پڑھتے تھے کہ پاکستان کا سب سے چھوٹا شہر جہلم ہے۔ یہ شاید اس لئے ہو کہ ایک طرف دریا اور دوسری طرف چھاؤنی ہے، سو پھیلنے کی گنجائش کم ہے۔ رقبہ صرف پونے نو مربع میل ہے اور آبادی کے لحاظ سے شہروں میں 44 ویں نمبر پر ہے۔
جہلم کے ذکر پر اس کی یہی سب سے چھوٹے شہر والی شناخت ہی ذہن میں آتی رہی۔ ہاں، اب کچھ عرصے سے اس کی شناخت بدل گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی کا شوق یا ہابی ہی اس کا پیشہ یا ذریعہ روزگار بن جائے تو اس سے اچھا کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔
جہلم کی شیخ برادری کا ایک بچہ بدقسمتی سے کم عمری میں یتیم ہوگیا۔ لیکن قدرت نے کچھ اور انعامات سے اس محرومی کا ازالہ کیا۔
اس کو بچوں کی کہانیاں اور پھر جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہوگیا۔ سکول کالج میں ایسے اچھے استاد ملے جنہوں نے مطالعے کے شوق کی حوصلہ افزائی ہی نہیں، اچھی کتابوں کے بارے میں رہنمائی بھی کی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی ہر جگہ پہنچا تھا نہ وی سی آر اور فلمیں آئی تھیں۔ رسالے اور ناول وغیرہ تفریح کا بڑا ذریعہ تھے۔ شہروں قصبوں میں کتابیں کرائے پر دینے والی آنہ لائبریریاں عام تھیں۔ اس نوجوان کو بھی یہ کام دلچسپ لگا۔ کافی ناول تو اپنے شوق کی وجہ سے جمع ہوچکے تھے۔ پانچ سو روپے فیملی کے لوگوں سے حاصل کرکے مزید کتابیں خریدیں اور ایک دکان کرائے پر لے کر اپنی "انصاف لائبریری" قائم کرلی۔ اب بعض اوقات یہ ہوتا کہ کسی کو کوئی کتاب اتنی پسند آتی کہ واپس کرنے کو دل ہی نہ چاہتا۔ وہ قیمت ادا کردیتا۔ اس پر انہوں نے ایسے قارئین کا اندازہ کرکے اچھی کتابوں کی ایک سے زیادہ جلدیں منگوانا شروع کر دیں اور وہ بک بھی جاتیں۔ یوں لائبریری والے سے وہ کتب فروش بھی بن گئے۔ یہ کام چل نکلا تو پھر چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں خود بھی چھپوا کر بیچنے لگے۔ بالآخر اپنا پرنٹنگ پریس بھی لگا لیا۔ اب مذہبی کتابیں خود بھی چھاپنے لگے اور قرآن مجید، سیپارے، سورتیں لاہور سے بھی منگوانے لگے۔ جہلم کے ارد گرد کے ایک وسیع علاقے کی یہ ضرورت ان کی دکان سے پوری ہونے لگی۔ پھر یہ ہوا کہ بارش اور سیلاب سے وہ تہہ خانہ پانی سے بھر گیا جس میں ان کا پریس اور کتابوں، کاغذ کا ذخیرہ تھا۔ کاغذ کتابیں ضائع ہوگئیں، مشینری بھی ٹھیک کرنے کے قابل نہیں رہی۔
اب انہوں نے پریس کے کام سے جان چھڑا کر اچھی علمی ادبی تاریخی کتابوں کی اشاعت پر پوری توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ بچپن سے چلا آرہا کتاب کا عشق برقرار تھا۔ اب وہ اچھی کتابیں پڑھنے کے ساتھ شائع بھی کررہے تھے۔
علمی ادبی ذوق کا نتیجہ ہی تھا کہ ان کے بچے ہوئے تو روایتی عربی فارسی چھوڑ کر خوب صورت اور منفرد ہندی الاصل نام رکھے۔ ایک کا گگن (آسمان، نیل گگن کے تلے والا) اور دوسرے کا امر ( اسے چاہیں امر بالمعروف والا سمجھیں یا زندہ جاوید والا ) کتابوں سے دلچسپی بیٹوں کے جینز میں شامل تھی۔ وہ اس کاروبار میں والد کے دست و بازو بن گئے۔ گگن کو کاروباری اور انتظامی معاملات کی زیادہ سمجھ ہے تو امر کو کتابوں کے علمی ادبی اور صوری پہلوؤں کی۔ انہوں نے کاروبار پھیلا کر اور کتابوں کو خوب سجا سنوار کر والد کا دل خوش کردیا۔
500 روپے سے کاروبار شروع کرنے والا وہ یتیم بچہ شاہد حمید چند روز پہلے 70 سال کی عمر میں ایک مطمئن شخص کے طور پر اس دنیا سے رخصت ہوا۔
اس کے شوق، لگن، خلوص اور نیک نیتی نے اس کے شہر جہلم کی "سب سے چھوٹے شہر" والی شناخت بدل دی ہے۔ اب کوئی کسی سے کسی کتاب کے بارے میں پوچھتا ہے کہ کس نے چھاپی ہے؟ اور جواب ملتا ہے، جہلم والوں نے، تو اس کا مطلب ہوتا ہے بک کارنر نے۔ یعنی جہلم اور شاہد حمید کا بک کارنر اب ہم معنی ہوگئے ہیں۔
P۔S۔۔۔
شاہد حمید صاحب اور میری پیدائش میں بس چند ہفتے کا فرق ہے۔ مجھے خیال آیا کہ ہم دونوں ایک ہی زمانے میں بڑوں شہروں سے دور، دو مختلف مقامات رہتے تھے۔ ہمارے شوق مشترک تھے۔ شاید وہ بھی دوستوں سے ویسی ہی باتیں شئیر کرتے رہے ہوں گے جیسے میں اپنے دوست پرویز حسن سے کرتا تھا۔۔۔آل انڈیا ریڈیو پر بیدی کی دستک کا ساؤنڈ ٹریک سنا؟۔۔۔ انشا رسالہ، عالمی ڈائجسٹ بن گیا ہے۔۔۔۔ شکیل عادل زادہ عالمی سے الگ ہو کر اپنا سب رنگ نکال رہا ہے۔۔۔ جریدی اور پاکٹ کتابیں، سید قاسم محمود نے تو کمال کردیا ہے۔۔۔ سنا ہے بوسٹر لگ گیا ہے۔ اب ہم بھی ٹیلی وژن دیکھ سکیں گے۔۔۔ عبداللہ حسین کا نیا ناول آرہا ہے۔۔۔ فلم فئیر اور شمع کی جلدیں کرالی ہیں۔۔۔ میں نے تو دی سن کے چھوٹے میگزین بھی کرالیے ہیں اور بچوں والے سارے رسالے بھی۔۔۔ سنٹرل لائبریری والوں نے مجھے تو ممبر نہیں بنایا، ملک نذیر کہتا ہے ابھی بچے ہو، میں نے ایک رشتے دار کا کارڈ بنوالیا ہے۔۔۔
“