(Last Updated On: )
شہکار پہ بن جاتے ہیں نقاد یہاں پر
لکھنے کو جو رکھتے نہیں اسناد یہاں پر
کر دے جو سسکتے ہوئے جیون کا مداوا
ایسی بھی کرو کوئی تو ایجاد یہاں پر
نہریں تو رواں میں بھی کروں عشق میں اے دل
کچھ کام بھی دے تیشہء فرہاد یہاں پر
ہر ایک کرے دعویٰء فردوس یہاں تو
دیکھو تو بنا پھرتا ہے شداد یہاں پر
ہر ایک کو یہ فکر اسے کیسے بچائیں
بیکار تھی اتنی بڑی تعداد یہاں پر
ہے قید ازل سے رہ طالب کا مسافر
آزاد بھی ہو کے نہیں آزاد یہاں پر
تابش ِ رہ تاریک کی شوریدہ زمیں میں
اک نور کی رکھ ڈالی ہے بنیاد یہاں پر