عبدالرحیم بن مولانا عبداللہ القرشی کا ایرانی خط میں 1061ء کا لکھا ہوا ہے اس میں 51243 اشعار ہیں۔
(2) یہ نسخہ محمد حافظ کا ایرانی خط میں 1008ھ کا لکھا ہوا ہے اس میں 47520 اشعار تھے۔
(3) یہ نسخہ خط نسخ میں 880ھ میں لکھا گیا تھا اور اس میں 5500 اشعار تھے۔
(4) یہ نسخہ خط نستعلیق نسخ نما میں 880ھ میں ایران میں لکھا گیا تھا اس میں 56650 اشعار تھے۔
یہ چاروں نسخے ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ نصیر الدین حیدر نے بھیجے تھے۔
(5) اس نسخہ پر شہنشاہ اورنگ زیب کی مہر تھی اور اسے سید التفات حسین خان نے حاجی علی شیرازی مسجل 899ھ کا تھا اور اس میں 52133 اشعار تھے۔
(6) یہ نسخہ ایسٹ انڈیا کے ایک ملازم ایلس نے بھیجا تھا ج ایرانی خط میں عبدالصمد بن علی محمد الحسینی ایرانی کا 1020ھ کا لکھا ہوا تھا اور اس میں 46986 اشعار تھے۔
(7) یہ نسخہ منتظم الدولہ نے بھیجا تھا اس میں 55092 اشعار تھے۔
(8) یہ نسخہ بھی منتظم الدولہ نے بھیجا تھا اور اس میں 5500 اشعار تھے
(9) یہ نسخہ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کا تھا۔ جو نظام الدین محمد شیرازی کا لکھا ہوا تھا اور اس میں 501333 اشعار تھے۔
(10) اسے مڈلٹین نے بھیجا تھا جو ابن حسن نور الدین اصفہانی کا 1018ھ میں لکھا تھا اور اس میں 52911 اشعار تھے۔
(11) راہس نے بھیجا تھا جو عبدلکریم بن عبدالغنی جونپوری کا 1020ء میں لکھا گیا تھا۔
(12) یہ نسخہ لیمر کا تھا اس میں ایک ہزار اشعار گستاسپ نامہ اسدی کے اور دوسری داستانیں فردوسی کی تھیں اور 999ھ میں کا لکھا ہوا تھا۔
(13) یہ ایرانی خط میں لکھا 949ھ میں گیا تھا اور اس میں 53000 اشعار تھے۔
(14) یہ نسخہ محمد خان قزوینی کا لکھا ہوا تھا اور اس میں 42020 اشعار تھے۔
(15) یہ نسخہ ایرانی خط میں 810ھ کا لکھا ہوا تھا اور اس میں سات ہزار اشعار بغداد کی تعریف میں لکھے ہوئے تھے۔ اس میں کل اشعار 87911 تھے۔
(17) یہ نسخہ مرزا علی اصفہانی نے بھیجا تھا۔ جس میں ابتدا سے ہجیر کا گودرز کے پاس کیخسرو کا خط لے کر آنے تک کے واقعات تھے۔
(18) یہ نسخہ ملول نے بھیجا تھا۔ اس میں سوسن رامشگر کے قصہ سے لے کر آخر تک کے وقعات تھے۔
ان سترہ نسخوں میں سب سے قدیم نسخہ پندرواں نسخہ ہے جو شاہنامہ کے لکھے جانے کے 410 سال کے بعد لکھا گیا تھا۔ تیسرا اور چھوتھا ایک ہی سال کے لکھے ہوئے ہیں۔ مگر ان کے درمیان چھ ہزار اشعار کا فرق تھا۔ ساتواں اور آٹھواں ایک شخص کے ہیں اور ان میں 92 اشعار کا فرق تھا۔ ان سترہ نسخوں میں کسی دو نسخوں کے اشعار برابر نہیں ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے یہ مثنوی محفوظ نہیں رہی اور اس میں بہت کچھ کمی و بیشی ہوتی رہی ہے۔
ان تمام نسخوں کی مدد سے ایک نسخہ شاہنامہ ترتیب دیا گیا، اسے منشی نولکشور نے طبع کرایا تھا اور اس ہی کو آقا سمیع شیرازی ایران لے گئے تھے۔ جہاں وہ طبع کیا گیا۔ باوجود ان سترہ نسخوں سے ایک نسخہ ترتیب دیا گیا ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے نسخہ ایسے موجود ہیں جن میں اختلاف موجود ہے۔ مثلاً کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں تین نسخے موجود تھے جن میں بھی ایسا ہی اختلاف موجود تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ نسخہ وہی ہے جو کہ فردوسی نے لکھا تھا۔
اس طرح دو دیباچے اس نسخہ میں لکھے ابوالمنصور عبدالرزاق نے 346ھ میں ابومنصور العمر سے مرتب کرایا اور مرزا بایستغربن شاہ رخ مرزا بن امیر تیمور نے 828ھ میں لکھے ہیں ان میں بھی بہت کچھ بدلا گیا ہے۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...