ایک زمانہ تھا جب ہم بائیں بازو کے لکھنے والوں کی عام ذرائع ابلاغ میں یا تو رسائی نہیں ہوتی تھی یا پھر ہم خود یہ سوچ کر اخبارات کے لیے لکھنے سے گریزاں رہتے تھے کہ ہماری کہی باتیں بھلا کون چھاپے گا۔
میں ایران سے آقائی دکتور کے استخدام کو لات مار کر لوٹا تھا اور دور دراز کے ایک قصبے کوٹ ادو میں میڈیکل پریکٹس کرنے لگا تھا جہاں کے کالج میں اردو کے ایک جوان سال لیکچرر سلیم حیدرانی سے شناسائی ہوئی تھی۔ اس کی انگیخت پر میں اخبارات کے لیے مضامین لکھنے پر رضامند ہو گیا تھا۔ اس زمانے میں ایران عراق جنگ ہو رہی تھی۔ چونکہ میں ایران سے تازہ وارد ہوا تھا اس لیے اس موضوع پر ایک بسیط مضمون تحریر کرکے جنگ لاہور کے ادارتی صفحے کے پتے پر رجسٹر کروا دیا تھا۔ جنگ لاہور نیا نیا تھا۔ اس کے ادارتی صفحے پکے اوپر ارشاد احمد حقانی صاحب کا کالم ہوتا تھا۔ ایک اور صاحب اکبر علی ایم اے کے نام سے تھے جو اچھا لکھا کرتے تھے۔ میرے مذکور مضمون نے چند روز بعد تین اقساط میں اخبارجنگ کے ادارتی صفحے پر جگہ پائی تھی۔ اس اشاعت کے بعد جنگ کے لیے مضامین لکھنا معمول بن گیا تھا۔ تین سال بعد میں لاہور کے مضافاتی قصبے مریدکے منتقل ہو گیا تھا۔ مضامین لکھ کر اپنے ڈسپنسر کے ہاتھ لاہور جنگ کے دفتر بھجوا دیا کرتا تھا۔
مضامین چھپتے رہے جنکے سبب ڈاکٹر مبارک علی اور احمد بشیر جیسے زعماء سے ملاقات اور شناسائی ہوئی۔ ایک روز جی میں آئی کہ اس محسن کو تو جا کر ملوں جس نے مجھے جنگ کے ادارتی صفحے پر پہلی بار ٹانکا تھا چنانچہ جنگ کے ریسیپشن پر جا کر کہا کہ مجھے ادارتی صفحے کے انچارج سے ملنا ہے۔ ریسیپشنسٹ نے فون ملایا، بات کی، میرا نام بتایا اور پرچی کاٹ کر دیتے ہوئے بتایا کہ تیسرے فلور پر چلے جائیں۔
نیوز روم کے پار کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں گٹھے ہوئے جسم والے پہلوان نما ایم طفیل صاحب اور زردی مائل سفید رنگت والے شفیق سے شخص شفیق مرزا بیٹھے ہوئے تھے۔ شفیق مرزا نے زیادہ تپاک ظاہر کیا۔ میری تحاریر کو سراہا اور چائے پلائی۔ ایم طفیل صاحب کے مضامین اخبار میں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے ان کے ساتھ بس تعظیم کا تعلق بنا البتہ شفیق مرزا سے دوستی ہو گئی۔ جب تک پاکستان میں رہا ہر ہفتے ایک بار ان سے ملاقات ضرور ہو جاتی تھی۔ وہ صاحب الرائے شخص تھے اس لیے ان سے بات چیت کرنا اچھا لگتا تھا۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تب وہ میرے ہم خیال تھے تاہم یہ ضرور تھا کہ وہ باظرف شخص تھے اور انہیں دوسروں کے نکتہ نگاہ کا احترام کرنا آتا تھا۔
اردو کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی سے بھی کماحقہ علاقہ رکھتے تھے۔ میں ان سے اکثر سوال کرتا تھا کہ شفیق مرزا صاحب آپ لکھتے کیوں نہیں۔ وہ ہنس کر کہتے تھے،"پڑھنے کے لیے آپ لوگوں کا اتنا مواد ہوتا ہے کہ لکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی"۔ ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے بالکل ہی نہ لکھا ہو۔ ایک دو بار ادارتی صفحے پر ان کے مضامین پڑھنے کو ملے تھے جو بلا شبہ دلچسپ اور بھرپور تھے۔
شفیق مرزا میرے بڑے بھائی کے ہم نام تھے اس لیے بھی ان سے کچھ زیادہ ہی یگانگت محسوس ہوتی تھی۔ 1991 میں روس جانے کے بعد بھی جنگ کے لیے دو تین مضامین لکھے تھے۔ پھر جب مستقلا" وہاں منتقل ہو گیا تو ڈاک کی مناسب سہولت نہ ہونے کے سبب لکھنا چھوڑ دیا تھا۔ پھر کہیں جا کر 1996 میں تب جنگ گروپ سے وابستہ برادرم نذیر لغاری کے مشورے سے میں نے ہفت روزہ "اخبار جہاں" میں "ماسکو نامہ" کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔
لاہور آتا تھا تو شفیق مرزا سے ضرور ملتا تھا۔ اتنے وقفے کے بعد لکھی جانے والی میری ایک تحریر دیکھ کر انہوں نے کہا تھا،"ڈاکٹر صاحب وہاں جا کر شاید آپ کی انگریزی بہتر ہو گئی ہو لیکن اردو پر گرفت کچھ کمزور ہو گئی ہے"۔ میں نے وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کہ اصل معاملہ وجاہت مسعود کی فرمائش تھی کہ میں ثقیل اردو لکھنے سے گریز کروں۔ شفیق مرزا میری معریٰ تحاریر پڑھنے کے عادی رہے تھے، تاہم انہوں نے بتایا تھا کہ اب جنگ کا ادارتی صفحہ "مرکزیا" دیا گیا ہے، اس کو صرف کراچی سے دیکھا پرکھا جاتا ہے۔
خیر بعد میں وجاہت مسعود کے ہی مشورے سے سہیل وڑائچ کو فون کیا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے میری تحاریر دیکھی ہی نہیں۔ یوں جنگ سے دل کھٹا ہو گیا تھا کہ جن تحاریر کو ڈاکٹر مبارک علی اور احمد بشیر پڑھتے تھے، ان سے نئے آنے والے شناسا ہی نہیں۔
دو روز پہلے میں لاہور تھا جب میں نے خبر پڑھی کہ شفیق مرزا ایک ٹریفک حادثے کے باعث کئی روز موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ کر اس جہان فانی سے گذر گئے ہیں تو دل دھک سے رہ گیا۔ پچھلی بار جب پاکستان آیا تھا تو مختصر قیام اور کچھ شادی بیاہوں کی مصروفیت کی وجہ سے ان سے نہیں مل سکا تھا۔ اس بار ایک دفعہ لاہور پریس کلب گیا، جب دوست پک کرنے آیا تو اس کو ٹریفک میں کسی خلل کے باعث روزنامہ جنگ کے عین سامنے گاڑی ون وے سے موڑنی پڑی تھی۔ جی میں آیا تھا کہ بھائی شفیق مرزا سے ملنا چاہیے پھر سوچا ابھی تو میں یہیں ہوں بعد میں مل لوں گا مگر مقدر میں ان سے دوبارہ ملنا نہیں لکھا تھا۔
آج حسن (نثار) نے اپنے کالم کا ایک حصہ اور اخبار جنگ نے اپنے اداریے کا ایک حصہ شفیق مرزا کے نام کیا تو انہیں پڑھ کر آنسو جاری ہو گئے۔ جس موٹر سائیکل والے نے انہیں ٹکر ماری تھی جس کی وجہ سے وہ سڑک پر گر کر سر کی چوٹ کا شکار ہوئے تھے، اسے کیا معلوم کہ وہ کس عالم اور اچھے انسان کی موت کی وجہ بنا تھا۔ اب مجھے شفیق مرزا کا نمبر بھی اپنے موبائل فون سیٹ سے اسی طرح بے دلی سے ڈیلیٹ کرنا پڑے گا جیسے میں نے گذشتہ سالوں میں کئی دوستوں بشمول جمیل فخری اور عزیز نیازی ایڈووکیٹ کے نمبر حذف کیے ہیں۔ خدائے لم یزل شفیق مرزا کے درجات بلند کرے، آمین۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1618136401545797
“