ہتھیلی پر بال اگ سکتے ہیں۔کبوتری انڈوں کے بجائے براہ راست بچے دے سکتی ہے۔ مائونٹ ایورسٹ پانی میں ڈوب سکتی ہے۔ بحرالکاہل جھیل میں ضم ہوسکتا ہے۔ افغان بُزدل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی قطار بناسکتا ہے، حاجی صاحب ملاوٹ اور ٹیکس چوری سے باز آسکتے ہیں۔ مولوی صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے بعد مسجد میرے فرزند کے حوالے نہ کرو، کوئی اہل شخص ڈھونڈو… یہاں تک کہ شاعر محبوبہ سے کہہ سکتا ہے ؎
ترا حُسن سحر تھا، ممکنات کی حد نہ تھی
کفِ دست پر ترے خار اگا تھا کہ پھول تھا
سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن مزاج سے شہنشاہی نہیں جاسکتی ! گم شدہ شاعر شبیرشاہد نے کہا تھا ؎
بہے اسی میں جہاں پناہی، دماغِ شاہی
بہے سلیماں، بہے سکندر بہے نہ ساگر
عمریں ختم ہوجاتی ہیں۔ بادشاہی نہیں جاتی۔ ہسپانیہ کا ایک بادشاہ شدید سردی میں بیٹھا ٹھٹھرتا رہا۔ ٹھٹھر ٹھٹھر کر مرگیا لیکن آتش دان نہ جلایا کہ خادم آکر جلائے گا۔ ایک جہان نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے کہ سارا اقتدار ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔ بھائی، بھتیجا ، سمدھی، داماد، بھانجا۔ اس کے بعد ایک خاص شہر کی مخصوص برادری۔ آہ وفغاں کا مداوا جناب وزیراعظم نے یہ کیا ہے کہ صاحبزادی کی مسند سیکرٹریوں اور وزراء کی کرسیوں سے بلند تر کردی ہے۔ نوجوان حسان بن اظہار جو اب بچ بچ کر چلنے کی مشقت کررہا ہے، بچہ تھا تو ہمدرد کے حکیم عابدی صاحب مرحوم کے پاس لے جایاگیا۔ بخار تھا یا کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ ۔ حکیم صاحب نے ڈبل روٹی کھانے سے منع کیا۔ انہوں نے ازراہ شفقت اپنے کمرے ہی میں بٹھا رکھا تھا۔ حسان میاں نے کہ نہار منہ آئے تھے حکیم صاحب کی توجہ سے فارغ ہوئے تو پیکٹ کھولا اور ان کے سامنے ہی ڈبل روٹی کے ٹوسٹ کھانے شروع کردیے۔ تھوڑی دیر ہکا بکا ہوکر دیکھتے رہے ، پھر حکیم صاحب نے خود کلامی کی… ’’ یہ تو بہت مشکل ہے بھائی !‘‘
پوری قوم ہکا بکا ہوکر دیکھ رہی ہے۔ چارہ کار ہی کیا ہے سوائے اس خود کلامی کے کہ یہ تو بہت مشکل ہے بھائی ! صاحبزادی سیکرٹری ہائوسنگ اینڈ ورکس سے بریفنگ لیتی ہیں اور ہائوسنگ اینڈ ورکس کے وزیر کو اسی بریفنگ کی اطلاع اگلے روز اخبارات کے ذریعے ملتی ہے! ’عزیزہ‘ کا وزارت سے کیا تعلق ہے؟ اگر وہ وزیر سے بالاتر ہیں تو منصب کا نام کیا ہے۔ وزیر صاحب کی ’’ بہادری ‘‘ دیکھیے کہ یہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ میری وزارت کے بارے میں بریفنگ وزیراعظم کی صاحبزادی کس ’’ رول آف بزنس ‘‘ کے تحت لے رہی ہیں۔ سیکرٹری میمنا ہے جو نشیب میں کھڑا ہے ،پانی اوپر سے میمنے کی طرف آرہا ہے۔ وزیر نے کہا تو یہ کہا کہ … وفاقی سیکرٹری حال ہی میں ہائوسنگ کی وزارت میں آئے ہیں۔ انہیں ’’ اپنا گھر سکیم ‘‘ کے بارے میں معلومات نہیں جس کی وجہ سے انہوں نے بریفنگ میں غلط بیانی کی‘‘… یہ بالکل وہی بات ہے کہ مظلوم عورت تھانے میں برہنہ سر بیٹھی رو رہی تھی۔ مولوی صاحب وہاں سے گزرے تو سرزنش کی کہ سر کیوں نہیں ڈھانپا۔
مسلم لیگ کا کیا ذکر کہ پیپلزپارٹی کے وزراء بھی شاہی خاندان کے افراد کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ برفِ پیری سے جن عمائدین کے سر کیا، ابرو بھی سفید ہو چکے ہیں شہزادہ بلاول کے سامنے مودب کھڑے ہیں ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
بادشاہت کے کلچر کا جزو لاینفک راجواڑے ہیں یہ بھی قانون سے بالاتر ہیں۔ دو دن پہلے ایک بے محکمہ وفاقی وزیر دارالحکومت میں ٹریفک پولیس سے الجھ پڑے ۔ سیٹ بیلٹ نہیں باندھی ہوئی تھی۔ مائنڈ سیٹ کی ’’ نفاست ‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ قانون کے خیال ہی سے ان حضرات کو گھن آتی ہے۔ دھمکی دی کہ چالان ہوا تو اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں گے۔ ٹریفک وارڈن نے اپنا فرض ادا کیا اور چالان کیا ۔رقم جس کی تین سو روپے ہے۔ خدا ہی کو معلوم ہے اس ٹریفک وارڈن کے ساتھ اب کیا ہوگا۔ ماضی کی روایت تو یہ ہے کہ جو بھی فرض ادا کرے اسے سزا ملتی ہے اور معافی بھی مانگنا پڑتی ہے۔ ایک اور وفاقی وزیر جو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سکینڈل میں گرفتار کیے جانے تھے ، بیرون ملک روانہ ہوگئے ہیں۔ روزنامہ ’’دنیا ‘‘نے کل ہی لکھا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیکنو کریٹ کو جو پاکستان میں محض اس مقصد کے لیے آئے تھے کہ یونیورسٹیوں میں رضا کارانہ طور پر پڑھائیں، ایئرپورٹ پر جس طرح روکا گیا اور واپس جانے کے لیے جہاز پر جس طرح بیٹھنے نہ دیاگیا اور اب جس طرح ملزم وزیر کو جانے دیاگیا اس سے بآسانی معلوم ہورہا ہے کہ رخ کس سمت کو ہے اور انجام کیا ہوگا!
ٹیکس دینے والے شہریوں کے پیسے سے صرف حکومتی اراکین بیرون ملک نہیں جاتے ، گداگر بھی جانے لگے ہیں۔ لاہور کے گداگر ہر سال قرعہ اندازی کے ذریعے اپنے ایک ساتھی کو بیرون ملک سیر کے لیے بھیجتے ہیں۔ دونوں کا ذریعہ آمدنی ایک ہی ہے۔ دونوں عام پاکستانی کی جیب سے روپیہ نکالتے ہیں اور اپنے مصرف میں لاتے ہیں۔ اقبال نے ’’گدائی‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی جو اصلاً انوری سے ماخوذ ہے۔ لاہور کے گداگروں نے کمال کیا ہے کہ شاعر مشرق کے تصور کوعملی جامہ پہنایا ہے۔ چلیے، بھکاری ہی سہی، کسی نے تو اس قومی فرض کی طرف توجہ دی ؎
میکدے میں ایک دن ایک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مرد غریب و بے نوا
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میروسلطاں سب گدا
کیا ستم ظریفی ہے کہ مالک دربدربھٹک رہے ہیں۔ گھروں میں بجلی نہیں، سی این جی سٹیشنوں پر میلوں لمبی قطاریں ہیں۔ ڈاکو راج شہروں سے لے کرقریوں تک پھیل گیا ہے۔ کوئی گاڑی محفوظ ہے نہ موٹرسائیکل۔ اغوا برائے تاوان صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بھتہ کلچر کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ مالک کو ہسپتال میں کوئی پوچھتا ہے نہ ریلوے سٹیشن پر لیکن اس کے پیسے پر گداگر بھی عیاشی کررہے ہیں اور حکمران بھی اور ساتھ سینہ زوری بھی کرتے ہیں۔
رولز آف بزنس، قانون، ضابطہ ، کسی نے اسرائیلی لیڈر موشے دیان کا بتایا ہے کہ اس کے خیال میں جس دن عرب قطار بنانا سیکھ لیں گے ان کی دنیا بدل جائے گی۔ کسی اسرائیلی سے پوچھا گیا کہ سرحد پر نشانی تو کہیں نہیں ہے ،کیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیل کی زمین ہے یا ساتھ والے ملک کی۔ اس نے جواب دیا کہ ہری بھری آباد زمین ہماری ہوگی اور غیر آباد بنجر عربوں کی۔ جس دن فیڈرل سیکرٹری نے کہہ دیا کہ مادام ! آپ قابل احترام ہیں، ہمارے وزیراعظم کی دختر نیک اختر ہیں، پوری قوم کے لیے باعث عزت و افتخار ہیں لیکن قانون اجازت نہیں دیتا کہ آپ کو بریفنگ دوں۔ جس دن وزیر نے وزیراعظم سے کہہ دیا کہ اگر آپ کے افراد خاندان نے میرے فرائض میں مداخلت کرنی ہے تو یہ لیجیے میرا استعفیٰ ،جس دن ایم این اے اور وزیر نے ٹریفک پولیس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے اپنے آپ کو چالان کے لیے بہ رضا ورغبت پیش کردیا اور جس دن ایئرپورٹوں پر مخدوموں کو روک لیاگیا تو سمجھیے ہم ناقابل تسخیر ہوگئے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“