ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
چاپ سن کر جو ہٹا دی تھی اُٹھا لا ساقی
شیخ صاحب ہیں میں سمجھا تھا مسلماں ہے کوئی
یوں تو احمق ہے مگر چونکہ عالیشان کاشانے میں ہے
اس لئے جھک مارنا اس کا بھی فرمانے میں ہے
اشعار تو ضرب المثل ہوگئے ، لیکن شاعر کو ہم بھول گئے۔ اب یہ سیاست والا شعر ہی لیں، شورش کاشمیری نے اتنی بار تقریروں میں پڑھا کہ لوگ ان کا ہی سمجھنے لگے کیونکہ وہ خود بھی بڑے شاعر تھے اور شاعر کا حوالہ بھی نہیں دیتے تھے۔
یہ سب شعر شاد عارفی کے ہیں۔ جن کا حقیقی نام احمد علی تھا۔ 1903ء میں لوہارو میں پیدا ہوئے تھے۔نو برس کے تھے کہ والد ریٹائر ہوکر رام پور منتقل ہو گئے جہاں شاد عارفی کا ننہیال تھا۔ ابھی میٹرک تک ہی پہنچے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا اور خاندان کی کفالت کا بار شاد عارفی کے کندھے پر آ پڑا اور اُن کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ پرائیویٹ ادیب، منشی اور ہندی سرٹیفکیٹ وغیرہ کے امتحانات پاس کیے۔ چھوٹی موٹی بے شمار ملازمتیں کیں۔ کسی دور دراز مقام تبدلہ ہوا تواستعفیٰ دے دیا۔
آخری عمر میں شاد کی گزر بسر چھوٹی موٹی ٹیوشنوں اور رسالوں سے نگارشات کے معاوضوں پر ہونے لگی۔ تنگدستی اور افلاس میں ماں کے انتقال پر انھیں اپنا آبائی مکان بیچ کر تکفین و تدفین کا بندوبست کرنا پڑا جس کے بعد بقیہ زندگی کرائے کے خستہ حال مکانوں میں بسر کرنی پڑی۔انا اس قدر تھی کہ مشاعروں سے معاوضہ قبول نہ کرتے ۔ آل احمد سرور نے حکومت سے ادبی وظیفہ جاری کرانے کے لیے درخواست فارم پر دستخط لینے چاہے تو شاد نے انکار کر دیا کہ طلبیدہ وظیفہ وہ قبول نہیں کریں گے۔ کوئی معاونت کرنا چاہتا تو ناراض ہو جاتے تھے۔
سولہ سترہ برس کی عمر میں انھیں اپنے دُور کی ایک رشتہ دار لڑکی سے عشق بھی ہوا تھا جو تین چار برسوں تک چلا۔ ماں نے انھیں غیر کفو میں شادی کی اجازت نہیں دی اور وہ بی بی کسی دوسرے سے بیاہ دی گئی۔ اس کے بعد شاد عارفی تقریباً تین سال تک مجنونی کیفیت میں رہے پھر اُنھیں تارا نام کی ایک لڑکی سے عشق ہوا۔ یہ بھی نتیجہ خیز نہیں رہا۔ کوئی چالیس برس کی عمر میں والدہ نے ان کی شادی پری بیگم سے کر دی جو ڈیڑھ برس اُن کی خدمت کر کے ایامِ حمل میں مناسب علاج معالجہ نہ ہوسکنے کے باعث فوت ہوگئی ۔
بچپن میں شمشیر زنی کی تربیت حاصل کرنے والے شاد عارفی نے نو برس کی عمر میں یہ پہلا شعر کہا تھا
ہو چکا ہے خیر سے ہُشیار تُو
اپنے دشمن پر اُٹھا تلوار تُو
پھر محمود خاں شفق رام پوری اور جلیل مانکپوری کے شاگرد ہوئے ۔ نظم و غزل قطعات اور رباعیات بھی ہوتی رہیں۔ کچھہ افسانے اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ زندگی میں ان کا کوئی مجموعۂ کلام سلیقے سے شائع نہیں ہوا۔ 1946ء میں ان کے شاگرد رشید احمد خان مخمور نے موصوف کی نظموں کا مجموعہ ’سماج‘ چھاپا لیکن بوجوہ اس کی باقاعدہ اشاعت نہیں ہوئی البتہ انجمن ترقی اردو ( ہند) نے ان کے کلام کا مختصر سا انتخاب1956ء میں شائع کیا تھا۔
شاد عارفی طویل علالت میں معقول علاج کی کمی، اچھی غذا سے محرومی اور ناسازگار حالات میں کئی برس گزارنے کے بعد 8فروری1964ء کو انتقال کرگئے۔
شاد عافی سیاسی و سماجی شعور رکھنے والے شاعر تھے ۔ ہمارے مسعود اشعر صاحب سمیت بیسیوں نوجوان ان سے فیض پاکر نمایاں ہوئے۔ فیض احمد فیض کہتے تھے میں شاد عارفی مرحوم کے کلام کا معترف ہوں۔احمد ندیم قاسمی نے کئی بار امروز میں اپنے کالم حرف و حکایت میں شاد عارفی کے منتخب اشعار چھاپے۔ ناصر کاظمی کہتے تھے، مجھے شاد عارفی کی گالیاں بھی ان کی شاعری سے زیادہ عزیز ہیں کہ یہ گالیاں ہمارے بدلتے ہوئے معاشرے کی دردناک کتھا سناتی ہیں۔ فرمان فتح پوری نے لکھا ،مجھے اردو غزل کی پوری تاریخ میں صرف دو ہی ایسے نام نظر آتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے عزل سے با مقصد اور سنجیدہ طنز نگاری کا بھرپور کام لیا ہے۔۔۔ غالب اور شاد عارفی دونوں نسلاً پٹھان ہیں اور دونوں کو شاعری سے زیادہ آبا ء و اجداد کے پیشۂ سپہ گری پر ناز ہے۔
شاد عارفی کی دو سو نظموں میں سے تقریباً آدھی نظمیں عاشقانہ اور منظریہ موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں اور لگ بھگ سو نظمیں طنزیہ ہیں۔
پیش ہیں شاد عارفی کے کچھہ اشعار
کون بُتوں سے رشتہ جوڑے
نام بڑے اور درشن تھوڑے
کم سے کم یہ تو قیامت نہیں میخانوں میں
آپ ہندو تو نہیں آپ مسلماں تو نہیں
جہان درد میں انسانیت کے ناتے سے
کوئی بیان کرے میری داستاں ہوگی
کہیں فطرت بدل سکتی ہے ناموں کے بدلنے سے
جناب شیخ کو میں برہمن کہہ دوں تو کیا ہوگا
ہم ان کے وعدوں پہ ٹوپیاں کیوں اچھال دیں جو پئے سیاست
ہوا کے جھونکے، قدم کی آہٹ پہ رُخ بدلتے ہیں گفتگو کا
جو ہاتھ کھینچ لوں کہیں گے مئے کا اہل ہی نہ تھا
جو لے کے جام توڑ دوں کہیں گے بے شعور ہے
تلخیِ گفتار کی تائید میں خطرہ ہے شادؔ
لکھہ رہا ہے مجھہ پہ ہر نقادِ فن ڈرتا ہوا
تائیدِ غزل کے بارے میں دوچار اشارے کیا کم ہیں
نو لمبی لمبی نظموں سے نو شعر ہمارے کیا کم ہیں
عمر بکر کی شرارتوں پر جو زید کو بزم سے اُٹھا دیں
بتائیے اُن کی اس حماقت پہ سر نہ پیٹیں تو مسکرا دی
بننے کو تو ان کی محفل میں سب گونگے بہرے بن بیٹھے
ماتھے پر شکنیں پڑتی ہیں جب سچّی سچّی کہتا ہوں
رنگ لائے گی ہماری تنگ دستی ایک دن
مثل غالب ،شاد گر سب کچھہ ادھار آتا گیا
دوسروں کے واقعات عشق اپناتے ہیں وہ
جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں
انصاف بیچتے ہیں بآوازۂ دہل
ایسے بھی منسلک ہیں عدالت سے آپ کی
صرف اپنوں کے تقرر کا ارادہ ہو گا
اور اخبار میں اعلانِ ضرورت دیں گے
کسی امیر کی لڑکی کسی غریب کے ساتھہ
نکاح عیب سمجھتی ہے، بھاگ سکتی ہے
دل میں لہو کہاں تھا کہ اک تیر آ لگا
فاقے سے تھا غریب کہ مہمان آ گیا
کہے جو ساقیِ جشنِ جمہوریہ کہ مانگو جو مانگنا ہے
تو سو میں نوّے غریب پھیلا کے ہاتھہ دونوں اناج مانگیں
سو گریباں پھاڑ ڈالے دو گریباں سی دیے
اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تناسب سیکھیے
گویا اے اربابِ طریقت اس نے جب انسان بنائے
تم جیسوں کو عقل عطا کی، ہم جیسے نادان بنائے
سلجھانے کی بات بنا کر
ڈاڑھی چوٹی سے الجھا دی
میں اپنے لفظ واپس لے رہا ہوں
یہ رہزن تھا، میں سمجھا رہنما ہے
فکر ہر کس بقدر ہمتِ اوست
بھینس کے آگے بین مجھہ سے نہ بجی
تو شاد کیا بانجھہ ہو گئی مادرِ علوم و فنونِ حکمت
تجوریوں کے شکم سے ہونے لگے جو عزت مآب پیدا
ناجائز پیسے کی اُجلی تعمیروں کے ماتھے پر
تم نے لکھّا دیکھا ہو گا یہ سب فضلِ باری ہے
جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے آج
کیا اسی کو کہیں گے جنتا راج
۔میں تو چٹنی سے کھا رہا ہوں شاد
دال بنٹتی ہے جیل خانے میں
شاد مغموم و مسرور نظر پڑتا ہے
سچ کہا ہے کہ تخلص کا اثر پڑتا ہے
شاد ضعیف العمر ہے لیکن اس کے شعر جواں ہوتے ہیں
ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ کہاں ہوتے ہیں
کسی شہکار کی تخلیق کے بعد
کاٹ لیتے تھے جو معمار کے ہاتھہ
اب وہ سفّاک نہیں ہیں پھر بھی
غیر محفوظ ہیں فنکار کے ہاتھہ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔