ادبی فائل -دس
شاہد انور : ہندوستانی ڈرامے کی دنیا کا سپر مین
— مشرّف عالم ذوقی
شاہد چلا گیا ، یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا ، کہ روتے کو ہنسانے والا شاہد ہمیں اس طرح چھوڑ کر جا بھی سکتا ہے .. حبیب تنویر اور ڈرامے کی دنیا کا ہر فرد اس سے بے پناہ پیار کرتا تھا ..شاہد اور میں نے کم و بیش ایک ساتھ لکھنا شروع کیا . آہنگ میں اسکا افسانوی گوشہ بھی شایع ہوا .یہ بڑی بات تھی ..وہ افسانوں سے زیادہ ڈراموں میں جیتا تھا . دلی آنے کے بعد آھستہ آھستہ وہ افسانہ نگاری سے دور ہوتا گیا اور خود کو ڈراموں میں مصروف کر لیا .. میں شاہد کو اردو ڈرامے کی حد تک محدود نہیں کرتا .. اس کے پاس بڑا ویژن تھا . بڑا کینواس تھا .وہ زندگی کو اپنے فلسفوں کی تہ دار معنویت کے ساتھ فریم کرنا جانتا تھا ..اور جب ایک بڑی دنیا اس کے فن سے متاثر ہو کر اس بانسری والے کے پیچھے پیچھے چلنے لگی تو وہ اچانک غایب ہو گیا ..وہ ایسا ہی تھا ..چھپن چھپایی کے کھیل میں ماہر .. ذرا سی عمر اور ملی ہوتی تو ہندوستان کو ایک اور حبیب تنویر مل گیا ہوتا .. تقدیر کے کھیل میں بازی سپر پاور کے ہاتھ رہی ..سپرمین زندگی سے ہار گیا …
”ہاں مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ ابھی کیا سوچ رہے ہیں۔ یہی نا کہ میں یہاں اسپاٹ لائٹ کے نیچے اور آپ کے سامنے بت بنا کیوں کھڑا ہوں؟ دراصل میں کچھ سوچ رہا ہوں…. ہم زندگی بھر یہی کرتے ہیں۔ جب تک سانس نہ اکھڑ جائے…. ایسے لوگوں کا دیتھ سرٹیفیکیٹ تیار کرنے میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ نہ ڈاکٹر کو، نہ پولس کو نہ رشتہ داروں کو، کیونکہ کاز آف دیتھ والے کالم میں ایک جملہ لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے…. کاز آف دیتھ….“
—غیر ضروری لوگ(شاہد انور کے ڈرامہ سے)
’کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور‘
ڈرامے کی دنیا میں یہ مشہور ڈائیلاگ بار بار دہرایا جاتا رہا ہے…. پردہ کبھی نہیں گرتا ۔ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔ شاہد انور چلا گیا۔ ڈرامہ جاری ہے۔ مگر کاز آف دیتھ….؟ وہ کیوں چلا گیا اتنی جلدی…. ضرورت کیا تھی…. غیر ضروری لوگ محض ایک ڈرامہ نہیں تھا جہاں اس نے منٹو کے غیر ضروری کرداروں کو ایک خوبصورت ڈرامہ کا حصہ بنا دیا تھا۔ یہ سارے لوگ اتنے ہی غیر ضروری تھے جتنا کہ شاہد۔ اور شاہد یہ بات بہتر طور پر جانتا تھا کہ یہ غیر ضروری کردار ہی دراصل ہمارے سماج اور معاشرے کا سچ ہیں۔ سماج سے سیاست، کامیابی سے ناکامی، اڑان سے پستی، دہشت سے خوف اور معمولی خوشیوں پر جان دینے والے یہ لوگ نہ ہوں تو سیاست کے تیس مار خاں کس کے دم سے سیاست کریں گے؟ بلڈرز مافیا کس کے دم سے خون خرابا کریں گے، کس کا لہو بہائیں گے۔؟ یہی غیر ضروری لوگ تو تھے جو آزادی کے وقت مذہبی نعرے لگا کر ٹرینیں پھونک رہے تھے۔ مرنے والے بھی غیر ضرور لوگ تھے۔ مارنے والے بھی۔ انہی میں کوئی پیرن، کوئی باپو گوپی ناتھ، کوئی زینت اور کوئی بشن سنگھ…. اوپردی گڑ گڑ دی انیکس دی بدھیانا…. کوئی ٹیڑھے میڑھے کان والا، کوئی پکوڑے جیسی ناک والا آپ کو آسانی سے مل جائے گا…. مگر شاہد انور آسانی سے مل جانے والا کردار نہیں تھا۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں کرداروں کو ملا کر ایک کردار بن گیا تھا۔ ایک ایسا کردار کہ اس کو بناتے وقت بھی دو جہاں کے خالق کو زور زور سے ہنسی آئی ہوگی…. ’دنیا والو، لو جھیلو اسے‘…. مزے کی بات یہ کہ شاہد نے جب اپنی پہلی کتاب مجھے ڈاک سے بھیجی تو یہی جملہ لکھا ہوا تھا…. ’تبسم اور ذوقی کے نام…. لو جھیلو اسے۔‘ اس کی کتاب کو جھیلنا آسان تھا لیکن اسے نہیں۔ منہ پھٹ تھا۔ اتنا منہ پھٹ کہ ساری دنیا، سسٹم، سیاست، سماج، معاشرہ پر دوٹوک باتیں کرتے ہوئے قہقہہ لگاتا ہوا، وہ خود پر بھی ہنسنا نہیں بھولتا تھا۔ اور اسی لیے جب اس کے قہقہے سیاست کے ایوانوں سے ڈرامے کے اسٹیج تک پھیلتے چلے گئے تو خدا نے اچانک صدا لگائی۔ بلالو اسے۔ میں سوچتا ہوں، عرش کی آسمانی چادر پر یقینا شاہد نے منٹو کے ساتھ اس کے تمام کرداروں کو جمع کر لیا ہوگا۔ اسٹیج بھی تیار ہوگا۔ اور خدا سوچ رہا ہوگا۔ اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ اسے جھیلنا سچ مچ مشکل ہے۔ لیکن خدا یہ بھول گیا کہ شاہد دنیا سے گیا ہی نہیں۔ وہ جابھی نہیں سکتا تھا۔ وہ یہاں تمام غیر ضروری کردار کے درمیان موجود ہے۔ اور ہر کردار ایک دوسرے سے محبت بھی کررہا ہے، اور ایک دوسرے کو جھیل بھی رہا ہے۔
ہزاروں واقعات ہیں، جو منظر بہ منظر نگاہوں میں اتر رہے ہیں۔ خورشید اکرم، شاہد انور، اکرام خاور دوستوں کی ایک مختصر سی ٹولی۔ ہنستا ہنساتا قافلہ۔ پھر اس قافلے میں بہت بعد نعمان شوق کا اضافہ ہوگیا۔ دلی آئے ہوئے کچھ برس ہی گزرے تھے۔ تبسم سے افیئر چل رہا تھا۔ گھر والے رضامند نہیں تھے۔ پھر ایسا موقع آیا کہ تبسم دلی آگئیں۔ دوستوں کو ہماری شادی کی جلدی تھی۔ پروگرام طئے پایا۔ خورشید اور شاہد پیش پیش تھے۔ جگہ طئے کی گئی۔ مولوی صاحب کو بلایا گیا۔ مجھے یاد ہے۔ شاہد قہقہہ لگاتا ہوا تبسم کے پاس آیا۔ ’ابھی بھی وقت ہے، سنبھل جا۔ کس بربک سے شادی کررہی ہے۔‘ نکاح کے بعد بھی شاہد کے قہقہے روشن تھے۔ میری شادی میں ایک گواہ خورشید تھے اور دوسرے شاہد۔ یار دوست گھر پر آجاتے تو ہنسی قہقہوں کا ایک نہ ختم ہونے والادور صبح سے رات تک جاری رہتا۔ ہمارا کہنا یہی تھا کہ شاہد جس محفل میں ہو وہاں سناٹا نہیں چھا سکتا۔ اس کے قہقہوں کی آواز تو میلوں دور بھی سنی جاسکتی تھی۔
ایک بار دوستوں کا قافلہ اکرام خاور کے گھر پہنچا۔ ہمارے ساتھ ایک پبلشر دوست بھی تھے۔ اسوقت ایک ناول بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ کتاب اکرام کے پاس تھی۔ میرے پبلشر دوست نے کتاب ہاتھ میں لے کر جب قیمت دیکھی تو چونک کر بولے۔ ’اتنی کم قیمت۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔؟‘ شاہد کا فلک شگاف قہقہہ گونجا۔ ’پڑھ لو۔ پھر قیمت کا اندازہ ہوجائے گا….‘
ہزاروں واقعات…. تنہائی کے ان جان لیوا لمحوں میں یہ واقعات زندہ ہو گئے ہیں۔ قہقہے مجھے توڑ رہے ہیں۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ تک ہم ملتے رہے۔ پھر کبھی کبھی فون پر باتیں ہوجاتیں، کبھی چار پانچ سال بعد کسی سے می نار میں ملاقات ہوگئی۔اس کے بعد سال در سال گزرتے رہے، ملنا نہیں ہوا۔ کیا ملنا ضروری ہوتا ہے؟ دلی آنے کے بعد پانچ سات برسوں کی ملاقات کے نقوش اب بھی تازہ ہیں۔ اس درمیان میں اپنی مصروفیات کا شکار رہا۔ اور وہ خاموشی سے غیر ضروری کرداروں میں پھیلتا گیا۔ پھیلتا گیا…. پھیلتا گیا۔ اس حقیقت کا علم اس کی موت کے بعد ہوا کہ وہ ہر جگہ موجود تھا۔ بڑے لوگوں میں۔ چھوٹے لوگوں میں۔ پردہ اٹھانے اور گرانے والوں میں۔ اسٹیج تیار کرنے والوں میں، اداکاروں میں، آرٹ ڈائرکٹر، میک اپ آرٹسٹ، اسپاٹ بوائے…. ہر کوئی اسکا دوست تھا۔
”سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہی عجیب آدمیوں کی وجہ سے یہ دنیا، دنیا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو یہ زمین بالکل جنت ہوجاتی۔ جہاں سبھی ایک طرح کے ہوتے۔ اکہرے، سیدھے اور نیک…. اگر بابو گوپی ناتھ جیسے لوگ نہ ہوتے تو منٹو مرحوم تو چوبیس سال ۸ مہینے اور ۶ دن بھی جی نہیں پاتے…. ان کا جی لگایا کبھی بابو گوپی ناتھ نے کبھی برج موہن نے….“
—غیر ضروری لوگ
دوستوں کی مختصرٹولی اور اس ٹولی سے پہلا وکٹ گرگیا — شاہد انور چلا گیا — میں خود سے سوال کرتا ہوں…. شاہد کیسے جا سکتا ہے؟ جسے بے رونق، مکار اور ویران دنیا میں قہقہے لگانے کے لئے بھیجا گیا ہو، وہ مردہ سرد اور بے جان کیسے ہو سکتا ہے؟ مول چند اسپتال کےگیٹ کے پاس جب اس کے سرد، بے جان جسم کو دیدار کےلئے رکھا گیا ، ممکن ہے کچھ دیر اگر میں اس کے چہرے کے پاس اور جھکا ہوتا تو وہ سفید چادر ہٹا کر قہقہہ لگاتا ہوا اٹھ جاتا— دھت پاگل— تم سالے…. چین سے سونے بھی نہیں دےتے….
شام کی پرچھاہیوں میں لاش کے قریب سوگوار اور چاہنے والوں کا ایک مجمع تھا…. سسکیاں تھیں، آنسو تھے اور کون تھا، جس کے اندر شاہد کے آخری دیدار کی تڑپ نہ تھی— اردوداں تھے…. ڈرامہ اور تھیٹر سے وابستہ اس کے سینکڑوں چاہنے والے…. بہت سے لوگوں سے تو میں واقف بھی نہیں تھا…. مگر ان میں زیادہ تر تر وہ لوگ تھے جو آج ادب اور میڈیا کے حوالہ سے بڑے ناموں میں شمارکئے جاتے ہیں— میں انتظار کر رہا تھا— درخت کی چھاﺅں کے درمیان ، آسمان پر چاند بادلوں کے ساتھ ساتھ شرارت سے چھپن چھپیا کا کھیل، کھیل رہاتھا…. مجھے یقین تھا ابھی وہ اٹھے گا، اور ہنستا ہوا، قہقہہ لگاتا ہوا، چیخ پڑے گا….
’بہت ڈرامہ کر لیا — کتنا ڈرامہ کرتا رے…. اب تم لوگ ڈرامہ کرو…. رو رہے ہیں، جیسے یہ زندہ رہیں گے— ہاں نہیں تو….‘
اس سرائے میں کوئی بھی ہمیشہ کے لئے رہنے نہیں آیا مگر جب شاہد انور جیسےجینیس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو لگتا ہے ایک زمانے کو نیند آ گئی ہو— ایک عہد نہ ختم ہونے والی نیند میں گم ہو گیا ہو….
میٹھا کریلا تھا وہ…. کوئی اسے ڈھونڈھ کے لادو—
آپ اس سےسماجیات ، معاشیات ڈرامہ، فلم، ادب، تکنیک ، جغرافیہ ، نفسیات کسی بھی موضوع پر بات کرلیجئے ، وہ کھٹ سے آپ کی بات کاٹ دیتا تھا— بربک‘— وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی بات رکھتا— اور اچانک آپ کو احساس ہوتا کہ مارکس، اینجل، نطشے، سارترے یا کوئی بھی جینیس ہنسی قہقہے میں ایسی دلیل شاید نہ دے سکتا ہو، جو وہ ہنسی ہنسی میں دے گیا ہے— اُس کی سنجیدگی میں قہقہہ تھا اور قہقہہ لگاتے ہوئے وہ اچانک ایسی بات کہہدیتا کہ سامنے والے کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ ہوتا— وہ بہترین فلم کریٹک تھا— ڈرامہ، تھیٹر ، تھیٹر کی خالی کرسیاں ، اسٹیج … اس کی ایسی دنیا تھی جہاں وہ ہر دن اپنی جیب ے اچھا خاصہ سرمایہ خرچ کر دیتا تھا— وہ نئے بچّوں کا دوست تھا— بزرگوں کا ہمراز اور اپنی عمر کے دوستوں کے لئے میٹھا کریلا — دھت بربک…. بڑے سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود بینک بیلنس زیرو — اسے ضرورت بھی کیا تھی….اسٹیج تیار ہے . — شوکا وقت ہو چکا ہے— جیب خالی ہو چکی ہے…. ’کون چائے پلائے گا….؟‘ اور ایک ساتھ ایک دو نہیں ہزار قدم جوش میں آگے بڑھ جاتے…. ’میں شاہد بھائی—‘ دلچسپ یہ کہ ساری دنیا ، تمام علوم اور ان کے ماہرین سے گفتگو کے بعد وہ خود کے لئے بھی کسی قصاب سے کم نہ تھا—ایسا قصاب جو گوشت کی بوٹیوں کے ٹکڑے کرتے ہوئے اپنے انجام کو بھول جاتا ہو— وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور سچ ہے کہ وہ خود کو بھی خاطر میں کہاں لاتا تھا— بے نیاز — نہ نمائش پسند نہ شہرت— کچھ ملاتو ملا— کبھی پرواہ نہیں کی— کبھی جیب کا خیال نہیں کیا — سسٹم سے سیاست تک پر گہری نظر رکھنے والا پارکھی تھا وہ—ایسا پارکھی اب نہیں آئے گا— اب سوچاتا ہوں کہ شاہد کیا تھا، ترقی پسند؟ ترقی پسندوں میں وہ رول ماڈل تھا— جدیدیت پسند؟ خیال اور وژن کی سطح پر وہ اتنا ماڈرن تھا کہ عام جدیدئے ، اس کی حیثیت کو نہیں پہنچ سکتے— وہ ترقی پسندی یا جدیدیت کی کھچڑی تھا؟ میرا خیال ہے، وہ سب سے الگ تھا— اب تک کے انسانی سفر میں تمام طرح کی فکر، رجحانات کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنی ایک مختلف شخصیت تیار کی تھی— آگ، مٹی، ہوا، پانی کی جگہ اس نےاپنی خمیر میں صرف انسانیت کو جگہ دی— وہ میٹھا کریلا تھا اور اس کڑوےکریلے میں جو انسانیت کی مٹھاس تھی وہ دنیا کے اس میلے ٹھیلے میں آج صرف ایک نمائش معلوم ہوتی ہے—
بات ان دنوں کی ہے جب میں آرہ میں تھا— پھکڑ پن اور آوارہ گردی کے دن تھے— ادب معمولات کا اےک حصہ تھا— دوستوں کے درمیان بالخصوص نئی کہانی کو لے کر خوب باتیں ہوا کرتی تھیں— اس زمانہ میں، کلام حیدری کے رسالہ آہنگ میں ایک نو وارد پر گوشہ شائع ہوا— نام تھا، شاہد انور—یہ نام اجنبی تھا— کہانیاں جدیدیت سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھیں—لیکن یہ کہانیاں مجھے یاد رہ گییں اور شاہد انور کا نام بھی— دلّی آنے کے بعد خورشید اکرم سے دوستی ہوئی— ایک دن خورشید اکرم نے شاہد سے ملوایا تو میں چونک گیا — بوٹا ساقد لیکن چمکتی ہوئی گہری آنکھوں میں بلاکی ذہانت— میں نے فوراً کہا…. ’آہنگ میں گوشہ شائع ہوا تھا؟‘
قہقہہ لگا— ’ارے مارو یار — سب بھول گیا —‘
’بھول گئے؟‘
پھر قہقہہ لگا…. ’سب غیر ضروری باتیں….‘ اس قہقہہ سے، چھوٹے سے چائے کے ریستو راں کی دیواریں تک ہل گئی تھیں— اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد اُس کی کتاب شائع ہوئی— غیر ضروری لوگ—‘ مجھے لیو تا لستائے کے اننا کار نینا کا ایک منظر یاد آ گیا — شرفا کے درمیان کانپتا ہوا ایک شخص، جسے عیش و عشرت کی محفلوں کے آداب تک پتہ نہ تھے، اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ کر زمین پر گرتا ہے— ہنسی کی آوازیں گونجتی ہیں تو شہزادی کہتی ہے، یہ ہے عمدہ آدمی— سچا آدمی اورایک ضروری آدمی— بعد میں منٹو کے کرداروں سے لے کر یہی غیر ضروری لوگ اس کے ڈراموں اور زندگی کا حصہ بنتے گئے…. اس فانی دنیا میں وہ خود بھی ایک غیر ضروری کردار تھا، جس کے پاس بے نیازی سے زیادہ کچھ تھا تو زندگی کو جاننے اور سمجھنے کا مطالعہ— اور وہ جانتا تھا— ڈرامہ چلتا رہتا ہے— زندگی ختم ہوجاتی ہے لیکن ڈرامہ ختم نہیں ہوتا— پردہ ہٹے گا اور نئے ڈرامے کا اگلا سین پھر سے شروع ہو جائے گا…. وہ ابھی بھی منٹو یا شیکسپیر کے مختلف کرداروں کی طرح سامنے ہے— بلکہ وہ ہر بار نئے کردار میں تبدیل ہو جاتا ہے—
ابھی بھی ذہن و دماغ میں اس کے قہقہے گونج رہے ہیں— مول چند اسپتال سے گھر واپس لوٹے ہوئے مدت ہو چکی ہے ..— وہ بے جان، سرد اور مردہ چہرہ غائب ہے— کھڑکی سے باہر فٹ پاتھ پر کچھ عورتیں جھگڑا کر رہی ہیں…. کچھ بچّے کھیل رہے ہیں— دو ایک ریھڑی والے ہیں جو آواز لگا رہے ہیں…. میں ان الگ الگ کرداروں میں گم ہوں…. شاہد پھر سے زندہ ہو گیا ہے—
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“