شاہ دولہ کے چوہوں کی قوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستانی گجرات میں ایک مزار پر اولاد مانگنے والے اس "منتوں" کے بعد ملنے والی اولود کو مجاوروں کے حوالے کر آتے تھے۔وہ اس کے جسم کے ساتھ سر کو بڑھنے سے یوں روکتے تھے کہ سر کو لوہے کے شکنجوں میں جکڑ دیتے تھے اور وہ بالغ جسم پر ایک شیر خوار کا سر لےؑ کوچہ و بازار میں لڑکھڑا کے چلتے۔ پیشاب ٹپکاتے۔غاوں غاوں کرتے خواری کا تماشاےؑ عبرت بنے نظر آ تے تھے یہ شاہ دولہ کے چوہے کہلاتے تھے اور عقیدت مندوں سےمزار کیلےؑ نذرانے لاتے تھے۔۔اب یہ کم دیکھنے میں اتے ہیں
لیکن اب میں ایک اور ملک گیر پیمانے پر ان چوہوں کی پوری قوم کو پروان چڑھتا دیکھ رہا ہوں اور مجھے یہ لطیفہ ایک سچ ہوتا نظر آرہا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ نظر انے والے شہری شخص کو کسی ان پڑھ دیہاتی نے روکا کہ بابو یہ میرے بیٹے کا خط پڑھ کے سنا دو۔۔ اس شخس نے معذرت کرلی کہ بابا ۔یہ ہمارے کورس
کی کسی کتاب میں نہیں تھا۔۔ اب صورت حال رفتہ رفتہ ایسی ہی ہوتی جارہی ہے۔ کیمسٹری۔ نیوکلیؑرفزکس۔ کمپیوٹر تیکنالوجی سے ادب اور نفسیات ہر مضمون میں ڈاکٹریٹ کر لینے والے بھی عالمی تو دور کی بات ہے ملکی حالات و واقعات سے بھی وہ اتنے ہی بےخبر ہیں جتنا ایک ان پڑھ شخص۔اپنی ذات سے متعلق مسایل کے علاوہ بیشتر نہ کسی معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔شاید کر بھی نہیں سکتے۔۔
شعور۔ علم اور اگہی میں بہت فرق ہے۔۔
شعور ایک جبلت ہے۔۔نو مواد بچہ بھوک کا شعور رکھتا ہے۔۔گرنے سے ڈرتا ہے کہ ہاتھوں میں نیچا کیا جاےؑ تو چونکتا ہے۔بلی کیلےؑ مشہور ہے کہ بچوں کو حفاظت کے لےؑ سات گھر لے جاتی ہے۔ہر جاتنار خود حفاظتی کا شعور رکھتا ہے،،اس کے لےؑ کسی تعلیم کی ضرورت نہیں
تعلیم گھر مدرسہ پرایؑمری اسکول سے دارالعلوم اور یونیورسٹی تک ہر سطح پر جاری ہے اور تمام عمر جاری رہتی ہے۔یہ دینی اور دنیاوی امور کی فہم پیدا کرتی ہے اور خصوصیت کے افق کی انتہا تک بھی لے جاسکتی ہے
لیکن تعلیم اگر آگاہی نہ دے تو اعلیٰ تعلیم یافتہ محض کتابی علم کا حافظ ہے۔ایک ٹیپ ریکارڈر یا جدید اصطلاح میں میموری ۔۔ وہ سو جی بی کی ہو یا ایک لاکھ ۔۔یا "آرٹیفشل انٹیلی جنس" والا روبوٹ جس کا نیکی۔ ہمدردی محبت نفرت ۔۔کسی قسم کے جذبات سے کویؑ تعلق نہیں۔ میرا یہ شک اب یقین کے ناقبل تردید اسباب رکھتا ہے کہ ہمارے اس نظام تعلیم نے میڈیا کی مدد سےاتنی بڑی اکثریت میں روبوٹ پیدا کر دےؑ ہیں کہ اب اس معاشرے کو فنون لطیفہ ۔ ادب،موسیقی آرت وغیرہ وقت کا زیاں لگتے اور غیر ضروری لگتے ہیں
چنانہ مشاعرے،،کنسرٹ۔۔ادبی رسایل۔ فلمسازی۔ڈراما سب کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔۔اور ہمیں یقین دلادیا گیا ہے کہ ایسا ساری دنیا می ہورہا ہے خصوصا" پڑوسی ملک میں۔۔اس خیال سے کہ ہم پر سچ نہ کھلے ٹی وی کی نشریات کو پیمرا نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔جو ملکی ٹی وی چینل دیکھے اور دکھاےؑ جاسکتے ہیں وہ صرف جرایمؑ حادثات۔فیشن شو۔ گلیمر سنسر کےؑ گےؑسیاسی بیانات۔پریس ریلیز،غیر ملکی یا بھارتی تفریحی مواد ہی دکھا سکتے ہیں۔ نصابی کتب کوسرکاری نقطہؑ نظر کی تبلیغ تک محدود کر دیا گیا ہے۔فیس بک پر سچ لکھنے کی ہمت کو دہشت سے ختم کر دیا گیا ہے،نیؑ نسل کیلےؑ بس آج کے دن کی بقا کی جدو جہد اہم ہے۔ماضی کچھ نہیں اور مستقبل کی فکر کرنے والے "دوسرے" ہیں
اب میں پریشان ہی ہو سکتا ہوں جب میری اپنی فیملی میں ایک گریجویٹ سوال کرتا ہے کہ بھٹو کون تھا۔یا کہتا ہے پاکستان کے پہلی خاتون صدر مادر ملت فاطمہ جناح تھیں۔۔ مشرقی پاکستان بلوچستان کی طرف نہیں تھا توکہاں تھا؟ جب 65 اور 71کی جنگ ہم نے جیت لی تھی توسارا بھارت ہی پاکستان میں شامل کیون نہیں؟ قانون نہیں تو کیا ہوا۔۔ہر مجرم کو سر عام پھانسی ضرور دینی چاہےؑ۔۔جیسے سعودی عرب میں سر قلم کرتے ہیں۔۔ایک پوسٹ آج ملی "چیف جسٹس کے نام کھلا خط" اس میں مطالبہ تھا کہ چیف جسٹس خود 118 پر ڈایؑل کرکے دیکھے کراچی بجلی کمپنی کسی کی نہیں سنتی۔۔اللہ اکبر۔۔ایک چیف جسٹس کا کیا کام ہے؟ آییؑن اور قانون کا ہمیں نہیں معلوم۔۔بس وہ میرا مسلہ حل کرےہر گاوں قصبے شہر سے ہر پاکستنی شہری بجلی پانی ٹوٹی سڑک یا گٹر لایؑن۔۔ اپنے گوالے کے پانی ملے دودھ۔۔ عورت کی بے راہروی۔۔ شب برات کے حلوے پر پابندی۔۔ ہر مسؑلے پر چیف جسٹس کو کھلا خط لکھ سکتا ہے۔۔آرمی چیف کو مارشل لا لگانے کا کہہ سکتا ہے
شاہ دولہ کا چوہا دماغ نہیں رکھتا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔