(Last Updated On: )
سوشل میڈیا بھی کمال کا فورم ہے بسا اوقات تو ایسی چیزیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ مزہ آ جاتا ہے ۔ایسی ہی ایک تحریر پڑھ رہا تھا کہ سواد ہی آگیا ۔یہ تحریر ایک بادشاہ سے متعلق تھی جس کو لمبی لمبی چھوڑنے کی عادت تھی اور وہ اپنی اس عادت سے بخوبی واقف تھا ۔لہذا اپنی کہی ہوئی باتوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس نے ایک رفو گر رکھا ہوا تھا ۔یہ رفو گر کپڑوں کو رفو نہیں کرتا تھا بلکہ بادشاہ کی کہی ہوئی باتوں کو رفو کرتا تھا یوں سمجھ لیں کہ اس نے اپنا ایک ترجمان رکھا ہوا تھا ۔تو دوستو واقعہ کچھ یوں ہے کہ
“کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے ایک رفوگر رکھا ہوا تھا۔وہ کپڑا نہیں باتیں رفو کرنے کا ماہر تھا۔ وہ بادشاہ سلامت کی ہر بات کی کچھ ایسی وضاحت کردیتا کہ سننے والے سر دھننے لگتے کہ واقعی بادشاہ سلامت نے صحیح فرمایا۔
ایک دن بادشاہ سلامت دربار لگا کر اپنی جوانی کے شکار کی کہانیاں سنا کر رعایا کو مرعوب کر رہے تھے۔ جوش میں آکر کہنے لگے کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ میں نے آدھے کلومیٹر سے نشانہ لگا کر جو ایک ہرن کو تیر مارا تو تیر سنسناتا ہوا گیا اور ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا۔
بادشاہ کو توقع تھی کہ اس قدر شاندار نشانہ بازی پر عوام داد دے گی لیکن عوام نے کوئی داد نہیں دی۔ وہ بادشاہ کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بادشاہ بھی سمجھ گیا کہ ضرورت سے زیادہ لمبی چھوڑ دی۔ اپنے رفوگر کی طرف دیکھا۔ رفوگر اٹھا اور کہنے لگا حضرات میں چشم دید گواہ ہوں اس واقعے کا۔ دراصل بادشاہ سلامت ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے تھے اور ہرن بہت نیچے تھا۔ ہوا بھی موافق چل رہی تھی ورنہ تیر آدھا کلومیٹرکہاں جاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے آنکھ کان اور کھر کا تو عرض کردوں کہ جس وقت تیر لگا ہرن دائیں کھر سے دایاں کان کھجا رہا تھا۔ عوام نے زور زور سے تالیاں بجا کر داد دی۔اگلے دن رفوگر بوریا بستر اٹھا کر جانے لگا۔ بادشاہ پریشان ہوگیا۔ پوچھا کہاں چلے۔ رفوگر بولا بادشاہ سلامت میں چھوٹے موٹے تروپے لگا لیتا ہوں شامیانے نہیں سیتا۔
کہتے ہیں کہ رفو گر تو چلا گیا مگر بادشاہ اپنی عادت پر قائم رہا اور اس کو اپنی باتوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایک اور ترجمان مطلب رفو گر مل گیا۔یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ تخت پر براجمان شاہوں کو نو رتن مل ہی جاتے ہیں یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کاروبار حکومت چلتا ہے ۔بادشاہ سلامت کی جے جے کار ہوتی رہتی ہے اور ان رفو گروں کی روزی روٹی چلتی رہتی ہے ۔تھوڑا سا تاریخ میں جھانک لیجئے تو ایسے کئی رفو گر ملیں گے جو بادشاہ کی ہر چھوڑی ہوئی بات پر سبحان اللہ ، ماشا اللہ کہہ رہے ہوں گے ۔ہر مضحکہ خیز شاہی فرمان پر سر دھن رہے ہوں گے ۔ اور پھر یہ بھی ہوا کہ تخت پر نیا بادشاہ آیا تو جو سمجھ دار تھے وہ نئے شاہ کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہوگئے اور اپنی نوکری بچا لی جبکہ کچھ کو دربار سے فارغ کردیا گیا۔
اس صورتحال کا اپنی سیاست اور اپنے لیڈران سے موازنہ کریں تو آپ کو حیران کن حدتک مماثلت نظر آئے گی ۔ایوب خان کی عظیم حکومت کے دس سال پورے ہونے پر رفو گروں نے ایک جشن منانے کی تجویز پیش کی اور
The great decade of development and reforms
کا نعرہ دیا۔یہ وہ وقت تھا جب آٹا اور چینی مہنگی ہونے سے عوام مشکلات کا شکار تھی ان حالات میں حبیب جالب نے لکھا تھا کہ
بیس روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ باد
مگر بھلا ہو ترجمان نما رفو گروں کا کہ جنہوں نے ایوب خان کی دس سالہ حکومت کی شان میں اس وقت قصیدے شروع کیئے جب آٹا چور اور چینی چور کے نعرے لگ رہے تھے ۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بجائے بالکل اسی طرح اس کے حق میں دلائل پیش کیئے جانے لگے جیسے موجودہ حکومت کے رفو گر دلائل پیش کررہے ہیں ۔ابتدا کپتان سے ہوتی ہے جو بیان دیتا ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں سستا ترین ملک ہے ۔یہ بیان گویا اس بادشاہ کا بیان ہے جس کا تیر ہرن کی بائیں آنکھ میں لگ کر دائیں کان سے ہوتا ہوا پچھلی دائیں ٹانگ کے کھر میں جا لگا تھا۔اس کے بعد رفو گر اس بیان کوسچ ثابت کرنے کے لیے بیان دینا شروع کرتے ہیں۔
ایک رفو گر کہتا ہے کہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے اس لیئے یہاں بھی مہنگائی ہونا لازمی ہے ۔دوسرا رفو گر بیان داغتا ہے کہ خطے میں ہمارا ملک سستا ترین ملک ہے۔ایک اور رفو گر کہتا ہے کہ مہنگائی کا شور وہ لوگ مچا رہے ہیں جو کام نہیں کرتے وگرنہ مہنگائی کہاں ہے۔
قصہ مختصر بادشاہ کا رفو گر سیانا تھا کہ اس نے وقت پر رخصت لی اور عزت سے چلا گیا ۔مگر ہمارے ہاں کے رفو گروں نے ایوب خان کے دور میں شامیانے سینے کی کوشش کی اور بے عزت ہوکر رخصت ہوئے اور موجودہ رفوگروں کی تو بات ہی کچھ اور ہے یہ تو مہنگائی کیا پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کے دفاع میں بھی بول رہے ہیں ۔مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری سے یکسر انکاری ان رفو گروں کا مستقبل کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔مگر شاباش ہے ان کے جذبہ ایمانی کو کہ بضد ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے ماضی کے مقابلے میں حالات بہتر ہیں ۔ان رفو گروں کے مطابق عام آدمی جتنا اس دور میں خوش اور مطمئن ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔یہ وقت تو ایک امتحان کی طرح جیسے تیسے گذر رہا ہے اور گذر جائے گا دعا کریں آئندہ منتخب ہونے والے حکمرانوں کو جو رفو دستیاب ہوں وہ بڑے شامیانے سینے کی بجائے چھوٹے چھوٹے تروپے لگانا جانتے ہوں۔