آج – 7/جنوری 1927
ممتاز ترین قبل از جدید شاعروں میں نمایاں شاعر” شادؔ عظیم آبادی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام علی محمد، شادؔ تخلص۔ 1846ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ شاد نے امارت اور ریاست کی آغوش میں آنکھ کھولی۔عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم لائق اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری میں الفت حسین فریاد عظیم آبادی سے تلمذ حاصل تھا۔ شادنے کچھ غزلوں پر صفیر بلگرامی سے بھی اصلاح لی تھی۔ میر انیس اور مرزا دبیر کی صحبتوں سے بھی بہت فیض یاب ہوئے۔ شاد انگریزی اور ہندی زبان سے بھی واقف تھے۔ شاد کا ننھیال پانی پت تھا۔ ایک مرتبہ وہ وہاں گئے اور حالی سے ملاقات کی۔ علی گڑھ بھی گئے اور سرسید سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ہندودیوان اور خزانچی نے ان کی ریاست وجاگیر کا بڑا حصہ فروخت کردیا اور روپیہ خرد برد کردیا۔ جو شخص ہزاروں اور لاکھوں میں کھیلتا تھا اسے اپنی آخری زندگی صرف سوروپیہ ماہانہ کی امداد پر گزر بسر کرنی پڑی۔ شاد کئی سال تک پٹنہ میں آنریری مجسٹریٹ رہے۔ ان کی ادبی خدمات کے صلے میں سرکار سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا۔ شاد کو اپنے زمانے کا میر کہا گیا ہے۔ ’’مئے خانہ الہام‘‘ کے نام سے ان کا دیوان چھپ گیا ہے۔ مراثی ، رباعیات، مثنویات اور نثر کی کئی کتابیں ان کی یادگار ہیں۔ 7؍جنوری1927ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے۔
شاد نے تمام صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ قصیدہ، مرثیہ ،مثنوی، قطعہ، رباعی ، غزل تمام اصناف پر آپ کا کلام موجود ہے۔ غزل آپ کی محبوب صنف سخن رہی ہے۔ شاد عظیم آبادی بہار اسکول کے سب سے زیادہ کامیاب شاعر ہیں ۔ تمام ناقدین نے ان کی شاعری کی تعریف کی ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر شادؔ عظیم آبادی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
—
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
—
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
—
کون سی بات نئی اے دلِ ناکام ہوئی
شام سے صبح ہوئی صبح سے پھر شام ہوئی
—
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
—
سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا
—
نگاہِ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھ کو
مرا وہ ہاتھ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا
—
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
—
ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا
—
میں شادؔ تنہا اک طرف اور دنیا کی دنیا اک طرف
سارا سمندر اک طرف آنسو کا قطرہ اک طرف
—
ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
—
ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی
—
دل اپنی طلب میں صادق تھا گھبرا کے سوئے مطلوب گیا
دریا سے یہ موتی نکلا تھا دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا
—
اگر مرتے ہوئے لب پر نہ تیرا نام آئے گا
تو میں مرنے سے در گزرا مرے کس کام آئے گا
—
غفلت میں ہوئی اوقات بسر اے عمر گریزاں کچھ نہ کیا
سب چلنے کے تھے سامان بہم چلنے ہی کا ساماں کچھ نہ کیا
—
کہتے ہیں اہلِ ہوش جب افسانہ آپ کا
ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے دیوانہ آپ کا
—
نازک تھا بہت کچھ دل میرا اے شادؔ تحمل ہو نہ سکا
اک ٹھیس لگی تھی یوں ہی سی کیا جلد یہ شیشہ ٹوٹ گیا
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
شادؔ عظیم آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ شادؔ عظیم آبادی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...