زرا سوچو تو
کوئ رنگ کھلے
کوئ زلف اڑے
کوئ خوشبو مہکے
کوئ کاجل چمکے
پر دیکھنے والی انکھ نہ ہو
کوئ گیت مچلے
کسی کی چال بدلے
کوئ خود سے شرماۓ
اپ اپنی بلائیں لیتا جاۓ
پر کوئ دیکھنے ، نا سنے نا سراہے
ایسا ہی کچھ ہوا شگفتہ بی کا ساتھ ، نام تھا شگفتہ بی پر وہ کہلائیں بڑی شاہنی خاندان کی بڑی بہو ، اونچی جگہ پر ، شادی کے دوسرےماہ جب ساس گڑ کر کولہے کی ہڈی تروا بیٹھی تو مانو سارا گھر دنوں میں ان کا محتاج ہو گیا ، کس کمین کے ہاں کتنی گندم جاۓ ،بیٹھک میں کس مہمان کو کیا پروسا جاۓ ، یہاں تک کے کتنے دودھ کو چاٹی میں جانا ہے اور کتنے کو جاگ لگانا ہے سب بڑی شاہنیبتائیں گی ، پھر اوپر تلے چار بیٹے ، زمیندار کے گھر کی مالکن تو بڑی بہو ہی ٹھہری ، اونچا رتبہ عقیدتوں کا طوفان لے آیا ، عورتیں آ ہاتھچومیں تو بچے سر آگے کریں ، گھر ، رتبہ ، ممتا کے بوجھ نے چوبیس سال کی عمر میں چالیس سے اوپر کا کر دیا ، شوہر ان کے کچھ اورشوق رکھتے تھے ، ان کی گود میں چار بیٹے ڈال مانو سب فرائض انجام دے چکے تھے اپنے ، تبھی بیٹھک میں چاۓ کھانا دینے کو نیا کاماگھر میں آیا ، باپ بھی اسی گھر کا نمک کھا مرا تھا سو رگوں میں وفا تو ہو گی یہ خود ہی سوچ لیا گیا مگر یہ سوچ غلط تھی پہلی بار تبکائنات نے اشارہ دیا جب شاہنی نے ہمیشہ کی طرح رنگ سے بیزار سوٹ پر ہاتھ رکھا تو پاس کھڑا وہ بول اٹھا نہ شاہنی وہ لال سوٹلیں نا ، اپ پر بہت کھلے گا ، ناگواری کا آحساس دلا ، لیا تو بےرنگ سوٹ ہی مگر جانے کیوں تنہائ میں اپنے تن پر لال سوٹ کےخیال سے خود کو آزاد نہ کروا سکیں ، پھر جانے کب بات لال سوٹ سے ہٹ چوڑی ، بندی جھانجر تک پہنچی اس کی باتیں ، سراہناجانے کیا جادو جگاتا ، پہلی بار کسی کو شاہنی میں عورت دکھی تھی ، کندھوں پر بوجھ بہت تھا مگر کان سماعتوں کے منتظر ، ایک دناتنی تعریف کافی نہ رہی تو رات کے اندھیرے سج ، دل کھول تعریف سننے سارا وقار پاؤں تلے روند ، اس کے سرہانے جا پہنچیں ،مگر آج وہ زبان سے سراہنے کی بجاۓ وجود سے سراہنے لگا ، شاہنی کے اندر کی بہو ، بیوی ، ماں جاگی یا شاید عورت بھی لفظوں کیلے کی مدہوشی سے ہوش میں آئ ، خود کو چھڑوا گھر بھاگیں ، مگر کتنے دن سماعتوں کا نشہ برا رے ، گیارہویں دن سب مان سمانبلاۓ طاق رکھ کبھی شاہ کو نہ منانے والی ایک کامے کو منانے جا ہنچی ، اس نے اس بار من پسند سماعتوں کے نشے کی قیمترکھی مفت میں تو چار دن ہی نشہ دیتے ہیں پھر تو پوری پوری قیمت وصول ہوتی ہے ، کان ٹوٹیں ، اندر کسمساۓ ہاۓ یہ سماعتوںکا نشہ
ہر نشئ کی طرح وہ بھی چھوڑنے کا عقد باندھتیں ، ان کی عقیدت ان کو ہر روز ذلیل کرتی اور نشہ مجبور
جس دن پکڑ پکڑی جائیں گی مار دی جائیں گی مگر کبھی کوئ جان پاۓ گا کہ وہ وہاں بدن کی ضرورت نہیں کان کے نشے کو تھیں
کچھ خواہشیں انوکھی ، کچھ نشے نرالے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...