شہید ہونے والے بچو ہماری مجبوریاں سمجھو
ہم نے تمہاری لاشیں اٹھائیں، تمہارے خون آلود پارہ پارہ جسموں کو غسل دیا، تمہارے جنازے پڑھے، تمہاری قبروں سے لپٹ کر روئے، ہم نے سینوں پر دو ہتھڑ مارے، مائوں اور بہنوں نے بال کھول ڈالے اور وہ ماتم کیا کہ آسمان لرز اٹھا، زمین کانپ گئی، ستارے ڈولنے لگے۔
ہم روئے، گریہ وزاری کی، ہمارے دلوںمیں صدمے کی شدت سے چھید پڑگئے ہیں، ہمارے کلیجے شق ہوگئے ہیں۔ قریب ہے کہ بینائی مسلسل روتی ہوئی آنکھیں سے رخصت ہوجائے۔ کیا عجب درختوں پھولوں اور پتوں سے ہمارے نوحوں کی آواز آنے لگے۔ کیا عجب چاندنی سسکیاں لے اور سسکیوں کی آواز پوری دنیا سنے
ستارے سسکیاں لیتے ہیں، اوس روتی ہے
فسانۂ جگر لخت لخت ایسا ہے
ہمارے غم اور کرب میں شک ہی کیا ہے لیکن اے شہد ہونے والے بچو! تم یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ ہماری گریہ وزاری، ہمارے ماتم، ہماری چیخوں اور ہماری سینہ کوبی کا یہ مطلب ہے کہ ہم تمہارے ان دوستوں کو جو زندہ ہیں، دہشت گردوں کے نشانے سے بچا سکیں گے!
شہید ہونے والے بچو! جگر کے ٹکڑو! آنکھوں کی روشنیوں! ہماری مجبوریاں سمجھو! ہم عورتوں کی طرح آہ وزاری تو کرسکتے ہیں، مردوں کی طرح ایکشن نہیں لے سکتے۔ ہماری مصلحتوں نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھتے ہیں۔ ہمارے مفادات نے ہماری آنکھوں پر دبیز پردے ڈالے ہوئے ہیں۔ ہماری ترجیحات اور ہیں۔ ہماری نااہلی ان سب مجبوریوں سے بڑھ کر ایک بڑی مجبوری ہے! شہید ہونے والے پھولو! سمجھنے کی کوشش کرو!
ہمیں معلوم ہے تمہارے قاتل کون ہیں! ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ ان قاتلوں سے ہمدردی رکھتا ہے، ہمیں ان کے با رے میں سب کچھ معلوم ہے! ہم جانتے ہیں کن تعلیمی اداروں میں کس کو امیر المومنین کہا اور سمجھا جاتا ہے! ہمیں ان کمیں گاہوں کا پتہ ہے جہاں عسکریت پسند پناہ لیتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی واہگہ میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی، ایک ایک خاندان سے دس دس جنازے اٹھے۔ میڈیا نے بتایا کہ دہشت گردوں نے کہاں پناہ لے رکھی تھی، مگر ہم ان پناہ گاہوں کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے۔ ابھی ایک ہفتہ پیشتر ملک کے دارالحکومت سے داعش کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور ابوبکر بغدادی سے ا پیل کی گئی ہے کہ آکر بدلہ لے۔ ہمیں معلوم ہے یہ حمایت کس نے کی ہے اور یہ اپیل کس کی ہے۔حکومت کو بھی معلوم ہے لیکن آہ! شہید بچو! ہم کچھ نہیں کرسکتے !ہائے افسوس! ہم کچھ نہیں کرسکتے! معصوم فرشتو! تمہارے ملک کے جو جانباز سپاہی سر ہتھیلی پر رکھ کر تمہیں اور تمہارے دوستوں کو بچاتے ہیں اور وطن کی خاک پر اپنا لہو گرا کر شہادت کا ساغر پیتے ہیں، انہیں شہید کہتے ہوئے جن کی زبانوں پر آبلے پڑتے ہیں، وہ ہمارے درمیان ہی رہ رہے ہیں! وطن کے یہ غدار، اسی وطن کا میٹھا پانی پیتے ہیں، اسی سرزمین سے اگنے والی گندم کھاتے ہیں، اسی دھرتی کی دھوپ اور چاندنی سے حظ اٹھاتے ہیں، مگر افسوس! ہم ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے، قتال کوتمام مسائل کا حل بتانے والے ہمارے درمیان دندناتے پھرتے ہیں لیکن ہم تمہاری لاشوں سے لپٹ کر رو تو سکتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔
جب قبریں اکھاڑ کر لاشیں نکالی گئیں اور چوراہوں پر لٹکائی گئیں تو کچھ زبانیں ایسی تھیں جو گنگ ہی رہیں۔ بازاروں ،مزاروں اور مسجدوں میں بے گناہوں کے جسم پرخچوں کی طرح اڑے، جنہوں نے مذمت نہ کی انہیں سب جانتے ہیں! سروں سے فٹ بال کھیلے گئے ،تو ان کے ہمنوا خاموش رہے، علم کے ان سمندروں سے ٹی وی پر خود کش دھماکوں کے بارے میں استفسار کیا گیا تو جواب تھا کہ فتنوں کا زمانہ ہے، سو خاموشی بہتر ہے، مگر جب ان بازاروں میں دھماکے ہوئے جہاں تجارتی مفادات تھے تو خاموشی کو طاق پر رکھ کر چیختی گونجتی پریس کانفرنسوں میں احتجاج کا شور برپا ہوا۔ افسوس! تم شہیدوں پر ماتم کرنے کے لئے تو قوم متحد ہے لیکن جنہوں نے تمہیں شہید کیاان کی مذمت پر قوم متحد نہیں ہے! مقتولوں پر بین سب کررہے ہیں، قاتلوں کا نام لیتے ہوئے بہت سے ہونٹ سر بمہر ہوجاتے ہیں! تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نہیں کہ دہشت گردی طاقت سے ختم نہ ہوئی ہو مگر ہمارا عوامی لیڈر ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ میں وزیر اعظم ہوتا تو قبائلی علاقوں میں فوج نہ بھیجتا۔ اس قلم کار نے مجموعی طور پر ہمیشہ حمایت کی لیکن ننھیال کے ساتھ جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ وابستگی کا بوجھ قوم کی گردن پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟ ہمارا عوامی لیڈر اس بات پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کرتا کہ 67 برسوں میں قبائلی علاقوں میں ایک یونیورسٹی نہ بنی، ایک کارخانہ نہ لگا، مگر فوج کے وہاں جانے پر اعتراض کرتا ہے! بچوں کی شہادت پر افسوس بجا لیکن شہید کرنے والوں کی مذمت کیوں نہیں؟
مائوں کی گودیں خالی کرکے اسکول سے سیدھا جنت سدھارنے والے بچو! ہم تمہیں بچا نہ سکے کہ ہماری ترجیحات اور ہیں! ہم نے چودہ اگست 2013ء کو شیخ چلی کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ایک نیشنل کاونٹر ٹیررازم پالیسی مشتہر ہوئی۔ بتایا گیا کہ چھ ماہ میں’’جوائنٹ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ‘‘ بنے گا۔ ایک سریع الحرکت فورس وجود میں آئے گی جس کی ابتدائی تعداد پانچ سو اور بعد میں دو ہزار ہوگی۔ یہ منٹوں سیکنڈوں میں کارروائی کرے گی۔ اس اعلان کو سولہ ماہ گزر چکے ہیں، یعنی چونسٹھ ہفتے یعنی چار سو اسی دن، مگر ابھی تک سیکرٹریٹ بنا نہ سریع الحرکت فورس، نیکٹا بورڈ کا اجلاس ہر تین ماہ میں ہونا تھا لیکن ایک بھی نہ ہوا۔ اکتوبر2014ء کا اٹھائیسواں دن تھا جب یہ سب کچھ نہ ہونے کا سبب یہ بتایا گیا کہ مالی اسباب کی کمی ہے! شہید ہونے والے بچو! ہمارے پاس اربوں روپے میٹرو بسوں، پلوں، جنگلوں اور شاہراہوں کے لئے تو ہیں، ہم موٹر وے کی آرائش اور تزئین نو پر اربوں روپے صرف کرسکتے ہیں، ہم کھربوں روپے بیرون ملک دوروں پر لگا سکتے ہیں، ہم کروڑوں روپے وزیر اعظم، صدر ، گورنروں، وزراء اعلیٰ اور وزیروں کے محلات کی خوبصورتی پر اور باغوں پر اور باغبانوں پر خرچ کرسکتے ہیں۔ ہمیں ایک ایک عوامی نمائندہ کروڑوں میں پڑرہا ہے۔ ہم ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے ’’نیک نام‘‘ پیران فرتوت کو چو دہ چودہ کروڑ کی عیدی بخش سکتے ہیں، ہم آئینی منصب پر برا جمان اسی سالہ، از کار رفتہ بیوروکریٹ کو، جو کرسی چھوڑنے کا تصور تک نہیں کرسکتا، ہر ماہ اب بھی ایوان صدر سے تین لاکھ روپے، بغیر کسی وجہ کے اضافی دے سکتے ہیں اور دئیے جارہے ہیں، ہم ایک ایک اعلیٰ شخصیت کی نقل و حرکت کے لئے کروڑوں کا پٹرول، اربوں کی گاڑیاں اور کھربوں کی افرادی قوت بہم پہنچا سکتے ہیں، ہم ایک ایک صوبائی حاکم کے چار چار محلات کو سرکاری رہائش گاہ قرار دے کر کروڑوں روپے کے سرکاری پہریدار فراہم کرسکتے ہیں لیکن افسوس!
ہیہات !نیکٹا کو فعال کرنے کے لئے ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔ سریع الحرکت فورس کو وجود میں لانے کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹریٹ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہم قلاش ہوگئے ہیں! ہائے افسوس! زندگیاں بچاتے وقت ہم مفلس ہیں، پارٹی کے اجلاس ہم دبئی میں کرتے ہیں اور چھینک آجائے تو علاج کرانے لندن جاتے ہیں!!
شہید ہونے والے بچو! تمہارے جو دوست بچ گئے ہیں، ان کی زندگیوں کے لئے دعا کرو! اور ہماری مجبوریاں سمجھنے کی کوشش کرو!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“