شاہ عالمی دراوزہ
————————-
لوہاری او رموچی دروازے کے درمیان شہرپناہ میں جنوبی جانب شاہ عالمی دروازہ واقع ہے۔ یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے شاہ عالم بادشاہ کے نام سے موسوم ہے۔ پہلے اس کا نام کچھ اور ہوتا تھا۔ ’’نقوش، لاہور نمبر‘‘ میں حافظ عباداللہ فاروقی نے لکھا ہے۔ ’’یہ دروازہ اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے اور جانشین محمد معظم شاہ عالم بہادر کے نام سے موسوم ہے جو 28فروری 1712ء کو بمقام لاہور فوت ہوا۔‘‘
یہ دروازہ بھی انگریزی عہد میں دیگر دروازوں کی طرح پرانے انداز تعمیر میں 18922ء سے قبل چھوٹی اینٹوں سے تعمیر ہوا اور چونے کا مسالہ استعمال کیا گیا۔ بالائی منزل پر پولیس کی گارد رہتی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اندرون شہر کے اس حصے میں زیادہ لوٹ مار ہوئی، عمارات کو آگ لگا دی گئی، بڑی بڑی عمارات اینٹوں کو ڈھیر بن گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد شاہ عالمی دروازے کو گرا دیا گیا۔ اندرون شاہ عالمی دروازہ ملبہ صاف کر کے قدرے کھلی اور بڑی عمارات بنا دی گئیں جو آج غیر ملکی اشیاء کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ شاہ عالمی دروازے میں داخل ہوں تو بائیں جانب پاپڑ منڈی بازار شروع ہو جاتا ہے جو چوک متی تک پہنچتا ہے جہاں چھاپہ سٹریٹ اور چوک متی بازار بھی آن کر ملتے ہیں۔ شاہ عالمی بازار آگے بڑھ کر مچھی ہٹہ بازار میں تبدیل ہو جاتا ہے جو چوک رنگ محل تک پہنچتا ہے جہاں ترقیاتی ادارہ لاہور (LDA)نے کثیر منزلہ پارکنگ پلازہ کی تعمیر کی ہے۔
شاہ عالمی دروازے کے اندر لال مسجد ہے۔ اس کی بالائی منزل پر واقع صحن میں سائے کے لیے ایسبسٹاس کی پرتوں سے چھت ڈال کر اس کے قدیمی حسن کو برباد کر دیا گیا ہے۔ لوہے کا جنگلا و جالی کی ایستادگی نے مسجد کے جمالیات کو متاثر کیا ہے۔ پہلی منزل پر پانی کی ٹینکی و طہارت خانے کی تعمیر نے مسجد کے بیرونی منظر کو چھپا دیا ہے۔
دومنزلہ قدیمی مسجد پری محل کو چند برس ہوئے گرا دیا گیا اور اس کی جگہ مسجد ایاز کی طرح ایک نئی مسجد تعمیر کر دی گئی ہے۔ چوک رنگ محل سے آگے اگر دائیں طرف مڑیں تو سنہری مسجد او رمسجد وزیر خان سے ہوتے ہوئے ہم دہلی دروازے تک جا پہنچتے ہیں۔ اسی طرح اگر چوک رنگ محل سے سیدھے چلے جائیں تو حویلی چونا منڈی اور مسجد مریم زمانی سے گزرتے ہوئے ہم مستی دروازے تک جا پہنچتے ہیں۔ شاہ عالمی دروازے کے اندرون میں تجارتی اعتبار سے سب سے زیادہ سرگرمی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہاں ٹریفک کا مسئلہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ زمانہ قدیم میں اگرچہ لوہاری منڈی، اکبری منڈی اور دہلی دروازہ کا بازار ہی اہم تجارتی مراکز رہے ہیں مگر قیام پاکستان کے بعد شاہ عالمی بازار سب سے بڑا تجارتی مرکز بن گیا ہے۔
کنہیا لال نے شاہ عالمی دروازے کے اندر حویلی دیوان لکھپت رائے اور حویلی جسپت رائے کا ذکر ’’تاریخ لاہور‘‘ میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا طویلہ اور دیوان خانہ ہے۔ دیوان لکھپت رائے کا بازار پاپڑ منڈی میں بھی تھا جو سکھ عہد میں ضبط رہا اور سرکار انگریزی کے وقت نیلام ہوا۔
وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل کے نام سے ایک حویلی تعمیر کروائی۔ اس کے دو درجے تھے، ایک زنانہ اور دوسرا مردانہ۔ سکھ عہد کے اولین دور میں پہلے تو تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کیے۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے اس حویلی میں فوج اور گولہ بارود رکھا، اس کی بڑی بڑی عمارات گرا کر کھلا میدان بنا دیا۔ انگریزی عہد میں محمد سلطان ٹھیکیدار نے اس کو خرید کر یہاں سے اینٹیں نکلوائیں اور عمارات تعمیر کروائیں۔
19477ء کے ہندو مسلم فسادات میں اندرون شاہ عالمی کا علاقہ بری طرح تباہ ہوا۔ دوسری طرف بارشوں نے کہنہ اور خستہ عمارات کو گرا کر ملبے کے ڈھیر لگا دئیے۔سامان کی لوٹ مار کے بعد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
چونکہ اندرون شاہ عالمی میں زیادہ تر ہندو گھرانے تجارت سے وابستہ تھے۔ وہاں کا مین بازار بمشکل بیس فٹ چوڑا تھا۔ حکومت پاکستان نے Demage Area Development Ordinance جاری کیا۔ اس کے تحت 20فٹ چوڑی سڑک کو 80فٹ چوڑا کر دیا گیا۔ دونوں اطراف عمارات کی تعمیر نو کے لیے دس فٹ کے برآمدے کی شرط کو لازمی قرار دیا گیا۔ نو مرلہ کمرشل پلاٹ بنائے گئے۔ عمارات کی حد اونچائی 60فٹ مقرر کی گئی۔ کھلی اور کشادہ گلیاں بنائی گئیں جہاں کنکریٹ کا فرش بنایا گیا اور زیر زمین نکاسی آب کے لیے نالا بنایا گیا۔ فسادات میں 20فیصد رقبہ شہر قدیم کا متاثر ہوا۔ لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ نے دس ملین مکعب گز ملبہ شہر سے باہر منتقل کیا۔
)غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس(
Shah Alam gate – Shahalami darwaza
https://www.facebook.com/groups/290995810935914?view=permalink&id=1251923841509768