تاریخ پاک و ہند میں شاہ عالم ثانی بہت دلچسپ اور اہم کردار ہے 1728 سے 1806 تک زندہ رہنے والے اس بادشاہ نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ بدقسمتی سے اس کے سامنے جو اہم سوالات تھے ان کا جواب اس وقت ہندوستان کے کسی دانشور کے پاس نہیں تھا۔ ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے مسلم دانشور شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادے شاہ عبدالعزیز جیسے علما موجود تھے مگر برصغیر کے یہ دو اہم ترین مسلم دانشور ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں ناکام رہے شاہ ولی اللہ دہلوی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی ریاست اور اسکے نظام کے بارے میں ایک انتہائی قیمتی اور منفرد کتاب ازالۃالخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی فارسی زبان میں تالیف کی تھی، یہ کتاب دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں اس وقت کے کسی سیاسی اور سماجی مسئلے کا حل موجود نہین۔ یہ دور مختلف صوبوں اور گورنروں کی خود مختاری کا تھا۔ شاہ عالم ثانی نے انگریزوں کا تجارتی اور عسکری پیش رفت روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس کے لئے جو سیاسی اور آئینی تیاری درکار تھی وہ شاہ عالم کے پاس نہیں تھی۔ شاہ عالم ثانی کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ ہندوستان کو کیسے متحد اور ایک حکومت کے تحت رکھا جائے۔ بدقسمتی سے شاہ عالم ثانی کے وقت کوئی مسلم یا ہندو دانشور سیاسی یا آئینی بندوبست کا علم نہیں رکھتا تھا۔ مختلف مذہبی، علاقائی اور لسانی اکائیوں کو کیسے متحد رکھا جا سکتا ہے عمرانی معاہدہ کیا ہوتا ہے شاہ عالم کے دور کے کسی عالم کے پاس اس بات کے جوابات نہیں تھے۔ انگریزوں کی تجارتی اور عسکری پیش رفت اس کے لئے پریشان کن تھی۔ شاہ عالم نے بنگال کے میر قاسم، میسور کے حیدر علی، مہاراشٹر کے مرہٹوں حتی کہ احمد شاہ ابدالی جیسے افغان حملہ آوروں سے کوئی تعلق بنانے کی کوشش کی۔ فرانسیوں سے راہنمائی طلب کی ڈچ اور ولنڈریوں سے رابطہ کیا۔ مگر اس وقت کے سیاسی خلقشار کو کس طرح ایک سیاسی بندوبست میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے باہمی جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ پنجاب کے سکھ۔ اودھ کے نواب اور جٹ کیسے مطمن کئے جا سکتے ہیں، شاہ عالم ثانی پوری کوشش کے باوجود ان سوالوں کا جواب نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس نے مرہٹوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی مگر افغانیوں اور روہیلوں سے تعلق کو سیاسی اور ائینی طور پر نہیں بنا سکا۔ اس کا نتیجہ کمپنی کی پیش رفت سے نکلا۔ جب اپنے تخت سے محروم ہونا پڑا اور یہ تخت شاہ جہاں ثانی کو ملا تاہم ایک طویل جلاوطنی کے بعد مرہٹہ افواج کے پہرے میں شاہ عالم فاتح کی حیثیث سے دہلی لوٹا۔شاہ عالم نے انگریزوں کی عسکری اور تجارتی پیش قدمی کو روکنے سات سال سخت مزاحمت کی اور فرانسیسی تعاون سے اس مزاحمت کو جاری رکھا۔ پٹنہ، سر پور،بیرپور، اور سیوان کے معرکوں شاہ عالم کو انگریز فوج کے میجر نے 1761 میں شکست دی یہ وہی سال تھا جب احمد شاہ ابدالی مرہٹوں کے خلاف پانی پت کی تیسری جنگ لڑ رہا تھا۔ میر قاسم اور شجاع الدولہ کے ساتھ مل کر بکسر کی جنگ لڑی اور 22 ۱کتوبر 1764 کو بکسر کی جنگ میں شکست کھائی۔ جس کے بعد ٹیکس کا نظام کمپنی کے ہاتھ آگی
شاہ عالم کے دور میں ہی اردو زبان کو فروغ ہوا اور شاہ عالم نے خود اردو زبان میں آفتاب کے تخلص سے کافی کچھ لکھا شاہ عالم ثانی نے اعلی تعلیم پائی تھی۔ انھیں مذہبی علوم کے ساتھ علم تاریخ اور اسلامیات پر عبور تھا۔ وہ عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی کےعلاوہ اردو، پنجابی اور برج سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ شاہ عالم ثانی، تخلص آفتاب بلند پایہ شاعر اور اردو کے اہم نثر نگار ہیں۔ انھوں نے فارسی، اردو کے علاوہ برج۔ پوربی اور پنجابی میں بھی شعر کہے۔ چنانچہ مثنوی، غزل، رباعی، مرثیہ، دہرا، دوہا اور سلام وغیرہ ان کے دیوان میں موجود ہیں۔ ان کے تصانیف حسب ذیل ہیں: (1 دیوان اردو، (2 مثنوی منظوم اقدس، (3 نادرات شاہی، (4 دیوان فارسی اور (5 عجائب القصص۔ دیوان اردو اور مثنوی منظوم اقدس اب دستیاب نہیں ہیں۔ شاہ عالم ثانی کی تصانیف میں عجائب القصص بہت اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں جو کتابیں اردو کی نثری سرمائے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں ان میں عجائب القصص بھی شامل ہے۔
1759 میں دہلی سے نکلنا پڑا اور 1772 میں واپس لوٹا
ا۔
1772 میں مرہٹوں کی مدد سے شاہ عالم دہلی واپس آیااسی دوران غلام قادر نے دہلی پر قبضہ کیا 20 جولائی 1788 کو غلام قادر روہیلہ نے بادشاہ کو اندھا کردیا۔ غلام قادر نے نہ صرف شاہ عالم کو اندھا کیا بلکہ مغل شہزادیوں کو ننگا نچوایا 1788 میں مرہٹوں نے دہلی پر دوبارہ قبضہ کیا تو شاہ عالم کو بحال کردیا
یہی حیدر علی اور ٹیپو کا دور تھا اسی دور میں راجہ رنجیت سنگھ کا ظہور ہوا۔ 1788 سے 1803 تک مرہٹوں کا دہلی میں قبضہ رہا حتی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مرہٹوں کو شکست دیا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“