اس کے سامنے ’ چاشنی‘ جو کبھی ’ نرالاسویٹس‘ کہلایا کرتی تھی ، کے ان بڑے بوندی لڈوﺅں کے وہ ڈبے پڑے تھے جو شادی بیاہیوں کے موقع پر ایک ایک کی چمکیلی اور ریشمی سنہری پٹیوں والی مرصع سلور پیکنگ میں بانٹے جاتے ہیں ۔ نرالا سویٹس کی کہانی بھی عجیب رہی تھی ۔ یہ گوالمنڈی لاہور کی ایک مٹھائی کی دکان تھی جسے شروع کرنے والا ایک سیدھا سدھا دھوتی اور سلوکے میں ملبوس سر پر ' پرنا ' پگڑی کی طرح باندھے اس کے دادا کی نسل کا ایک لاہوریا تھا ۔ اس کا بیٹا زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا ۔ اپنے زمانے میں سائنس کے ساتھ سادھا گرئجویٹ تھا لیکن اچھی کاروباری فراست کا مالک تھا ۔ اس نے نرالا سویٹس کو گوالمنڈی سے نکال کر پہلے لاہور اور پھر ملک کے مشہور ترین مٹھائی بنانے والوں کی صف میں لا کھڑا کیا تھا لیکن اسے ' پارکنسن ' کی بیماری نے ایسا لاچار کیا کہ یہ پھیلا کاروبار اُسے اپنے بیٹوں کے ہاتھوں میں دینا پڑا جو ملک کی اعلیٰ درسگاہوں سے ' بزنس ' پڑھ کر نکلے تھے ۔ وہ یہ کاروبار نہ سنبھال سکے اور یہ بک گیا ۔ خریداروں نے ' نرالا ' کو ' چاشنی ' بنا ڈالا تھا جو کہ مٹھائی کا ایک جزو ہوتی ہے ، نرالی مٹھائی نہیں ہوتی ( جیسا کہ پہلے ہوتی تھی ) ۔
' چاشنی ' کے یہ لڈو پھوپھیوں کے لئے اس کی بیٹی اُسی صبح ، لندن کے لئے جہاز پر سوار ہونے کے لئے ، ائرپورٹ پر جانے سے پہلے چھوڑ کر گئی تھی ۔ وہ انہیں دینے گیا تھا اور اس کی بہنوں نے یہ مٹھائی لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ اُس سے ایک روز پہلے اس کے بیٹے کی رسمِ نکاح شہر کے ایک پوش علاقے کے ’ کمیونٹی سنٹر‘ کے ایک ہال میں ہوئی تھی جس میں وہ ایک عام مہمان کی طرح ( آنا چاہے تو آ جائے نہ چاہے تو نہ سہی ) ' میسنجر‘ کے ایک پیغام کے ذریعے بلایا گیا تھا ؛
۔ ۔ ۔ کا نکاح ، کمیونٹی سنٹر ، ۔ ۔ ۔ بلاک ، ۔ ۔ ۔ ہاﺅسنگ سوسائٹی ، وقت ؛ آٹھ بجے رات
اپنی بڑی بیٹی کے اس پیغام کو وصول کرکے وہ شش و پنچ میں تھا کہ جائے یا نہ جائے کہ اس کی دو بہنیں جس میں سے ایک نے اس کے بیٹے کی آٹھ سال تک نگہداشت کی تھی ، کے جی سے لے کر آٹھویں جماعت تک ، وہ اسے سکول سے لاتی اور شام تک اس کی دیکھ بھال کرتی تھی یوں وہ ایک طرح سے اس کے بیٹے کی ’ گاڈ مدر‘ بھی تھی ، کو شامل ِ تقریب نہیں کیا گیا تھا ۔ شام رات میں ڈھلی اور وہ ساڑھے سات بجے تک اسی گو مگو کی کیفیت میں پڑا رہا ، پھر اس نے جی کڑا کیا ، کپڑے بدلے ، گاڑی نکالی ، حالانکہ ’ نائٹ ڈرائیونگ‘ اس کے لئے ممنوع تھی ، اور گھر سے نکل پڑا ، اس پوش سوسائٹی کی جانب ، جس سے اسے ، اس وقت سے نفرت تھی جب سے یہ بنی تھی کہ یہ نودولتیوں کی آماجگاہ تھی ۔ اس نے اپنی طرف سے وہ راستہ اختیار کیا تھا جو کبھی اس کا دیکھا بھالا تھا لیکن جوں جوں وہ اس راستے پر آگے بڑھتا گیا یہ اجنبی سے اجنبی تر ہوتا گیا ، سریے اور کنکریٹ کے نئے ڈھانچوں ، پلوں اور دورویہ سڑکوں ، جن پر بہت سی ’ ڈائیورژنز‘ تھیں ، نے اسے بھول بھلیوں میں ڈال دیا ۔ جابجا پولیس و ملٹری پولیس کے ناکوں پر رکنا ، ڈگی چیک کرانا اک الگ عذاب تھا ۔ جس سفر کو وہ آدھے گھنٹے کا سمجھ کر نکلا تھا ، وہ سوا گھنٹے میں طے ہوا تب کہیں وہ اس سوسائٹی کے مطلوبہ بلاک میں داخل ہو پایا ۔ کمیونٹی سنٹر کے اس ہال میں ، جہاں اس کے بیٹے کا نکاح ہونا تھا ، جب وہ پہنچا تو وقت ساڑھے آٹھ سے اوپر ہو چکا تھا ۔ ہال میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک طائرانہ نظر ڈالی ۔ ہال میں کچھ لوگ اس کے لئے اجنبی تھے ۔ ۔ ۔ یہ لڑکی والے ہوں گے ، اس نے سوچا ۔ ۔ ۔ باقی سب پہچان والے تھے ، یہ اس کے اپنے سسرالی تھے ، سالیاں ان کے خاوند و بچے ، سالا اس کی بیوی بچے اور اس کی ساس اور۔ ۔ ۔ اور اس کی بیوی ، دونوں بیٹیاں ، داماد اور اس کے سمدھی اور سمدھنیں ۔ ۔ ۔ اگر کوئی نہیں تھا تو بیٹے کے ددھیال سے کوئی نہ تھا ۔
اس کے باپ کو مرے تیرہ سال ہو گئے تھے ۔ ان کے دماغ کی نس پھٹ گئی تھی ۔ ان کا جنازہ اس کی عدم موجودگی میں پڑھایا گیا تھا کہ وہ ملک سے باہر تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کویت پر عراقی قبضے کی وجہ سے جہازوں کی پروازیں متاثر تھیں ۔ ایسے میں امریکہ سے جنازے کے وقت پر پہنچنا اس کے بس میں نہ تھا ۔ وہ ان کے چہلم سے پہلے واپس تو آ گیا تھا لیکن لاہور میں اب اس کا گھر باقی نہ رہا تھا ، اس کی بیوی کرائے کی اینیکسی چھوڑ ، بچوں کو ساتھ لئے ، میکے جا بیٹھی تھی کیونکہ اس کا اور اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ امریکہ جانے والا بھلا کہاں واپس لوٹتا ہے ۔ اس کے خاندان کے دو افراد اسی طرح کینیڈا گئے تھے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے تھے ۔
وہ امریکہ کیوں گیا تھا ؟ یہ اسے خود بھی کبھی سمجھ نہ آیا تھا ۔ اس کی ملک سے عدم موجودگی کے دوران تاج کمپنی اور بی سی سی آئی کے دیوالیہ ہونے کی وجہ سے والد کی جمع پونچی بھی ڈوب گئی تھی ۔ جانے سے پہلے یہ طے ہوا تھا کہ اس کے والدین آبائی گھر بیچ کر اس کی بیوی کے ساتھ اینیکسی میں منتقل ہو جائیں گے جسے خریدنے کی ابتدائی بات چیت وہ بدیس جانے سے پہلے کرکے گیا تھا ۔
اِدھر آبائی گھر بکا ۔ ۔ ۔ یہ جدی جائیداد کا آخری ٹکڑا تھا جس کے بکنے سے وہ کیا اس کا باپ بھی اس زمین کی آنول سے کٹ گیا تھا جس پر اس کے نگڑدادا نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کشمیر کے پہاڑوں سے اتر کر ’ ہم دم کا احاطہ ‘ آباد کیا تھا ۔ ۔ ۔ اُدھر اس کی بیوی نے اپنا بستر گول کیا ۔ اورکوئی چارہ نہ تھا اس کے والدین اپنی بڑی بیٹی کے ہاں رہنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ جب وہ لاہور ایرپورٹ پر اترا تھا تو نہ ۤآبائی گھر تھا نہ اس کا اپنا گھر، نہ بیوی بچے اور نہ باپ جس کے بارے میں جاتے وقت اس کا خیال تھا کہ زیادہ نہیں تو مزید دس سال ضرور رہیں گے ۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ اپنی بہن کے ہاں پہنچا ۔ ۔ ۔ راستے میں اسے یاد آیا تھا کہ جب وہ گیا تھا تو اس کے باپ نے اسے گلے لگا کر رخصت نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ وہ اس کے جانے پر ناخوش تھے بس ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتے رہے تھے ۔ ۔ اب اسےبھی اپنی بہن کے ہاں ہی رہنا پڑنا تھا ۔ ماں کرائے کے گھر میں منتقل ہونے کو تیار نہ تھی کیونکہ اس نے اپنی تمام زندگی ملکیتی گھروں میں گزاری تھی ۔ ۔ ۔" لو اب میں عمر کا آخری حصہ کرائے کے مکان میں گزاروں گی " ، اس نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ کچھ مہنیوں میں اس نے جیسے تیسے نئے گھر کا بندوبست کیا اور ماں کو ساتھ لے کر اس میں منتقل ہو گیا ۔ چند ماہ اور گزرے تو بیوی اور سسرالیوں کا خیال بدلا ۔ سمجھوتے کی کوششیں ہوئیں اور بیوی بچوں کو لئے اس نئے گھر میں آ کر رہنے لگی ۔
یہی وہ زمانہ تھا جب اس کا بیٹا سکول جانے کے قابل ہوا تھا ۔ اسے لاہور کی ایک معیاری درسگاہ کی نئی شاخ ، جو اس کی بڑی بہن کے گھر کے پاس تھی ، میں داخل کرا دیا گیا ۔ وہ دفتر جاتے وقت اسے سکول چھوڑتا اور شام تک اس کی طرف سے بے فکر ہو جاتا ۔ اس کی بڑی بہن چھٹی کے وقت خود اسے سکول سے لاتی ، کھانا کھلاتی اور شام اس وقت تک اس کی ریکھا کرتی جب تک وہ دفتر اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہو کر اسے لینے وہاں پہنچ نہ جاتا ۔ یوں اس کی بہن آٹھویں جماعت تک ایک طرح سے اس کی ’ گاڈ مدر‘ بنی رہی ۔
اسے یاد آیا ۔ ۔ ۔ اس کی بیٹیاں ۔ ۔ ۔ ابھی وہ سکول میں ہی تھیں اور ایک سال کے فرق سے او لیول تک ہی پہنچی تھیں کہ اس کی منجھلی بہن جو برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں آباد تھی اور تین بیٹوں کی ماں تھی ، نے اپنے دو بیٹوں کے لئے اس کی بیٹیوں کو مانگ لیا تھا ۔ اس نے یہ بات براہ راست اس سے نہ کی تھی بلکہ والد سے کی تھی ۔ اس کے بیٹوں کی تعلیم کی طرف کچھ زیادہ توجہ نہ تھی اور وہ وہاں کی لازمی ’ سکول ‘ کے تعلیم کے بعد باپ کی پھلوں اور سبزیوں کی آڑھت میں شریک ہونا چاہتے تھے ۔ اسے اپنے بھانجوں کے اس رجحان کا بخوبی اندازہ تھا جبکہ اس کی بیٹیاں پڑھائی میں ٹھیک تھیں اور وہ خود بھی انہیں ملک کی بہتر سے بہتر تعلیم دلانے کا خواہاں تھا ۔ والد نے جب اس سے بہن کی خواہش کا اظہار کیا تو اس نے یہ کہہ کر انہیں ٹال دیا کہ وہ تو ابھی بچیاں ہیں ، بڑی ہو لیں ، پڑھ لکھ جائیں تو پھر سوچیں گے ۔ وہ ویسے بھی بدیس میں ان کی شادی کرنے کے حق میں نہ تھا ۔ جب اس نے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی تو اس کی اسی بہن نے اسے لیڈز یونیورسٹی میں مزید پڑھنے کی دعوت بھی دی تھی جسے اس نے رد کر دیا تھا ۔ ۔ ۔ جب وہ اپنے باپ کو ٹال رہا تھا تو اس کی بات سن کر اوپر ستارے آپس میں ٹھٹھہ کر رہے تھے اور برج ایک دوسرے کو کندھا مار رہے تھے ۔
بائیں بازو کے خیالات رکھنے کے علاوہ وہ وطن پرست بھی تھا اور چاہتا تھا کہ پاکستان میں مساوات کی راہ ہموار ہو اور آنے والی نسلیں بھی اس عمل کو آگے بڑھائیں ۔ خود اس نے میڑک کے بعد سے ہی ٹائی لگانا بند کر دی تھی ۔ ۔ ۔ اسے یہ انگریزوں کی غلامی کا پٹہ لگتا تھا ۔ ۔ ۔ وہ انگریزی لباس پہنتا لیکن کبھی کبھی ، زیادہ تر وہ کھدر کی شلوار قمیض میں ہوتا اور ، گو کہ اس کی انگریزی اچھی تھی لیکن اس نے اسے ’ ثانوی زبان‘ گرداننا شروع کر دیا تھا ۔ 1971 ء میں جب مغربی پاکستانی مقتدر طبقے کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا تو وہ یونیورسٹی میں آنرز کے پہلے سال میں تھا ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ پڑھنے والے بنگالی لڑکے لڑکیاں ، جن سے اس کی دوستی تھی اور وہ ان سے بنگالی بھی سیکھ رہا تھا کہ ٹیگور اور بنگالی سنگیت کے مدھر نغموں سے صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکے ، ایک ایک کرکے واپس جانے لگے تھے ۔ ان کا جانا اس کے لئے عذاب سے کم نہ تھا ۔ کامن ویلتھ ، سیٹو اور سنٹو کے معاہدے اور ان میں پاکستان کی شمولیت اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔
وقت پنکھ لگا کر اڑتا گیا اور اس کی بیٹیوں کی تعلیم مکمل ہوئی اور وہ اپنے پیروں پر مناسب طور پرکھڑی ہو گئیں ۔ بڑی بیٹی نے اپنی ہی یونیورسٹی کے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو ایک اچھے خاندان سے تھا اور برسرروزگار بھی آ چکا تھا ۔ بات طے ہوئی ۔ ستارے اور برج ایک بار پھر حرکت میں آئے ۔ ان کی اس حرکت نے شمسی و قمری کاسمک لہروں کی چال کچھ یوں بے ڈھنگی کی کہ یک لخت اس لڑکے کو دبئی میں ایک بہتر نوکری کی آفر ہو گئی ۔ جب نکاح کا تقاضا ہوا کہ رخصتی کے بعد اس کی بیٹی دبئی اس کے ساتھ جا سکے تو تقریب کا انتظام گھر کے لان میں کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ اوپر ستارے ٹمٹمانے کے علاوہ ہنس بھی رہے تھے ۔ برجوں کی ہنسی اتنی تیز تھی کہ ہوا آندھی میں بدلی اور اس نے جھکڑ کی شکل اختیار کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔ اس بیٹی کی رخصتی کا وقت قریب آیا تو اس کی ماں کی دیرینہ بیماریاں بھی یکجا ہو گئیں اوروہ صاحب فراش ہو کرہسپتال میں جا لیٹی ۔ اکتوبر 2005 ء کے زلزلے کے وقت وہ وہیں تھی ، انہی دنوں اس کی بڑی بیٹی کی رخصتی کی تاریخ طے ہوئی تھی ۔ اس کا ایک پاﺅں شادی کی تیاریوں میں تھا اور دوسرا ہسپتال میں ۔ بہنوں کا دباﺅ تھا کہ شادی کو ملتوی کیا جائے ۔ ادھر لڑکے والوں کا اصرار تھا کہ وقت ِ مقررہ پر رخصتی ہو ۔
دن بدن ماں کی حالت بگڑتی گئی اور بالآخر وہ ’وینٹ‘ پر چلی گئی ۔ وہ رخصتی منسوخ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ماں اب گھر زندہ واپس نہ جا پائے گی ۔ اب اس کا مسئلہ یہ تھا کہ دونوں وقوعوں کے اوقات کا ٹکراﺅ نہ ہو پائے ۔ وہ جو کبھی درگاہوں پر نہیں گیا تھا ، وہ جو جوتشیوں اور نجومیوں کا قائل نہیں تھا ، ہر اس درگاہ پر گیا جس پر اس کی ماں جایا کرتی تھی ؛ کربلا گامے شاہ ، داتا دربار ، بابا شاہ جمال ، مسجد وزیر خان کے پاس سیف صوف کا مزار ، اس نے کسی درگاہ کو نہ چھوڑا بلکہ ان سے بھی بڑھ کراس نے مادھو لال حسین ، میاں میر اور بابا بلھے شاہ کے مزاروں پر بھی حاضری دی ۔ کسی نے کہا کہ درختوں کی جڑوں پر چاولوں کی کنیاں ڈالو تاکہ زمین تلے رہنے والے ننھے کیڑوں کے لئے رزق کا وسیلہ بنے ، کسی اور کا مشورہ تھا کہ جنگلی کبوتروں کو دانہ ڈالا کرو ، ایک نے تقین سے کہا کہ دو سفید کبوتروں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت میں اڑا کر آزاد کرو اور دیکھو کہ وہ کہیں اکٹھے ہو کر پرواز تو نہیں کرنے لگتے ۔ اگر وہ الگ الگ ہی رہے تو سمجھنا کہ دونوں وقوعوں کا ملاپ نہ ہو گا ۔ اس نے یہ سب بھی کیا ۔ سفید کبوتر اکھٹے نہ ہوئے تھے ۔ شادی کی تقریب سر پر تھی صاحب فراش ماں کی ’ وینٹ ‘ پر آکسیجن کا لیول ہر دن بڑھ رہا تھا ۔ ماں کے فوت ہونے سے ایک ہفتہ قبل بیٹی کی رخصتی سر انجام پا گئی اور وہ دبئی جا بسی ۔
یہ اتفاق تھا یا کچھ اور کہ جب وہ سفید کبوتروں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت میں اڑا کر انہیں دیکھ رہا تھا تو ایک سیدھا مغرب کی طرف پرواز کر گیا تھا جبکہ دوسرے کی اڈاری عمودی تھی ۔ وہ کچھ ہی دیر بعد نکتہ بنا اور نظر سے غائب ہو گیا تھا ۔ سائنس ، مارکسزم ، جدلیات ، جدلیاتی وجودیت کے سارے فلسفے ، جن کے گرداگرد اس کی شخصیت کا تانا بانا بُنا ہوا تھا سب دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ۔
دوسری بیٹی نے بھی اپنی یونیورسٹی کے ایک لڑکے کا عندیہ دیا ۔ یہ معاملہ سال بھر لٹکا رہا ۔ وہ لوگ بھی لاہور کی اسی پوش آبادی کے رہنے والے تھے جس کے کمیونٹی سنٹر میں وہ اپنے بیٹے کے نکاح میں گیا تھا ۔ لٹکنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکے والے اس کے خاندان کو ہم پلہ نہیں گردانتے تھے ۔ لڑکے کا باپ فوج میں میجر تھا اور فوت ہو چکا تھا ۔ لڑکے کی ماں کو دوسری عورتوں کے زندہ میاں اچھے نہ لگتے تھے ۔ ۔ ۔ ایسا اس نے محسوس کیا تھا جب بھی وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ان سے پہلی بار ملا تھا ۔ ۔ ۔ اس خاتون کی زندگی فوجی میسوں میں اپنے خاوند کے ساتھ تقریبات میں جاتے ہوئے گزری تھی جہاں جونیئر افسر اسے سینئر کی بیوی سمجھتے ہوئے تعظیم سے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ یہ وہ پرم پرا تھی جو انگریز نے دیسیوں کی گٹی میں ڈالی تھی ۔ ۔ ۔ مرد و زن کی برابری کا اس کے ہاں کوئی تصور نہ تھا ۔ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اس ہونے والی بہو ’ ورکنگ وومن ‘ نہ ہو ۔ ۔ ۔ وہ خود پروفیشنل تعلیم رکھتے ہوئے بھی گھریلو خاتون ہی رہی تھی ۔ لڑکے کی ماں کے صرف تین بیٹے تھے ، اس کو اپنے بیٹوں پر بہت مان تھا اور کوئی لڑکی اسے پسند نہ آتی تھی ۔ ۔ ۔ یہی اور کچھ ایسے ہی معاملات تھے کہ یہ رشتہ سال بھر اٹکا رہا ۔ بالآخر یہ قصہ بھی نبٹا اور وہ بھی رخصت ہوئی ۔ یہ اس کے خاندان کی تین پشتوں میں سب سے مہنگی اور مفصل انتظامات والی رخصتی تھی ؛ دو طرح کے دعوت نامے ، کھانوں کی متنوع ڈشز ، مہنگے ترین ہال ، مہندی ایک ہال میں جبکہ ودائی دوسرے سے ۔ یہ ایسی رخصتی تھی کہ شاید وہ اپنی بیٹیوں کو بھی اس طرح سے رخصت نہ کر پائے گی ۔ اس کی بیٹی اس وقت ایک سافٹ ڈرنکس بنانے والی ملٹی نیشنل میں برانڈ منیجر تھی جبکہ اس کاداماد ایک دوسری ملٹی نیشنل ، جو کمیونیکیشن سیکٹر میں شمار ہوتی تھی ، میں مارکیٹنگ منیجر تھا اور دوسرے شہر میں ہیڈ آفس میں تعینات تھا ۔ وہ بھی رخصتی کے بعد اس کے ساتھ دوسرے شہر میں جا بسی ۔ ستارے اس کی سمدھن کے ساتھی تھے ۔ اس شہر میں جو ملٹی نیشنل کمپنیاں تھیں وہ سب کی سب کمیونیکیشن سیکٹر سے ہی تعلق رکھتی تھیں اور اس میاں بیوی کا ایک ہی سیکٹر میں کام کرنا تجارتی اصول کی نفی تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی بیٹی اس سیکٹر میں نوکری نہ کر سکی اور عالمی مالیاتی اداروں کے اِکا دُکا پراجیکٹس پر کام کرتے کرتے گھریلو بیوی بن کر رہ گئی ۔
ملک کے سیاسی حالات ایسے ہوئے کہ جو وزیر اس کے محکمے کا سربراہ بنا ، اس سے اس نہ بن پائی ۔ وہ مہاجر قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والا یہ وزیر جو چاہتا تھا وہ کرنا اس کے بس سے باہر تھا ۔ یہ اس کی ملازمت کے آخری سال بھی تھے ۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور استعداد کے عروج پر تھا ، اسے او ایس ڈی کر دیا گیا تھا ۔ ادھر بیوی مذہب کی طرف ایسے راغب ہوئی کہ اس نے اپنا بستر تک الگ کر لیا ، اسے اپنا خاوند ، دین سے بھٹکا ایک اوباش شخص لگنے لگا تھا اور تو اور اس کا بیٹا اپنی پڑھائی کے آخری سیمسٹر سے باغی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک این جی او ۔ ۔ ۔ ذمہ دار شہری ۔ ۔ ۔ بنانے کے چکر میں پڑ گیا اس کا آخری سیمسٹر لٹکا رہا اور وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتا گیا ۔ این جی او جب چل گئی اور ہیلری کلنٹن نے اسے سراہتے ہوئے بھاری فنڈ بھی دینے شروع کر دئیے تو اس کے دوستوں نے اسے فارغ کر دیا اور اسے اپنے سیمسٹر کی طرف لوٹنا پڑا ۔ مٹروا وزیر فارغ ہو چکا تھا ، اسے اُس کی رُکی ترقی اسے مل گئی لیکن گھر جہاز کی’ نوز ڈائیو‘ کی طرح ، تنزلی کی طرف جا رہا تھا ۔ اور پھر وہ سال شروع ہوا ، جس کے آخر میں اس نے ریٹائر ہو جانا تھا ۔ اس سال کے دوسرے مہینے میں گھر ٹوٹا اور اس کی بیوی بیٹے کو لے کر ، یہ کہتے ہوئے الگ ہو گئی کہ وہ تو واپس آئی ہی اس لئے تھی کہ بچے پل ، بڑھ سکیں ۔ ۔ ۔ اس سے کچھ روز پہلے ہی اس کے بیٹے نے اپنا آخری سیمسٹر مکمل کیا تھا اور اسے ایک سافٹ وئیر ہاﺅس میں باقاعدہ نوکری مل گئی تھی ۔ انہیں گئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ اس کا تبادلہ ہیڈ آفس میں ہو گیا اور گھر کو قفل لگ گیا ۔
ریٹائر ہونے پر وہ واپس آیا تو اسے نامی نجی سکولوں کی ایک لڑی میں نوکری مل گئی ۔ وہ سال سے زائد عرصہ بھی وہاں نہ نکال سکا کہ اس لڑی کے مالکوں کا تعلیم پر دھیان کم اور طلباء کی تعداد پر زیادہ تھا ۔ اس چین کے مالک بورڈ کے عملے سے ساز باز کرکے پہلی دس پوزیشنوں میں سے کچھ کی خریداری بھی کرتے تھے ۔ انڈر کوالیفائڈ سٹاف رکھتے تھے جو گائیڈ بکس سے بچوں کو نوٹس نقل کراتے ۔ اس چین کی انتظامیہ اساتذہ کو تنخواہ بھی واجبی دیتی تھی ۔ نجی سکولوں کی اس لڑی کے ساتھ کام کرتے ہوئے اسے سال ہی ہوا تھا کہ اس نے اسے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ، انہی دنوں اسے کینسر کی ایک’ میجر سرجری‘ کے عمل سے بھی گزرنا پڑا ۔ اس سے قبل وہ اپنے بچوں کو کہہ چکا تھا کہ اگر ان کی ماں واپس آنا چاہتی ہے تو آ جائے لیکن کوئی مثبت جواب نہ آیا تھا ۔ جن دنوں وہ سرجری کے عمل سے گزر رہا تھا تو اس کی بڑی بیٹی اور داماد اپنی چھٹیاں گزارنے لندن گئے ہوئے تھے ، کیوں ، اس کا پتہ اسے بعد میں چلا تھا ، اس کی بڑی بہن ، اس کے بیٹے کی ’ گاڈ مدر‘ نے بھی اس کی بیوی سے دو بار رابطہ کرکے اسے واپس لانے کی کوشش کی لیکن اس کی یہ دونوں کوششیں بھی ناکام رہیں ۔
گھر کا شیرازہ ایک دفعہ بکھر جائے تو اس کی حیثیت اس گھونسلے جیسی ہوتی ہے جس کے مکین اسے چھوڑ کر جا چکے ہوں ، ایسے میں ایک آندھی ہی اسے شاخ سے نیچے گرانے کے لئے کافی ہوتی ہے اور جب وہ زمین پر آ گرتا ہے تو اس کے تنکے بکھرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔ سب سے پہلے بڑی بیٹی دبئی سے لندن جا بسی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ میاں بیوی اس کی سرجری کے وقت وہاں انٹرویوز کے لئے گئے تھے ۔ پھر دوسری والی نے اس کی الٹ سمت میں اس دیس کا رُخ کیا جہاں سورج سب سے پہلے طاوع ہوتا تھا ۔ پھر بیٹا بھی ماں کو ایک نوکرانی کے حوالے کرکے یورپین یونین کے ایک ملک میں جا بیٹھا ۔ تینوں باپ کی سوچ کے بالکل الٹ ، اپنی صلاحیتیں ملک کی بہتری کے لئے وقف کرنے کی بجائے ایسے معاشروں میں جا بسنے کے خواہاں تھے جہاں انہیں کئی سال تک پھر اسی دوسرے درجے کی شہریت کے زمرے میں رہنا تھا جیسے نو آبادیاتی دور میں بدیسیوں اور دیسیوں میں فرق روا ہوتا تھا ۔ وہ اپنی سرجری کے بعد تنہا اسی گھونسلے میں ایک’ نر کونج ‘ کی طرح رہتا اور چاند کو دیکھتا رہا ۔ ۔ ۔ چاند جس پر نظر آنے والے داغوں میں اب اسے چرخہ کاتتی بڑھیا کی بجائے اپنے بچوں کی شبہیہ نظر آتی تھی ۔ ۔ ۔ بچے جن کے تخم تو باپ سے ہوتے ہیں لیکن بیضے ماں سے ۔ ۔ ۔ یہ دونوں مل کر ویسے ہی ایک نئی کیمسٹری بناتے ہیں جیسے ہائیڈروجن اور آکسیجن جیسے کیمیاوی عناصر مل کرخصوصیات میں بالکل مختلف نئے مرکبات بنا دیتے ہیں ۔
مٹھائی کے ڈبے اس کے سامنے پڑے تھے ۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ جب سے اس کے والد کی موت واقع ہوئی تھی اور جب سے اس کی ماں پرلوک سدھاری تھی ان میں سے کوئی ایک بھی اس کے خوابو ں میں بھی نہ آیا تھا ۔ ۔ ۔ کیوں ؟ ، اس نے سوچا ۔ ۔ ۔ کیا وہ شراب پیتا تھا اور ٹُن ہو کر سوتا تھا ۔ ۔ ۔ اس لئے شاید ؟ ۔ ۔ ۔ یا کچھ اور وجہ تھی ؟ جب ابھی اس کی ماں سانس لے رہی تھی تو موت سے دو روز قبل اسے کیوں خواب میں اس بات کی خبر ہو گئی تھی کہ اس کی ماں اب جانے والی ہے ۔ اس نے دیکھا تھا کہ وہ ماں کی قبر کھدوا رہا ہے اور قبر لمبائی میں کچھ چھوٹی پڑ گئی ہے ۔ اس رات وہ ہسپتال میں ماں کے کمرے میں ہی صوفے پر سویا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ اور حسب عادت اس نے سونے سے پہلے ووڈکا کے چار نیٹ پیگ چڑھائے تھے ۔ دو دن بعد جب شام کے وقت اس کی ماں نے پران تیاگے تو اس نے اپنے بھانجے کو گورکن کے پاس قبر کی تیاری کے لئے بھیجا تھا ۔ پہلے جو جگہ منتخب کی گئی تھی وہ والد کے پہلو میں تھی ۔ جب وہاں قبر کے لئے جگہ صاف کرکے کھدائی شروع کی گئی تھی تو پتہ چلا تھا کہ اس کے والد کی پکی قبر کا لینٹر آڑے آ رہا تھا ۔ ۔ ۔ یا شاید اس کا والد نہیں چاہتا تھا کہ جسے وہ چھوڑ کر وہاں جا لیٹا تھا وہ آ کر پھر سے اس کے برابر لیٹے ؟ ۔ ۔ ۔ احاطے میں دو جگہیں اور بھی تھیں ، ایک اس کے دادا کی قبر کے ساتھ خالی تھی جب کہ دوسری دادی کے سرہانے ۔ ۔ ۔ بندے جتنے مرضی روشن خیال کیوں نہ ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ۔ مارکسسٹ ، جدلیاتی وجودیت پسند کیوں نہ ہو جائیں ، اپنے ریتی رواج سے کبھی آزاد نہیں ہو پاتے ۔ ۔ ۔ ساس کے سرہانے بہو کی قبر ۔ ۔ ۔ نہیں ، نہیں ، یہ کچھ مناسب نہیں لگے گا ، ناچار اس نے یہ فیصلہ کیا کہ دادا کے پہلو میں ماں کو دفنایا جائے ۔ اس نے اپنے بھانجے کو اس سے آگاہ کیا لیکن جب وہاں کھدائی کی گئی تو پتہ چلا تھا کہ وہ لمبائی میں چھ انچ چھوٹی تھی ، احاطے کی دیوار کی چوڑائی آڑے آ رہی تھی ۔ اس کے بھانجے نے موبائل پر صورت حال اسے بتائی تھی ۔ اسے یاد تھا کہ احاطے کی دیوار کو نو سے تیرہ انچ اس نے خود ہی کرایا تھا کہ وہ برسات میں بارشی پانی کی مار سے اکثر گر جاتی تھی اور پانی احاطے میں داخل ہو کر قبروں کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ اس نے بھانجے کو کہہ دیا تھا کہ وہ چھ انچ کی کمی دیوار کے نیچے پوری کرائے ۔ دیوار میں ترمیم بعد کی جاتی رہے گی ۔ وہ اس وقت بھی حیران ہوا تھا کہ خواب کے ذریعے اسے ماں کے جانے اور قبر کا چھوٹا پڑنا دو دن پہلے ہی کیوں نظر آ گیا تھا اوراس کی یہ حیرانی کافی دیر قائم رہی تھی ۔ اب یہ بات اسے پھر سے یاد آئی تھی اور وہ اسے اس بات سے نسبت دے رہا تھا کہ پچیس سال سے باپ اور بارہ سال سے ماں ایک بار بھی اس کے خوابوں میں نہ آئے تھے ۔ چلو پہلے کی بات اور تھی لیکن جب سے اس کی سرجری ہوئی تھی اس نے شراب بھی چھوڑ دی تھی اور اس بات کو بھی چار سال ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ پھر کیا وجہ تھی کہ خواب ان سے خالی تھے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا وہ اس سے ناراض تھے ؟ ۔ ۔ ۔ خواب میں تو اس نے اپنی بیوی کو بھی نہیں دیکھا تھا نہ ہی بیٹیوں اور بیٹے کو ، جو دنیا میں موجود تو تھے لیکن آنکھ سے ویسے ہی اوجھل تھے جیسے اس کے ماں باپ ۔ ۔ ۔ پر ہاں وہ ناراض بھی تھے کہ وہ دین سے کیوں بھٹکا ہوا تھا اورمارکس وادی کیوں تھا ۔ یہ سوچ کر اس پر اداسی کے بادلوں نے اس طرح گھیرا تنگ کیا جیسے ضیاءالحق کے زمانے میں اس کے کارندے مخالفوں کے گرد اپنا شکنجہ کستے تھے اور بالآخر کوڑوں کی سزا کے لئے ٹکٹکی پر باندھ لیتے تھے ۔ اس نے خود کو ٹکٹکی پر بندھا محسوس کیا ۔ جس پر کوڑے برسانے والا ایک نہیں تھا ، میری دی میڈیلین پر پتھر برسانے والوں جیسے کئی تھے ؛ اس کی بیوی ، بچے ، اور ، اور ، اب اس کی بہنیں بھی اور ان کے پیچھے کھڑے بہت سے دوسرے جن میں ان کے حمایتی بھی تھے اور تماشبین بھی ۔ بہنیں ، جنہوں نے نہ صرف شگن کی مٹھائی واپس کر دی تھی بلکہ اس سے تعلق بھی توڑ لیا تھا ۔ اسے زیادہ قلق اپنی بڑی بہن کا تھا جو اس کے بیٹے کی گاڈ مدر بھی تھی ۔ ۔ ۔ کیا اسے اس کے بغیر اپنے بیٹے کی رسم ِ نکاح پر نہیں جانا چاہیے تھا ؟ ۔ ۔ ۔ اس کی ناراضگی اپنی جگہ بجا تھی ۔ ۔ ۔ لیکن کیا وہ اپنے بیٹے کی رسم ِ نکاح پر گیا تھا؟ ۔ ۔ ۔ وہ تو شاید ۔ ۔ ۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً ، گیا تھا اس لڑکی کو خوش آمدید کہنے ، جس نے’ ہم دم‘ کے خاندان کو ایک نسل اور آگے لے کر جانا تھا بالکل ویسے ہی جیسے اس کا والد ، اس کے اپنے نکاح ، جس میں وہ شامل نہ تھے ، کے ایک ہفتے بعد ، اس کی بیوی کی ڈولی ، اس کے باپ کے گھر سے خود لے کر آیا تھا ۔
اسے یہ بھی یاد آیا کہ یہ ڈولی اس کے باپ کے گھر نہ اتری تھی بلکہ دو کمروں کے ایک فلیٹ میں اتری تھی جس میں اس کی بیوی کو پہلا حمل ٹہرا تھا اور تب اس کے باپ نے اسے اور اس کی بیوی کو اپنے ہاں جگہ دی تھی ۔ شاید اس کے باپ نے اسے نہیں اس کی بیوی کو قبولا تھا کہ وہ ’ ہم دم ‘ کی نسل کو آگے بڑھا رہی تھی ۔
وقت ، کیا اسی طرح پلٹتا ہے ؟ اسی طرح پلٹ کر نئے لمحوں کو جھپٹ لیتا ہے کہ خود کو زندہ رکھ سکے ، جیسے باز پیچھے چھوڑ آئے اپنے شکار پر پلٹ کر جھپٹتا ہے کہ اپنا لہو گرم رکھ سکے ۔ ۔ ۔
وہ اب بوندی کے لڈﺅں کا کیا کرے ؟ ۔ ۔ ۔ اس نے انہیں اٹھایا اور فرج میں رکھ دیا جیسے نامعلوم بندوں کی لاشیں ، مردہ خانے میں رکھ دی جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ انہیں خود نہیں کھا سکتا تھا کیونکہ وہ شوگر کا مریض بھی تھا ۔ ۔ ۔ شگن کے یہ لڈو کب تک فرج میں پڑے رہیں گے ۔ ۔ ۔ اسے مختلف سبزیوں کی پیسٹ کی وہ چھوٹی چھوٹی کانچ کی شیشیاں یاد آئیں جو اس کی چھوٹی بیٹی اس کے لئے، اس وقت لائی تھی جب وہ کینسر کی سرجری کے بعد گھر واپس آیا تھا ۔ وہ اس کا حال پوچھنے آئی تھی ۔ اس نے ایک شیشی میں سے ایک چمچ بھر پیسٹ کھانے کی کوشش کی تھی لیکن اپنے دیسی پن کی وجہ سے اس ’ ماڈرن ‘ فوڈ کا ایک چمچ بھی نگل نہ سکا تھا ۔ ۔ ۔ اس نے چائے اور رس کا ملیدہ کھا کھا کراس وقت تک گزارا کیا تھا جب تک اس کے منہ کے زخم بھر نہ گئے تھے ۔ ۔ ۔ اسے اکتاہٹ تو ہوتی لیکن وہ خود کو ایسا بچہ سمجھ کر ، جسے ماں روز دو تین بار بد ذائقہ ’ سیرلیک ‘ بہانے بہانے سے کھلاتی ہے ، اس ملیدے کو زہرمار کرتا رہا تھا ۔ سبزیوں کی یہ پیسٹ والی شیشیاں فرج میں پڑی پڑی اپنے استعمال کی مدت پوری کر گئیں تھیں ، پھر ان پر پھپھوندی لگی تھی اور اسے ان کو کوڑا دان میں پھینکنا پڑا تھا ۔ وہ اب شگن کے ان لڈوﺅں کا یہ حشر نہیں چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ لڈو دے کر جانے والی بیٹی لندن پہنچ چکی تھی ، دوسری بھی دو دن بعد آسٹریلیا چلی گئی تھی ، بیٹا اور بیوی کہاں رہتے تھے ، اسے معلوم نہ تھا ۔ لڑکی والے کہاں رہتے تھے اسے یہ بھی علم نہ تھا ۔ جن کے لئے یہ لڈو آئے تھے وہ انہیں لینے سے انکاری تھے ۔
دو روز وہ شش و پنج میں رہا ۔ ۔ ۔ یہ جمعرات کا دن تھا اور دوپہر کا وقت تھا ۔ اس نے فرج سے لڈو نکالے ، گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر رکھے اور اس قبرستان کا رخ کیا جہاں ان کا آبائی احاطہ تھا ۔ ۔ ۔ وہ چار سال بعد وہاں جا رہا تھا ۔ جب تک اس کا بیٹا اور بیوی اس کے پاس تھے وہ سال میں تین بار اپنے بیٹے کو ساتھ لئے قبرستان جایا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ یہ عیدین اور دس محرم کے دن ہوا کرتے تھے ، ویسے ہی جیسے کبھی وہ خود اپنے باپ کے ساتھ جایا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ باوجودیکہ وہ اس کا قائل نہ تھا پر یہ خاندانی ریت تھی اور وہ اسے جاری رکھے ہوئے تھا ۔ ۔ ۔ اس وقت وہ اپنا مارکسزم اور جدلیاتی وجودیت پسندی کو کچھ دیر کے لئے ویسے ہی بھول جاتا تھا جیسے گارشیا لکھتے وقت اپنے اندر کے ’ مارکسی‘ کو الگ کرکے اپنے تہذیبی ورثے میں گھس جاتا تھا ۔ ۔ ۔ چار سال وہ وہاں اس لئے نہیں گیا تھا کہ اس کا بیٹا عیدین اور دس محرم کو اس کے پاس آیا ہی نہیں تھا اور وہ خود اسے لینے اس لئے نہیں جا سکا تھا کہ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ کہاں رہتا تھا ، اسے بس اتنا پتہ تھا کہ وہ اسی پوش آبادی میں کہیں رہتے تھے جو اسے شروع سے ناپسند تھی ۔ ۔ ۔ شاید یہ بھی وجہ تھی کہ اس نے ان کی کھوج لگانے کی کوشش بھی نہ کی تھی ۔
قبرستان پہنچ کر اس نے اپنے معمول کے مطابق پھولوں کے دس لفافے لئے ، اگر بتیاں اور کیوڑے کی ایک بوتل لی اور احاطے میں گیا ، اس نے قبروں کو صاف کروایا ، پانی کا چڑکاﺅ کروایا ، ان پر پھول ڈالے ، کیوڑہ چھڑکا ، اگر بتیاں سلگائیں اور احاطے کی دیوار پر بیٹھ کر بوندی کے لڈوﺅں کا چورا کیا ۔ دادا ، دادی کی قبروں سے ہوتا والد ، والدہ ، چچاﺅں اور پھوپھیوں و دیگر کی قبروں کے ساتھ ساتھ مکوڑوں کی کھڈوں کے گرداگرد اس چورے کو ڈالا اور کچھ چورا ، دادی، دادا ، والدہ اور والد کی قبر وں پر بنے دانہ دانوں میں یہ کہتے ہوئے ڈالا کہ وہ اس لڑکی کو خوش آمدید کہیں جو ان کی نسل کو بڑھاوا دینے کے لئے اس خاندان میں شامل ہوئی تھی ۔ وہ قبرستان سے نکلا اور شہر کے مرکزی باغ کے اس کلب میں چلا گیا جس کا وہ ممبر تھا ۔ اس نے کلب کی بار سے ووڈکا کی ایک بوتل خریدی ، ایک بیرے کے ذریعے گاڑی میں رکھوائی اور عصر کے بعد تک ’ کارڈ روم ‘ میں بیٹھا ’ سولیتیئر‘ کھیلتا رہا ۔ پتوں سے کھیلتے کھیلتے اس نے سوچا تھا ؛ اگر مغرب سے پہلے پہلے بوندی کے لڈوﺅں کا چورا مکوڑے اپنی کھڈوں میں لے گئے اور پیالوں میں پڑے چورے کو پرندوں نے اُچک لیا تو وہ یہ جانے گا کہ خاندان کے بزرگوں نے نئی لڑکی کوقبول کر لیا ہے ورنہ شاید وہ بھی ناراض ہوں گے اس کی بہنوں کی طرح ۔
مغرپ سے کچھ دیر پہلے وہ واپس قبرستان گیا اور احاطے میں گھوم پھر کر دیکھا ۔ بوندی کے لڈوﺅں کے چورے کا ایک بھورا بھی اسے زمین پر اور پیالوں میں نظر نہ آیا ۔ اس نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی ، گاڑی میں بیٹھا اور گھر واپس پہنچ کر ووڈکا کی بوتل کھولی ، ایک بڑا گھونٹ بھرا اور صوفے پر بیٹھ کر جوتے کے تسمے کھولنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( جولائی ، 2017 ء )