شاہ جنالی اور سیاحت
گزرے برسوں کی بات ہے جب گاؤں میں درختوں کے سائے دوہرے ہو جاتے اور دور کہیں بچے "انگریز، انگریز" پکارتے تو ہم ایسے بھاگتے کہ چپل پاؤں سے نکل کر دور جا گرتے… گورے بڈھے بڈھیاں، جواں سال، نیم برہنہ لڑکیاں، کسرتی جسم والے سفید فام مرد ہاتھوں میں شفاف منرل واٹر کی بوتل (جسے ہم دارو سمجھ کر عجیب نظروں سے دیکھتے) کمر پر بھاری بھر کم بیگ، گلے میں کیمرہ اٹھائے آہستہ آہستہ شاہ جنالی کی طرف جاتے….. ہم دور تک ان کا پیچھا کرتے، گاؤں کا کوئی شخص ان سے ہیلو ہائے کرتا تو ان کی انگریزی دانی سے ایسے مرعوب ہوجاتے کہ پھر ان کے سامنے بات کرنے کی ہمت تک نہ ہوتی… بچوں کی محفل میں یہ بات مہینوں تک گردش کرتی کہ فلاں نے انگریز کے ساتھ انگریزی میں بات کی…. چلتے چلتے کسی پھول یا جھاڑی کو چھو لیتے تو ہمیں اس کے کیمیا ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا. غرض ہم تھک ہار کر واپس گھروں کو آجاتے اور گورے دور سنگلاخ اور دشوار گزار راستوں کی جانب اپنا سفر جاری رکھتے……. تورکہو ریچ کے آخری گاؤں روا سے آگے شاہ جنالی تک ان سیاحوں کو لے جانے کے لیے مقامی لوگ اچھا خاصہ معاوضہ لیتے….. یہ غیر ملکی سیاح بے حد کٹھن راستے پاٹ کر شاہ جنالی پہنچ جاتے جو ریچ کے آخری گاؤں سے کوئی چھ گھنٹے کے فاصلے پر یار خون کے حدود کے قریب واقع ہے… شاہ جنالی کو جانے والا راستہ پر خطر اور دشوار گزار ہے، تنگ گھاٹی سے ہو کر جانا پڑتا ہے، راستے میں پتھر کا ایک قدرتی پل بھی آتا ہے.. شاہ جنالی کے شروع میں "سروز" کا ایک بوڑھا درخت ہے جو پتلی لاٹھیوں سے ڈھکا ہوا ہے…… اس کو "شینجینی سروز" کہتے ہیں اپنے مویشیوں کو دور پہاڑی چراگاہوں کی طرف لے جاتے ہوئے لوگ اپنے ڈنڈے اس درخت کے حوالے کرتے اور یہ خیال کرتے کہ ایسا کرنے سے جنات مویشیوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے…. برسوں کے سوکھے ڈنڈے وہاں تہہ در تہہ پڑے آج بھی سڑ رہے ہیں…. تھوڑا آگے جا کر دریا کے اس پار لشٹ جنالی ہے جہاں بھوج"بوڑی" کے درختوں کا گھنا جنگل ہے…. اتنا گھنا کہ اگر کسی کا بیل اس جنگل کے اندر گم ہو جائے تو باہر ہی باہر انتظار کرنے کے سوا بازیابی کی کوئی اور صورت نہیں. وہاں کی راتیں بڑی ہیبت ناک ہوتی ہیں. دھاڑتی ہوا، رانبھتے بیل، شور مچاتا دریا، یہ ساری آوازیں مل کر ایک عجیب ماحول بناتیں….
اچھے وقتوں میں سیاح آکر کئی کئی دن وہاں کے اس طلسمی ماحول سے لطف اندوز ہوجایا کرتے تھے اور پھر اشپیرو ڈوک پاس سے ہوتے ہوئے یارخون ویلی کی طرف چل نکلتے…. میرے ایک عزیز بتا رہے تھے ایک انگلستانی خاتون آکر دریا کنارے اپنا خیمہ لگایا اور پورے تین ہفتے تک اکیلی وہاں رہیں…. یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب پاکستان میں ہر طرف راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا…. سیاحوں کی بڑی تعداد چترال کا رخ کرتی تھی ان کے ساتھ پولیس گارڈ نہیں ہوتے تھے وہ اکیلے سائکل پر بھی سفر کرتے ہوئے دیکھے جاتے….. جب سے دہشت گردی کی عفریت کا سایہ اس ملک پر پڑ چکا ہے تب سے ہم نے اپنے گاؤں میں گوری میموں، بڈھے انگریزوں کو نہیں دیکھا….
شاہ جنالی ایک چراگاہ ہے مقامی لوگ اپنے بیلوں کو اپریل کے اواخر میں وہاں لے جاتے ہیں اور 6 یا 11 ستمبر کو سارے مل کر واپس لے کر آتے ہیں… واپسی کا یہ منظر بہت بڑے جشن کی صورت اختیار کرتا ہے…… ہر گھر سے ایک بندہ مقررہ دن سے ایک یا دو دن پہلے وہاں پہنچ جاتا ہے مقررہ دن کو دوسرے لوگ بھی اس مقام تک جاتے ہیں جہاں بیلوں کو ہانک کر دریا برد کیا جاتا ہے…. کیونکہ پل بیلوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا…. مالک بیلوں کو دریا کے حوالے کرکے خود پل کی طرف آتا ہے دریا کے دوسری طرف گھر کا دوسرا فرد اپنے بیل کا انتظار کرتا ہے….. کچھ بیل سیدھا سیدھا دریا پاٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کچھ کو دریا بہا کر دور تک لے جاتا ہے اس طرح دریا کے اس پار ایک جشن کا سماں ہوتا…. دوپہر تک لوگ اپنے اپنے بیلوں کو ہانک کر گاؤں کی طرف چل دیتے …. موٹے موٹے، ہٹے کٹے مست بیلوں کے ابھرے ہوئے کندھے سب کو اچھے لگتے …. اسپین میں ہٹے کٹے مست بیلوں کے سامنے دوڑ کو ثقافتی تہوار کا نام دے کر اس کی مد میں سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں…. لیکن ہمارے ہاں قدرتی حسن و رعنائی سے بھرے مناظر میں انجام پانے والے ایسے تہواروں کو کوئی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں… اگر ان جیسے تہواروں کی طرف سیاحوں کی توجہ مبذول کی جائے تو اس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ملک کو بھی سیاحت کی مد میں اچھی خاصی آمدنی ہوگی…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔