شاہ ولی اللہ کی تعلیمات عصر حاضر میں مذہبی رواداری کی علمبردار : پروفیسر اشفاق احمد
مانو لکھنؤ کیمپس میں "مذہبی رواداری: شاہ ولی اللہ کے حوالے سے" موضوع پر توسیعی خطبہ کا انعقاد
لکھنؤ (27 نومبر/ پریس ریلیز ( قومی یکجہتی آج کی ایک اہم ضرورت تو ہے لیکن اس سے زیادہ ضرورت ہے مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد و اتفاق ک، کیونکہ قومی یکجہتی تو ایک تکثیری سماج میں ہمیشہ سے ضروری رہی ہے اور ہمارے اسکالرز اور مفکرین نے اس پر ہر دور میں زور دیا ہے اور ہماری طرف سے باتیں بھی ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسٹیج سے باتیں زیادہ ہوتی ہیں اور عملی مظاہرہ کم.مسلمانوں کے اندر یہ شعور اس کے دور عروج سے ہی پایا جاتا ہے. اس کا ثبوت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریروں میں بکثرت دیکھا جا سکتا ہے. ان خیالات کا اظہار آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس میں بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر پروفیسر اشفاق احمد نے کیا. پروفیسر اشفاق احمد "مذہبی رواداری شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے" کے موضوع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں اپنا توسیعی خطبہ پیش کر رہے تھے. پروفیسر اشفاق نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے آگے کہا کہ ہندوستان میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مذہبی رواداری کے سب سے بڑے حمایتی تھے یہی وجہ ہے کہ امریکی اور یوروپی یونیورسٹیوں میں شاہ ولی اللہ صاحب پر سب سے زیادہ تحقیق کا کام ہوا ہے ۔ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر مزید تحقیق کی ضرورت آج بھی محسوس کی جاتی ہے ۔ مذہبی رواداری کی ضرورت کو آج کے ماڈرن سیکولر اسٹیٹ میں بہت ہی اہم مانا گیا ہے اس لیے شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اس سلسلے میں اہمیت اختیار کر جاتے ہیں. انہوں نے آگے کہا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بیک وقت ایک مذہبی اسکالر، صوفی، مصنف اور مترجم و مفسر کی حیثیت سے معروف تھے، اس وجہ سے ان کو ہندوستان کا ہر مسلک اپنا رہبر و رہنما مانتا ہے. ان کو ہندوستان میں سب سے بڑی مسلم شخصیت اس لیے مانا جاتا ہے کہ حجۃ اللہ البالغہ جیسی کتابوں میں انہوں نے اتحاد اور اجتماعیت کی باتوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے اور مذاہب کے درمیان آپسی بحث اور گفتگو کی ضرورت کو عیاں کیا ہے. حالانکہ وہ جس زمانے کے عالم ہیں یعنی 1703 سے 1762 کے درمیان مسلمان اس ملک کی حکمرانی پر قابض تھے، اس کے باوجود انہوں نے مذہبی رواداری کی اہمیت اور طریقہ کار پر بات کر کے جدید سیکولر ریاستوں کے سامنے طریقہ حکومت کا ایک ماڈل پیش کیا ہے. شاہ ولی اللہ کے خیالات سے نتائج اخذ کرتے ہوئے پروفیسر اشفاق نے آگے کہا کہ مذہبی رواداری اس وقت تک ہمارے درمیان وجود میں نہیں آ سکتی جب تک ہمارے درمیان ایک دوسرے کے لیے دلی قربت کے احساسات پیدا نہیں ہوتے. اس کےلیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی طور سے بھی وطنی بھائیوں سے نہ صرف کھل کر گفتگو کریں بلکہ ان کو عزت و تکریم دیں.
مانو لکھنؤ کیمپس نے "قومی تعمیر میں مسلمانوں کا کردار" کے مرکزی تھیم پر ایکسٹینشن لیکچر سیریز کا ایک جامع خاکہ تیار کیا ہے، جس کے تحت تعلیمی سال 2019 – 2020 میں ماہرین کے توسیعی خطبات کا انعقاد کیا جائے گا. اس ایکسٹینشن لیکچر سیریز کے تحت آج پہلے لیکچر کےلیے پروفیسر اشفاق احمد صاحب کو مدعو کیا گیا تھا. اس سیریز کی کوآرڈینیٹر کی ذمہ داری شعبہ انگریزی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ہما یعقوب کو تفویض کی گئی ہے جبکہ کنوینرشپ کی ذمہ داری شعبہ فارسی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نکہت فاطمہ کو دی گئی ہے.
اس سے قبل مانو لکھنؤ کیمپس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نے مہمان مقرر کا اور سامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ وطن کی تعمیر و ترقی میں ہمارے جن بزرگوں نے حصہ لیا ہے ان کی خدمات کا بہت کم اعتراف کیا گیا ہے، اس لیے مانو لکھنؤ کیمپس میں ہماری کوشش تھی کہ ہم اپنے محسنین کی خدمات کے تعارف کے لیے کچھ کریں اور ایک تعلیمی ادارہ ہونے کے ناطے ہمیں سب سے زیادہ مناسب لگا کہ ایک ایکسٹینشن لیکچر سیریز کا سلسلہ شروع کر کے ہم انہیں بہترین خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں انہی مقاصد کے تحت یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے. امید ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات اس سیریز سے بھرپور استفادہ کریں گے اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی تعمیر و ترقی میں حصہ لے کر ملک کے لیے مفید ثابت ہوں گے.
مہمان مقرر کا تعارف ڈاکٹر ہما یعقوب صاحبہ نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر اشفاق احمد صاحب صدرِ جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز مشہور عربی اسکالر ہیں اور مصر ایمبیسی سے جڑ کر سالوں تک ایک مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں ہیں. ساتھ ہی "النثر العربی المعاصر فی الهند" جیسی کئی معروف کتابوں کے مصنف ہیں.
پروگرام کا آغاز شعبہ عربی( ایم اے) کے طالب علم محمد زید صدیقی کی تلاوت قرآن پاک اور اس کے اردو ترجمے سے ہوا. پروگرام کی نظامت ڈاکٹر نکہت فاطمہ نے بحسن و خوبی انجام دیئے. شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے استاد ڈاکٹر محمد سراج الدين نے مہمان مقرر اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا. اس موقع پر کیمپس کے اساتذہ ، ریسرچ اسکالر اور کثیر تعداد میں طلبہ موجود تھے۔