سانگلہ ہل کےپاس صفدرآباد سےنکلتی، شاہکوٹ سےپہلوبچاکرگزرتی، ایک سیدھ میں جنوب مغرب کوبہتی شاہکوٹ مائنرکےکنارےاٹی کےقبرستان میں ایک شہید دفن ہے۔ چک نمبر 94 ر.ب اٹی ہماراننھیال ہےاورجسےابھی ہم نےشاہکوٹ مائنرلکھااسےاٹی والی نہرکہتےسنتے ہم جوان ہوئے تو ہم کہہ رہےتھےکہ اٹی والی نہرکےعین اوپر چک نمبر چورانوے رب کی شمال مشرقی حدپر واقع قدیمی قبرستان میں ایک سیاچن کے شہیدکی قبر ہے۔
بہت سال بیتے، ہمارا سپاہی ستمبر کےمہینےمیں ایک برفانی تودےکی زد میں آکر شہید ہوا تھا۔ تو جیسا کہ برفانی تودوں تلے دب کر جان ہارجانےوالوں کا مقدر ہے، ہمارےشہیدکی صرف خبرہی گاؤں میں آئی تھی، جسدِخاکی مِل نہیں پایا تھا۔ اگلےسال چڑھتےچیتر کوجب برفیں پگھلیں تو ہمارےشہید کا سراغ بھی ملا اور پھرفوج ایک تابوت لےکر اٹی کےقبرستان آئی اور فوجی اعزاز کےساتھ ہتھیاروں کے فائر کی گونج میں اپنے سپاہی کو اسی مٹی میں سلا گئی جو اسے پیاری تھی۔
اس سال فیصل آباد آنا ہوا تو میں امی کو لے کر اٹی کے قبرستان پہنچا۔ ننھیالی گاؤں میں اب کوئی نہیں رہتا۔ جن کسانوں کو زمین نے باندھ رکھا تھا، زمین کا سینہ چیر کر اناج اگاتے جب ان کی حیاتی تمام ہوئی تو اگلی پیڑھی نے زمینیں اور حویلیاں بیچ شہرکے جنگل کی راہ لی۔
2015 کے سال چھوٹی عید پر میں اپنے بڑے ماموں کے ساتھ گاؤں آیا تھا۔ وہ قبرستان میں پڑے موئے شریکوں اور شہر کی بھول بھلیوں میں گم نئی نسل کو جوڑنے والی آخری کڑی تھے۔
2024 میں جو میں امی کے ساتھ اٹی کو لوٹا تھا تو ماموں رمضان بھی اب قبرستان میں پڑے موئے شریکوں کے ساتھ سوتے تھے ننھیالی گاؤں میں اب کوئی نہیں تھا اور اپنی ماں، باپ اور بڑے بھائی کی قبروں کو کھوجتی امی کی بوڑھی آنکھوں میں برہوں کی رڑک تھی
ادھی ادھی راتیں اٹھ رون موئے متراں نوں
مائیں سانوں نیند نہ پوے
قبرستان کے رکھوالے نے بھی ایک حیرت کے عالم میں اس گاڑی کو دیکھا جو گاؤں میں داخل ہوکر کسی کے گھر رکنے کے بجائے سیدھا قبرستان چلتی چلی آئی تھی۔
امی ابو قبرستان کی دعا پڑھ کر اندر داخل ہوئے تو میں نے قبرستان کے راکھے بابا جی کو اٹی کے شہید کی وہی کہانی سنائی۔
آہو مینوں یاد اے۔ اسلم دا منڈا رفیع۔ جدوں اوہدا وجود فوج لے کے آئی تے سانوں اونہاں نے منہ نہیں سی ویکھن دتا۔ اور پھر جیسا کہ پرانی یادیں دہراتے ہوئے ہوتا ہے۔ بابے کی آنکھوں میں ایک شناسائی کی چمک لہرائی
’کاکا جے تینوں اینا کجھ پتا اے تے فیر توں کوئی وچلا بندہ ای ایں‘ آہو جی میں وچلا بندہ ای آن، جیج نہال گڑھیےدا دوہتا
ایک شناسااور بہت گھٹ کے ڈالی جپھی کےبعد ہم نےاپنےسپاہی محمدرفیع شہید کی قبر پرحاضری دی اورفاتحہ پڑھی
چندسال پہلےہم نےشاہکوٹ مائنر کےشہیدِ سیاچن کو یاد کیا تھا تو صوابی کےشیر اپنےکیپٹن کرنل شیرخان شہید نشانِ حیدر کی کہانی کہی تھی
اٹی کا رفیع تو برفانی تودے تلے دب کر شہید ہوا تھا سو اس کا جسدِ خاکی شروع شروع میں مل نہیں پایا تھا۔ مگر نواں کلی کا کرنل شیر تو دادِ شجاعت دیتا عدو کی صفیں چیرتا ان کے پہلو میں گھستا چلا گیا تھا۔ اور جب وہ شہید ہوگیا تو ہمیں ایک دبدھا نے آلیا۔
اگر ہم اس کے زخم زخم وجود کو وصول کرتے تو اپنے قول سےپھرتے تھے، کہ کارگل کے پہاڑوں میں لڑنے والے تو مجاہد ہیں، سپاہی نہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر پانے والے کیپٹن کرنل شیر خان کو پہلی سلامی ہندوستانی راجپوتانہ رائفلز کے سپاہیوں نے دی تھی اور اس کی بہادری کی توثیق خود ہندوستانی بریگیڈ کمانڈر نے کرتے ہوئے اعلٰی اعزاز کی سفارش کی تھی۔
جولائی کا مہینہ صوابی کے شیر کا مہینہ ہے
جولائی کا مہینہ نواں کلے کے کیپٹن کرنل شیر شہید نشانِ حیدر کا مہینہ ہے
مانی جنکشن کے صفحوں سے یہ پیشِ خدمت ہے شاہکوٹ مائنر کے کنارے اٹی کے شہید اور صوابی کے شیر کی کہانی