میاں محمد شہبازشریف صاحب سے دشمنی ہے نہ چوہدری پرویز الٰہی صاحب سے دوستی۔ آج تک ملاقات
ہوئی نہ خدشہ ہے۔ شعر پامال ہے لیکن کارآمد ہے
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دشمنی اچھی، نہ ان کی دوستی اچھی
احمد جاوید نے کہ تصو ّف کی نذر ہو گئے، اس موضوع کو مزید نکھارا ہے
اچھی گزر رہی ہے دلِ خود کفیل سے
لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
جناب شہبازشریف نے لاہور پر اپنی ساری محبت نچھاور کر دی ہے۔ اس محبت میں وسائل بھی شامل ہیں۔ لاہور ان کے لئے وہی مقام رکھتا ہے جو تیمور کے لئے سمرقند رکھتا تھا۔ تیمور نے بھی جو کچھ مفتوحہ شہروں سے ملا، سمرقند پر نچھاور کر دیا۔ پوری سلطنت سے معمار، نقاش، شیشہ گر اور زین ساز سمرقند میں اکٹھے کر لیے۔ لاہور بھی سمرقند کی طرح خوش بخت ہے۔ کہیں پل بن رہے ہیں اور کہیں شاہراہیں۔ معمار اور کاریگر رات دن کام کر رہے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ لاہور کی محبت میں صوبے بھر کے وسائل کا معتدبہ حصہ لاہور پر خرچ ہونے لگا ہے۔ جناب حسن نثار نے لکھا ہے کہ سستی روٹی سکیم پر دی گئی مجموعی سبسڈی کا 45 فیصد صرف لاہور میں خرچ کیا گیا۔ میٹرو بس سروس بھی لاہور ہی میں چلائی جا رہی ہے۔ اس سارے عرصہ میں جب لاہور میں بیسیوں منصوبے مکمل ہوئے، راولپنڈی میں صرف ایک اوور ہیڈ پل (چاندنی چوک پر) بنا۔ ایک اور سکستھ روڈ پر اب آغاز ہو رہا ہے۔ صوبے کے دوسرے علاقے‘ وزیراعلیٰ کو شاعر کی زبان میں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں
ترے کچھ گدا بھی ہیں فاختائیں بھی ہیں تری
ترے شاہ اور ترے شاہباز سدا رہیں
پنجاب کے باقی حصے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جناب وزیراعلیٰ کی نظرِ کرم کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن جناب وزیراعلیٰ کی ساری توجہ اپنے شہر پر ہے۔ بقول ظفر اقبال
ہم اُس کے، وہ ہور کسی کا، پکّی پختہ ڈوری
اپنا دل اپنا مذہب، کیا جھگڑا چوں چناں کا
ایسے میں چوہدری پرویز الٰہی کا یہ کہنا کہ کس آئین میں لکھا ہے کہ صرف رائے ونڈ اور لاہور ہی میں ترقیاتی کام کروائے جائیں اور یہ کہ کیا دیگر 36 اضلاع میں لوگ نہیں بستے؟ کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا ہوگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ صوبے کے باقی اضلاع نے اس پر سر اثبات میں ہلایا ہوگا۔ ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے‘ جب محروم التفات علاقے نئے صوبوں کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دان دور اندیش ہوں تو ایسے مطالبوں کی پیش بندی اپنی پالیسیوں سے کریں نہ کہ بیانات سے۔
پنجاب کی حکومت وقت جو تغافل دوسرے اضلاع سے برت رہی ہے، اس کا ایک تجربہ اس کالم نگار کے ذاتی علم میں بھی ہے۔ ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ میں ایک گاﺅں جھنڈیال ہے۔ موجودہ حکومت سے پہلے ضلعی حکومتوں کا نظام تھا۔ اس وقت کی ضلعی حکومت نے اس گاﺅں کے لئے ڈسپنسری منظور کی۔ گاﺅں کے محل وقوع کی وجہ سے اردگرد کے دیہات نے بھی اسی ڈسپنسری سے رجوع کرنا تھا۔ گاﺅں کے ایک صاحب حیثیت شخص سردار تاج محمد خان نے چار کنال اراضی اس مقصد کے لئے ضلعی حکومت کے نام کی اور اس کا باقاعدہ انتقال بھی ہو گیا۔ ابھی بجٹ مختص ہونے کے مراحل طے ہو رہے تھے کہ ضلعی حکومتوں کی بساط الٹ گئی اور مسلم لیگ نون کی حکومت نے صوبے کا انتظام سنبھال لیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ یہ ڈسپنسری نہیں بن رہی۔
تین سال ہوئے اس کالم نگار نے اپنے کالم میں جناب وزیراعلیٰ سے دست بستہ گزارش کی کہ
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو ادھر بھی
کالم چھپا تو کالم نگار لاہور سے راولپنڈی کی طرف سفر کر رہا تھا۔ آدھے راستے میں پہلے تو ڈی سی او اٹک شکیل احمد صاحب کا فون آیا کہ ہم یہ کیس تلاش کر رہے ہیں۔ پھر کالم نگار کے چالیس سالہ پرانے دوست کا فون آیا جو وزیراعلیٰ کے پریس کے معاملات کے مدار المہام تھے۔ انہوں نے سرکاری دفاع میں ایک ایسی بات کہہ دی جو انہیں نہیں کہنی چاہئے تھی۔ اس بات کا ذکر اس لئے کرنا مناسب نہیں کہ ایک تو خلط مبحث کا اندیشہ ہے کہ اصل معاملہ چھپ ہی نہ جائے، دوسرے حسابِ دوستاں در دل! کچھ ہفتوں کے بعد ڈی سی او صاحب نے مطلع فرمایا کہ ڈسپنسری کے لئے مطلوبہ بجٹ کا کیس بنا کر لاہور بھیج دیا گیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے حاکمِ ضلع نے اس محروم التفات بستی کی ڈسپنسری کے لئے کتنا زرِ خطیر مانگا ہوگا؟ ایک کروڑ روپے؟ یا دو کروڑ؟ نہیں! صرف بیس لاکھ یعنی دو ملین روپے! اور یہ بھی چوتھا سال ختم ہونے کو ہے نہیں دےئے جا رہے!
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
لیکن یہاں تو پیاسے کو شبنم بھی نہیں مل رہی۔ یہ رقم ان اخراجات کا ہزارواں حصہ بھی نہیں جو صوبے کی مقتدر شخصیت کے لندن کے لاتعداد اسفار اور علاج معالجے پر صرف کیے جا رہے ہیں۔ یہ تو چند ٹکڑے ہیں جو لاہور میں بیٹھی حکومت نے اپنی میز سے پھینکنے تھے لیکن امیر تیمور کو سلطنت کے دوسرے حصوں کی پرواہ ہے نہ ہوش!
اس معاملے کے طے نہ ہونے کی تین ہی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اس لئے تغافل برتا جا رہا ہے کہ ڈسپنسری کی منظوری مسلم لیگ (ق) کے ضلعی ناظم نے دی تھی۔ یا اس لئے کہ بدقسمت بستی کا ایک ایسے کالم نگار سے تعلق ہے جو حکومت پر تنقید کرتا رہتا ہے (جن پر تنقید کی جائے وہ تنقید کو کبھی تعمیری قرار نہیں دیتے)۔ خدا کرے ان دونوں
وجوہ کا وجود نہ ہو۔ تیسری وجہ ایک ہی رہ جاتی ہے، نااہلی اور نظام کی خرابی! جس کا دائرہ کار صوبے کے چیف سیکرٹری کے زیر نگرانی ہے۔ چیف سیکرٹری صاحب ایک تو چیف سیکرٹری ہیں، دوسرے جنوبی پنجاب کے سردار ہیں۔ یعنی دو آتشہ، ان تک رسائی مشکل نہیں ناممکن ہے۔ انہیں بیرون ملک سے بھی ٹیلی فون کیا۔ ان اہلکاروں کے نام بھی نوٹ کر لیے جنہوں نے ٹیلی فون سنا اور وعدہ کیا کہ رنگ بیک کرائیں گے۔ لیکن پنجاب میں پٹواری اور ایس ایچ او سائل کا فون نہیں سنتا، چیف سیکرٹری تو بادشاہ ہے وہ بھی ایسا جس کے تخت کے نیچے پایوں کے بجائے‘ صوبے کے غریب اضلاع کھڑے ہیں۔
اسی پاکستان میں صوبہ خیبر پختون خواہ ہے جس کی روایت اتنی عالیشان ہے کہ صوبے کا چیف سیکرٹری، جو کوئی بھی ہو، ہر شخص کے لئے میسر ہے، ہر سائل کا فون خود سنتا ہے اور جواب بھی دیتا ہے۔ یہ روایت اس سرحدی صوبے میں بہت دیرینہ ہے۔ بیوروکریسی جس سطح کی بھی ہو، عام شہری سے ملاقات کرتی ہے اور کوئی پروٹوکول کوئی افسرانہ ذہنیت درمیان میں مانع نہیں ہوتی! ایک شاندار روایت وہاں یہ بھی ہے کہ ڈرائیور اور خدام دسترخوان پر ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کاش ان روایات کی بنیاد پنجاب میں بھی پڑ جاتی!
بہرطور! ناصر کاظمی نے کہا تھا
شہرِ لاہور! تری رونقیں دائم آباد
ہم لاہور کے عاشق ہیں اور اس کی سلامتی کے لئے دعاگو، مگر ع لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر! کیا کیجے! ابن الحسن سید مرحوم کا شعر یاد آ گیا
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو