اس مرتبہ پاکستان سے آتے ہوئے جو کتابیں ساتھ لے کر آیا اس میں شاہد جمیل منہاس کی کتاب “ اپنی بات” بھی تھی۔ شاہد جمیل صاحب کا تعلق بھی شہیدوں کی سرزمین راولپنڈی سے ہے اور وہ شعبہ تدریس سے منسلک ہیں۔ جس طرح بریگیڈیر صدیق سالک ، کرنل محمد خان اور کرنل اشفاق حسین اپنی تحریروں میں مکمل فوجی بلکہ مع بوٹ نظر آتے ہیں اسی طرح شاہد جمیل کے مضامین میں ایک اُستاد جھانکتا نظر آتا ہے۔ شکر ہے اس استاد کے ہاتھ میں مولا بخش نہیں ہے۔ اس کی جگہ ان کی تحریروں اور ان کی شخصیت میں شفقت، ہمدردی اور علم دوستی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تدریس ان کا پیشہ نہیں بلکہ Passion ہے ۔ایسے استاد نہ صرف اپنے طلبا کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے تحفہِ خداوندی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ وہ نسلوں کے معمار کی حیثیت سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کے قلب و ذہن پر اثر انداز ہو کر اسے مثبت اور تعمیری راستے پر ڈالتے ہیں ۔ اگر ایسا استاد ادیب اور شاعر بھی ہو تو وہ سونے پر سہاگہ ہے کیونکہ وہ معاشرے کی نا ہمواریوں، غربت اور لاچاریوں اور اس سے جڑے مسائل سے نہ صرف آگا ہ ہوتا ہے بلکہ اپنے دل پر اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے۔ یہی سوزِ دل اسے نہ صرف ایک ہمدرد انسان، شفیق استاد بلکہ غریبوں ، ناداروں اور لاچاروں کا غم گسار بنا دیتا ہے ۔ شاہد جمیل منہاس کی شخصیت اور ان کی تحریروں میں یہ شفقت، یہ غم گساری اور انسانیت کا درد واضح دکھائی دیتا ہے ۔شاہد منہاس کے کالموں میں معاشرے کے اصلاح طلب موضوعات عام ہیں ۔وہ معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور مختلف معاشرتی مسائل پر اس طرح لکھتے ہیں جیسے ایکسرے مشین بدن کے ناسور زدہ حصے نمایاں کرتی جاتی ہے ۔ان کے دل میں قوم اور اُمت مسلمہ کا درد نمایاں ہے جو ان کی تحریروں میں واضح نظر آتا ہے ۔ناانصافی کہیں بھی ہو چاہے انفرادی،اجتماعی یا قوموں کی سطح پر شاہد کے قلم کی زد میں آجاتی ہے۔
اس کے ساتھ وہ مثبت پہلووں پر بھی نظر رکھتے ہیں ۔نیرنگیِ حیات میں جب انھیں کوئی بات منفرد ، انوکھی یا بھلی لگتی ہے تو وہ ایک بچے کی طرح کھل اٹھتے ہیں اور اس خوش رنگ منظرکو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں ۔معاشرے میں چلتے پھرتے ایسے مثبت او رتعمیری کردار اور ایسے خوش رنگ منظر دیکھنے کے لیے جس قوت مشاہدہ کی ضرورت ہے شاہد جمیل منہاس کی تیز نظروں اور حساس قلب و ذہن میں یہ صلاحیت موجود ہے ۔ اس کی مثال شاہد کے درج زیل کالم اور اس کے زندہ جاویدکردار ہیں جو ان کی قوتِ مشاہدہ کے مظہر ہیں ۔چاچا اشرف،آج کی دنیا اور عبدلستار ایدھی مرحوم،نوجوانوں کے نام،وقت بہت قیمتی ہے، زندہ رہتا ہوں تو یادیں مار دیتی ہیں،کھلی کتاب، فیصل کیانی شہید، دو دن قمر الاسلام راجا کے ساتھ، راجا محمد صادق وغیرہ۔
شاہد جمیل منہاس کے یہ ہیرو معاشرے کے وہ اہم افراد تھے جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے مگر شاہد کی دور بین نگاہوں نے ان ہیروں کو تلاش کیا اور انھیں چمکا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا تاکہ ہم ان سے کچھ سبق سیکھ پائیں ۔یہ قوت مشاہدہ تحفہ الہی ہوتا اور صرٖ ف درد دل رکھنے والوں کو نصیب ہوتا ہے ۔ ان پر قلم اٹھانے اور انھیں اپنے لفظوں کی مالا پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ہنر بہت کم لوگ جانتے ہیں ۔ شاہد جمیل کالم کی مالا بننے کے لیے لفظوں کے موتیوں کے انتخاب اور ان کے درست استعمال کے فن سے مالا مال ہیں ۔ شعروں کا انتخاب عمدہ ہے۔ان کی منظر کشی، کردار سازی اور جملوں کی ساخت فن کارانہ ہے ۔ ان کی تحریر میں روانی، سادگی اور ادبی چاشنی موجود ہے جو قاری کی توجہ جذب کر لیتی ہے ۔ یہ اسلوب کالموں کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ اخبار بین ہر سطح کے ہوتے ہیں ۔ شاہد منہاس کے کالم زندہ جاوید کالم ہیں کیونکہ ان میں ادبی رنگ بدرجہ اتم موجود ہے جو انھیں باسی نہیں ہونے دیتا ۔ ویسے بھی بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مسائل ختم نہیں ہوتے لہذا ایسے کالم کبھی غیر متعلق نہیں ہوتے۔
شاہد جمیل منہاس جیسے قلم کارمعاشرے کے کان ، آنکھیں اور زبان ہوتے ہیں جو لاکھوں کروڑوں دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں انھیں ہر سطح پر سراہنے اور ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ میری دُعا کہ خدائے ذولجلال انھیں صحت سلامتی کے ساتھ جولانی ِ قلم عطا کرتا رہے تاکہ وہ ہمیں اپنی خوش رنگ تحریروں سے محظوظ کرتے رہیں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...