آج – 17؍فروری 2009
ادیب، افسانہ نگار اور ممتاز شاعر” شبنمؔ رومانی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی اور تخلص شبنمؔ ہے۔ ۲۰؍دسمبر۱۹۲۸ء کو شاہ جہاں پور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔۱۹۴۸ء میں بریلی کالج سے بی کام کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۹ء کوآپریٹوز کے اکاؤنٹنٹ اور پھر اسسٹنٹ سکریٹری رہے۔ اسی سال ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔انھوں نے غزل کے علاوہ نظمیں، افسانے، انشائیے سبھی کچھ لکھا ہے۔ ۱۹۷۳ء سے روزنامہ ’’مشرق‘‘ میں پابندی سے ادبی کالم لکھتے رہے۔سہ ماہی مجلہ ’’اقدار‘‘ خوبصورت اور خوب سیرت انداز میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’مثنوی سیر کراچی‘،’جزیرہ‘ (شعری مجموعہ) ، ’حرفِ نسبت‘ (نعت)، ’ارمغانِ مجنوں‘ (جلد اول۔مرتب)، ’تہمت‘، ’دوسرا ہمالہ‘ (شعری مجموعہ)۔
شبنمؔ رومانی، ١٧؍فروری ٢٠٠٩ء کو کراچی میں انتقال کر گئے ۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:233
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر شبنمؔ رومانی کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے
—
شبِ چراغ کر مجھ کو اے خدا اندھیرے میں
سانپ بن کے ڈستا ہے راستہ اندھیرے میں
—
اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ماہِ کامل کہتے ہیں!
تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھرپور ہے چاند
—
اب انہیں مجھ سے کچھ حجاب نہیں
اب ان آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
—
ڈھلتا سورج آنکھ کا ریزہ ہو جاتا ہے
جھوٹے خوابوں کا آمیزہ ہو جاتا ہے
—
اپنے علم پر شبنمؔ ناز کیا کرے کوئی
اک قدم اجالے میں دوسرا اندھیرے میں
—
کیجیے اور سوالات نہ ذاتی مجھ سے
اتنی شہرت بھی سنبھالی نہیں جاتی مجھ سے
—
نگاہِ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے
—
ﮐﻮﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﻓﻦ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺍﮮ شبنمؔ
ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺍﻧﺪﮬﯽ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﺑﮩﺮﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﮨﻮﮞ ﻓﻨﮑﺎﺭ
—
کس کی روح تعاقب میں ہے سائے کے مانند
آتی ہے نزدیک سے اکثر خوشبو کی جھنکار
—
میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی
—
سنگ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے آئنہ تو میں بھی ہوں
—
ہر آن ایک نیا امتحان سر پر ہے
زمین زیر قدم آسمان سر پر ہے
—
یہ معرفتِ غزل تو دیکھو
انجان کو جان لکھ رہا ہوں
—
میں نے دیکھا ھے بہت غور سے اس دنیا کو !
اِک دلِ آزار مسیحا کے سوا کچھ بھی نہیں
—
وہ دور افق میں اڑانیں ہیں کچھ پرندوں کی
اتر رہے ہیں نئے لفظ آسمانوں سے
—
لمحوں کا پتھراؤ ہے مجھ پر صدیوں کی یلغار
میں گھر جلتا چھوڑ آیا ہوں دریا کے اس پار
—
اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے
—
ہر سنگِ میل پر یہی گزُرا مجھے قیاس
زندہ گڑا ہُوا کوئی جیسے زمیں میں تھا
—
میں جہاں گردشِ حالات سے تھا گرمِ جہاد
رقص کرتے ہوئے کچھ لوگ اُدھر سے گزرے
—
سنتے ہیں لہجوں کی رقابت، دیکھتے ہیں رنگوں کا نفاق
محفلِ خوباں میں اے شبنمؔ ، ایک شگوفہ چھوڑ کے ہم
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
شبنمؔ رومانی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ شبنمؔ رومانی کی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔