وزیر اعظم پاکستان نے نوے روز کی "گوہ" (بڑی سی چھپکلی ) صحافیوں اور کالم نگاروں کے حلق میں ایسی اٹکائی ہے جو نگلے تو جاتی ہی نہیں مگر اگلنے پر ہم "اخلاق کے مارے" صحافی و کالم نگار گریزاں ہیں کیونکہ ہم یا تو کسی کا پاس کرتے نہیں یا اگر ہمیں کسی کی خواہش جائز لگے تو پاس نبھانا اپنا فرض تصور کرتے ہیں۔ اس لیے حکومت کے اعمال سے متعلق تو خیر تب تک کچھ نہیں لکھنا مگر ہٹلر کے وزیر اطلاعات جوزف گوئبلز کو شرما کر رکھ دینے والے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی بات کرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ پھر میں کونسا مرتضیٰ سولنگی، مطیع اللہ جان یا نصرت جاوید ہوں جو الیکٹرونک میڈیا سے وابسہ رہا ہو جس کو برطرف کرکے یا پروگرام بند کرکے روزی کم کر دی جائے گی اور نہ ہی میں ان لوگوں کی مانند معروف ہوں اس لیے چپ نہیں رہوں گا۔
وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے دورہ چین کے حوالے سے کچھ روز سے سوشل میڈیا پر چند تصویریں پوسٹ کی جا رہی ہیں جن میں سے ایک میں عمران خان عالمی سربراہان کی گروپ تصویر میں پہلی صف میں دکھائے گئے ہیں، ساتھ ہی پاکستان کے دوسرے وزرائے اعظم دوسری یا تیسری یعنی آخری صف میں دکھائے گئے ہیں اور ان تصویروں تلے لکھا ہے "حقیقی رہنما "۔
عجیب بات ہے کہ تصویر میں پہلی قطار میں آنا "حقیقی رہنما" ہونے کو کیونکر ظاہر کرتا ہے؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ سربراہان کی گروپ تصویروں میں آگے پیچھے کھڑے ہونے میں "رہنما " حقیقی یا غیر حقیقی ( ویسے تو جو سربراہ کے طور پر کہیں گیا ہو وہ حقیقی ہی ہوتا ہے، نہ فرضی ہوتا ہے نہ رہنما کی روح ) ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بالعموم اس میں باہمی اتفاق ہوتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہو بلکہ بعض اوقات تو کوئی اپنی جگہ چھوڑ کر کسی اور کو وہ جگہ دیتا دیکھا گیا ہے۔ دوسرے ایسی تصویروں میں قد کا تناسب مد نظر رکھا جاتا ہے کہ تصویر بہت زیادہ غیر متناسب اور غیر مناسب نہ لگے، تیسرے بعض اوقات ناموں کے حروف تہجی کے حساب سے کھڑا ہونے کو کہا جاتا ہے جیسے آئی پہلی قطار میں کے دوسری میں اور این تیسری میں۔
سربراہان کی گروپ تصویر میں میزبان ملک کا سربراہ اور اگر خاص تنظیم ہے تو اس کے رکن ملکوں کے سربراہوں کو آگے اور مبصر یا متفق ملکوں کے سربراہوں کو پیچھے کھڑا کیا جاتا ہے۔ جس تصویر میں آئی کے پہلی قطار میں کھڑے ہیں اس میں ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں بلند قامت ہونے اور منفرد یا دنیا کے حساب سے عجیب لباس، شلوار اور لمبے چو این لائی کوٹ یعنی شیروانی میں ملبوس ہونے کی بنا پر کھڑا کیا گیا ہے۔ اب مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ تصویر اصلی ہے یا فیک کیونکہ کم از کم مجھے مین میڈیا پر دکھائی نہیں دی۔
دوسری تصویر میں ہمارے ملک روس کے وزیر اعظم دمتری مدویدیو کے علاوہ دوسرے رہنما بھی بظاہر آئی کے کی کسی بات پر متوجہ دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی بھلا ایسی کونسی بات کہہ سکتا ہے کہ سبھی متوجہ ہوں۔ یا تو ایٹمی جنگ چھیڑے جانے کی بات پر یا کل قیامت برپا ہو جانے کی پیشگوئی پر یا یقین کیجیے کوئی لطیفہ سنانے پر۔ پھر جب ایک رہنما بات کر رہا ہوتا ہے تو سبھی اس کی ہی بات سنیں گے نہ کہ اپنی اپنی ہانکتے دکھائی دیں گے۔ یہ ایک لمحہ تھا جو کیمرے نے محفوظ کر لیا۔ ایسا نہ تو پاکستان کے کسی چینل پر دکھایا گیا کہ سبھی رہنما ہمارے گوئیبلز کے اساتذہ کے رہنما کی بات کم سے کم دس سیکنڈ کے لیے ہی سن رہے ہوتے اور نہ ہی روس کے کسی سرکاری یا غیر سرکاری چینل پر ایسا کوئی دلکش منظر دکھایا گیا۔ روس کے چینلوں پر البتہ دمتری مدویدیو اور عمران خان کی دو طرفہ ملاقات دو چار سیکنڈ کے لیے ضرور دکھائی گئی ہے۔
تیسری تصویر میڈیکل کالج کے میرے ایک ہم جماعت اور دوست نے پوسٹ کی ہے جس میں خان صاحب کی ایک ٹانگ کی شلوار نیچے سے کافی میں ڈوبی دکھائی گئی ہے جس کے نیچے جلی رنگین نسخ میں لکھا ہے،" تقریب کے دوران ایک چینی میزبان کے کپ سے شلوار پر گرنیوالی چائے کا برا نہ منائے بغیر اسی شلوار سے کپتان ساب ساری تقریب میں شرکت رہے۔
یہ ادا چینیوں کا دل چرا گئی اور وہ پاکستانی روپوں میں تجارت پر راضی ہو گئے۔
اور یہ چائے چائنا کے ایک بڑے بزنس گروپ ڈالیان وانڈا کے چیئرمین وانگ جیان لن کے کپ سے گری تھی اور وہ شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے لیکن کپتان نے الٹا سوری کہ کر انکو شرمندگی سے بچا لیا۔
کپتان ایسی چیزوں کی پروجیکشن پسند نہیں کرتے" ( میں نے اس تحریر کی اردو اور ہجے درست نہیں کیے جیسے لکھی ویسے ہی نقل کر دی)
پہلی بات تو یہ ہے کہ چائے آئی کے کی سفید شلوار پر ہی کیوں گری؟ اگر گرگئی تو برا منانے کی کیا بات، کوئی گرائی تو نہیں اتفاق سے گر گئی ہوگی۔ جب کسی محفل میں ایسا واقعہ ہوجائے تو گرانے والا اور متاثر ہونے والا دونوں ہی سوری کہا کرتے ہیں اور ظاہر ہے گرانے والا خفیف ہوا یوتا ہے، اس میں کوئی ماورائی، غیر معمولی یا پر تقدس بات کیا ہے۔ پھر یہ کہ ایسی محفلوں میں کوئی اے ڈی سی متبادل لباس تو بیگ میں لیے نہیں پھرتا کہ جھٹ سے پیش کرے اور رہنما شلوار بدل لے۔ ایسی صورت میں یا تو ہوٹل واپس جانا پڑتا یا باتھ روم میں جا کر شلوار کی ایک طرف کو دھو کر مزید مضحکہ خیز بنایا جا سکتا تھا۔ میرے خیال میں ایسا ہوا ہی نہیں اس تصویر کے فیک ہونے کا اندازہ پوسٹ کرنے والے ( میرے ہم جماعت نہیں کیونکہ انہوں نے تو ری پوست کی ہوگی ) کی اردو کی سطح اور عالمی اقتصادیات کے بارے میں علم کی استعداد ظاہر کر رہی ہے۔
چینی پاکستانی روپوں میں تجارت کرنے پر وزیراعظم پاکستان کی شلوار پر چائے گرنے اور اس بارے میں ان کی بے اعنائی کے باعث رضامند نہیں ہوئے بلکہ یہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے وہ گذشتہ پانچ سال سے روس کے ساتھ اور گذشتہ اڑھائی برس سے ہندوستان کے ساتھ ان ملکوں کی کرنسیوں اور یوآن میں ہی لین دین کر رہے ہیں۔ اس میں بھی چین کا ہی فائدہ ہے کیونکہ چین کا یوآن باقی کرنسیوں کی نسبت قدرے مستحکم ہے اور چین کا روس، ہندوستان اور پاکستان کو بھیجا جانے والا مال، ان ملکوں سے چین منگوائے جانے والے مال سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ آپ ان کے منگوائے مال کی ادائیگی روپوں میں کرتے ہیں اور وہ آپ سے منگوائے مال کی ادائیگی یوآن میں یا آپ سے ہی لیے روپوں میں۔ روپوں میں ایک خاص حد تک اور خاص اشیاء کی ادائیگی کی جا سکتی ہے باقی کی ادائیگی نئے معاہدوں کے مطابق آپ کو یوآن میں کرنی پڑتی ہے جس کے لیے آپ اپنے ڈالر دے کر ان سے ان کی سرکاری قیمت پر یوآن خریدتے ہیں اور ان کے مال کی ادائیگی کرتے ہیں۔ آپ چینی حکومت سے یوآن بھی ایک خاص حد تک خرید سکتے ہیں، اضافی یوآن آپ کو مارکیٹ سے مہنگے خریدنے پڑتے ہیں چنانچہ یوں چینیوں کو کرنسی کے ادل بدل میں دہرا نہیں بلکہ تہرا منافع ہوتا ہے۔ آپ کے روپے کی قدر مسلسل گرتی جاتی ہے اور آپ کی لیکویڈیٹی یعنی کیش کی موجودگی بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ کوئی بہت خوش آئند معاہدہ نہیں ہے۔ چین کے لیے البتہ ضرور بہتر ہے کیونکہ وہ اپنی تجارت میں ڈالر پر اپنے انحصار کو کم سے کم تر کرنا چاہتا ہے۔ یہ عمل اس کی امریکہ سے اقتصادی جنگ کا ایک چھوٹا سا ہتھیار ہے۔ اس لیے کہ ڈالر کو آئندہ کئی دہائیاں شکست دیے جانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی تصاویر پھیلا کر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول کیوں جھونکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ لوگ اندھے نہیں وہ سب دیکھ رہے ہیں کہ پیر افضل قادری کیا کر سکتے ہیں جبکہ ان کو کوئی ہاتھ لگانا تو درکنار رہا ان سے کیے معاہدے پر بطور مخالف فریق دستخط لینے پر مجبور پایا جاتا ہے۔ یہ بھی بہت خوشی کی بات ہے نا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارو؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...