فریجیا کی سلطنت پر سات سو قبلِ مسیح میں شاہ میداس نے اقتدار سنبھالا۔ ان کی زیادہ شہرت ایک داستان کی وجہ سے ہے۔ ان کے گلابوں کے باغ میں یونانی دیوتا سلینس مدہوش ہو کر سویا ہوا تھا۔ میداس نے ان کا اچھا خیال رکھا اور میداس کی میزبانی سے متاثر ہو کر سلینس نے میداس کی خواہش پوچھی۔ میداس نے فرمائش کی کہ وہ جس کو چھوئیں، وہ سونے میں تبدیل ہو جائے۔ ان کی اس خواہش کا پورا ہونا ان کو مہنگا پڑ گیا۔ انہوں نے جب اپنی بیٹی کو گلے لگایا تو وہ سونے کی بن گئی۔ جس کھانے کی چیز کو ہاتھ لگاتے، وہ ہونٹوں تک پہنچے تک سونے کی بن جاتی۔ (میداس کی اس کہانی کو اس سبق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اپنی آرزووٰں سے خبردار رہیں)۔ یہ ایسے تو نہیں ہوا لیکن میداس کی یہ شہرت بلاوجہ نہیں۔
میداس کے ساتھ کچھ اور لوک داستانیں بھی وابستہ ہیں جیسا کہ اپالو نے میداس کی موسیقی کو نہ سراہنے پر ان کے کانوں کو گدھے کے کانوں سے بدل دیا تھا لیکن ان کی شہرت کی کچھ اصل وجوہات بھی ہیں۔ کئی بار ٹین، سیاہ سیسہ (گریفائٹ) اور سفید سیسہ دریافت کرنے کا سہرا ان کے سر باندھا جاتا ہے (یہ درست تو نہیں لیکن ان کی سلطنت میں ٹین کی کان کنی کی جاتی تھی)۔ ان کی سونے کے ٹچ کی کہانی دھاتوں کی کہانی ہے۔
اس کی ابتدا کانسی کے دور سے ہوتی ہے جو تین ہزار سال قبلِ مسیح میں شروع ہوا۔ ٹین اور تانبے کو ملا کر کانسی بنتی ہے۔ یہ اس دور کی جدید ترین ٹیکنالوجی تھی۔ یہ مہنگی تھی لیکن میداس کے دور میں ہر طرف پھیل چکی تھی۔ فریجیا موجودہ ترکی میں ہے۔ میداس کے والد گورڈیاس کے مقبرے سے ان کا مجسمہ اور ساتھ پڑے خوبصورت برتن بتاتے ہیں کہ کانسی کا استعمال بہت عام تھا۔ لیکن جب ہم “کانسی” کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ذرا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ پانی میں ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک ایٹم ہے اور ہر جگہ پانی کا یہی مطلب ہے لیکن کانسی دھاتوں کا مرکب ہے۔ دھاتوں کا تناسب تبدیل ہونے سے بھی یہ کانسی ہی کہلائے گا۔ اس کے رنگ کا انحصار اس پر تھا کہ جہاں سے اس کے اجزاء حاصل کئے جا رہے ہیں، وہاں پر ٹین، تانبے اور دوسری دھاتوں کا اپنا تناسب کیا ہے۔
فریجیا موجودہ ترکی میں ہے۔ میداس کے علاقے میں پائی جانے والی خام دھات میں زنک کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ زنک اور ٹین کی خام دھاتیں قدرتی طور پر اکٹھی پائی جاتی ہیں۔ ایک جیسی لگتی ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ پر غلطی سے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ جو چیز دلچسپ ہے، وہ یہ کہ زنک کو جب تانبے سے ملایا جائے تو پیتل بنتی ہے۔ پیتل کی دنیا کی ابتدائی فاوٗنڈریز ایشیائے کوچک سے ملی ہیں، وہی جگہ جہاں پر میداس کی حکومت تھی۔
یہ وہ علاقہ تھا جہاں پر کانسی بنانے کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیتل دریافت ہوئی۔ کانسی چمکدار ہے لیکن تانبے کے رنگ کی۔ اس پر کسی اور چیز کا دھوکہ نہیں ہو سکتا۔ پیتل کی چمک فرق ہے۔ سنہری رنگ کی ہے۔ میداس کا ٹچ ایشائے کوچک کی مٹی سے اتفاقیہ طور پر ملنے والی زنک کا ٹچ تھا۔
اس تھیوری کو ٹیسٹ کرنے کے لئے انقرہ یونیورسٹی میں میٹلرجی کے پروفیسر اور تاریخ دانوں نے میداس کے دور جیسی بھٹی تیار کی۔ اس میں مقامی طور پر ملنے والی خام دھاتیں ڈالیں۔ ان کو پگھلایا، مائع دھات سے سلاخیں بنائیں۔ یہ سخت ہو کر بالکل سونے کے رنگ کی بنیں۔
یہ جاننا تو ناممکن ہے کہ شاہ میداس کے معاصر ان کے پیتل کے برتنوں اور بیلٹ کو واقعی سونا سمجھتے تھے یا نہیں لیکن یونان سے آنے والے مسافر (جنہوں نے بعد میں ایشیائے کوچک کو اپنی کالونی بنایا)، وہ اس علاقے کی “کانسی” کو دیکھ کر ضرور حیران ہوئے ہوں گے۔ جو کہانیاں ان کے ذریعے واپس یونان پہنچیں، ان میں اس کا ذکر ہو گا۔ان داستانوں کے “سونے” کے مجسموں کی وجہ یہاں کی مقامی مٹی تھی۔ یورپ میں داستان گوئی کے ماہر اووڈ کے جینئیس نے اس کہانی کو سبق آموز بنانے کے لئے اپنا “ٹچ” شامل کر کے، یونانی دیوتا کا اضافہ کر کے اس کو میداس کو یاد رکھنے والی لوک داستان بنا دیا۔ یہ داستان سبق آموز ہے، غلط ہے لیکن بے بنیاد نہیں۔ اس کے پیچھے ترکی کی مٹی کی دھاتوں کی سائنس ہے اور اووڈ کا داستان گوئی کا فن بھی۔