پشتارہ ولی عالم شاہیں کے نظمیہ شاعری گلدستہ ہے۔ پشتارہ کا لفظ اردو کی عام بول چال میں عموما استعمال نہیں کیا جاتا۔ ' پشتارہ' فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بوجھ، گٹھا، ڈھیر یا انبار کے لیے جاتے ہیں۔ شاہین نے 'پشتارہ' اس شعری مجموعہ کے حوالے سے " بوجھ بھی اثاثہ بھی" کہا ہے شاعر نے اپنی شعری معنیات کی تشریح کرتے بعد اس عنوان کو موضوعی سطح پر لا رموز کیا ہے۔ جو تخیلیقی سطح پر ان کا عمرانیاتی اور بشریاتی سطح پران کا مشاہداتی تجزیہ ہے جو ان کی شاعری کا محور ہے۔ جو ان کی شاعری کے شعری اسلوب اور طرز احساس کی ایسی جمالیات ہے جو موضوع اور معروض کے دو قطبیں پر کھڑا نظر آتا ہے جو جہد البقا کی افقی اور عمودی جہتوں کو دریافت کرتی ہیں۔ ان کی شعری جامعیت میں اس سبب سے بھی پے جس میں معاشرتی تنہائی، وجودی کرب، سیاسی، معاشرتی بحران،اور بے چینی مابعدالطبعیاتی تشکیک تو ہے مگر ان نظموں میں زندگی دھڑکتی ہے۔ جس میں زندگی کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔ مگر استعاروں اور اور فرد کے تناو اورہیجان بھی ایک منفرد زبان و لسان کو بھی دریافت کرتی ہے اور شاعرانہ تمثیلی اور تمثالی مظہریت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ثقافی تناظر میں ان کے یہاں ایک سامراجی اور نوآبادیاتی نظریہ ملتا ہے۔ جس کو وہ نئی ثقفت یا تمدن سمجھتے ہیں۔ جو واہمہ بھی ہے اور ایک محیط ارّض التباس بھی ہے۔ جس کی جڑین معیشت سے جڑی ہوئی ہیں۔
** " نو آبادیات " **
زرائع ابلاغ عامہ کی
ثقافت نو کی ہفت اقلیم میں
بدن
اور اس میں پنہاں سب آرزوئیں
حسین کالونیاں ہیں
جن کی روش روش پر
ہرے بھرے شجر کے بیچے
زرد جواہر کا ڈھیر سا ہے { صفحہ 160}
۔۔۔۔۔
شاہین کی ان نظموں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ان کہ شاعری ادارک اور تخیل کا ایک پرسرار قوت ہے جو قاری کوہ ایک طلسماتی واہموں میں لے جاتی ہے جیاں قاری عقلی اور غیر عقلی بشری اسرار سے متعارف ہوتا ہے ۔ جہاں عقل اپنی شعوری زندگی ان کے ماورائی حس و تجربے کو اپنی ذات کا تجربہ محسوس کرتا ہے۔جو خالصتا شاہین کی شعری آفاق کی صورت کاری اور ہیت آفرین قوت ہےجہاں انسانی جذبات کو عقلی سیاق میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔
شاہین کا شعری اظہار بہت حساس ہے جسب میں ایک لایعنی { ابسرڈ } من وتو کی دنیا قاَم ہے۔ جس میں وجودی دہشت بھی پوشیدہ ہے اور انسانی زیست کا کرب ار زندگی سے لاچارگی ک احساس حاوی ہے۔ اور وہ اپنے وجود کے فنا کے متمنی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ موت ہی انگی کی اصل اگہی اور حقیقت ہے اور موت کی آگہی ہے۔ جو ناگزیر طور پر فرد کی فنا ہے جوماورائے حقیقت بھی ہے۔ فرد کو ایک ماوائی دنیا زیادہ سکوں کی نظر آتی ہے۔ شاہین کی نظم" بزدل" ہمارے محاکمے کا ثبوت ہیش کرتی ہے ۔
" آج کے اخبار میں بھی
میرے مرنے کی کبر کوئی خبر نہیں
دیکھ لے میں زندہ ہوں میں "
{ صفحہ 179}
شاہین کی ن٘ظموں مہاجرت کا گہرا احسا س بھی ملتا ہے۔ جو ان کا ایک بڑا معاشرتی اور ثقافتی کرب ہےان کے یہاں سیاسی بحران کا آفاق بھی ملتا ہے۔ ان کی شاعر کو تجزیہ کرتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ شاعری اقدار کی تبدیلی کا مظہر ہے۔ ان کی " پشتارہ" مین شامل نظمین انحوں موضوعی اور معروضی احوال کو وسیلہ اطہار بنایا ہے جس کے لیے شعرا کے پاس کوئی بھی وسیلہ اظہار اور ابلاغ کا پیمانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اظہار سے ماروا ہوتے ہیں۔ان کی نظموں کو کسی ادبی یا فکری تحریکوں،رجحان سے منسلک نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا ان کی شاعری پرکسی سکہ بند رویوں کا کوئی جبر نہیں ہے جب ہی " پشتارہ" آزاد فضاوں میں سانیسس لیتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...