شکاگو سے دوحہ، دوحہ سے کراچی لمبی فلائٹ اور پھر ایکونمی کلاس، اب جسم تھک کر چور چور ہو جاتا ہے، لیکن طیارے کے پہیئے جیسے ہی کراچی کی زمین چھوتے ہیں ایک سرخوشی روم روم میں بس جاتی ہے. ایک قرار ایک طاقت سی محسوس ہوتی ہے.
میں نے منیب سے کہا بھی کے ساتھ چلو مگر ان کا وہی کام کا بہانہ. منیب کا کوئی انٹرسٹ بھی تو نہیں کراچی میں، وہاں نہ ان کا کوئی دوست ہے نہ رشتہ دار، جب مکین نہ ہو تو شاید مقام کشش نہیں رکھتے . ویسے بھی منیب اپنے کام سے کام رکھنے والے کم گو اور introvert بندے ہیں ،کراچی ان کے اعصاب کے لئے بہت زیادہ ہو جاتا ہے. وہ اپنے اوک پارک میں ہی خوش رہتے ہیں. حد یہ کہ بچوں کے اصرار پر ان کی طرف بھی چکر نہیں لگاتے. کبھی مچھلیوں کا کبھی پودوں کا بہانہ اور پھر ایک دل پسند جملہ “تم لوگ آ جاؤ یار”.
جب میں کراچی سے بیاہ کر آئی تھی تو ان دنوں منیب بوسٹن میں تھے، محب اور منیزہ وہیں پیدا ہوئے تھے. بوسٹن میں کوئی چھ سات برس گزار کر ہم لوگ شکاگو منتقل ہوئے اور یہیں کے ہو کے رہ گئے. پہلے تو مین شہر میں رہتے تھے پھر کوئی بیس برس قبل منیب نے یہ گھر اوک پارک سبرب (oak park suburb)
میں خریدا اور گویا اپنے آپ کو گھر میں محبوس کر لیا. یہ گھر منیب کا love at first sight تھا.
حق تو یہ ہے کہ گھر ہے بھی بہت خوبصورت اور آرام دہ . سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم لوگوں نے گھر کو اپنایا ہے یا گھر نے ہم لوگوں کو اون کر لیا ہے. واقعی اس کی لال اینٹیں سانس لیتی اور دکھ سکھ میں شریک لگتی ہیں. یہ ہمارے ساتھ اداس ہوتا ہے اور ہماری خوشی میں سترنگی، شاید کچھ پڑھنے والوں کو یہ باتیں عجیب لگیں گی مگر میں نے گھر کو وچھوڑ میں بین کرتے بھی سنا ہے. میرا بچپن جس گھر میں گزرا وہ میری یاداشت میں اب بھی سانس لیتا ہے.
دوحہ میں لےاوور(lay over) زیادہ تھا سو جب جہاز نے کراچی کی مٹی کو چوما تو سہ پہر تھی. اچھا مستعد پائلٹ تھا، ٹیک آف اور لینڈنگ دونوں بہت متوازن تھی. میں نے جہاز سے نکلتے ہوئے ائرہوسٹس کے الوداعی جملوں کا جواب دیتے ہوئے ساتھ کھڑے پائلٹ کی مہارت کی تعریف کی جس کا اس نے نہایت خوشدلی سے جواب دیا. جہاز سے باہر نکلتے ہی میں نے شعوری طور پر اپنے آپ کو دیسی موڈ میں لانے کی پوری کوشش کی. امیگریشن کے بےزار اسٹاف سے نمٹ کر، سامان کو کنوئیر بلٹ سے جھپٹا اور شیشے کے گھر سے باہر آ گئ . باہر کراچی کی خوبصورت سرما کی شام بےساختہ گلے سے لپٹ گئ. ایک گہری سانس لی اور شام سے کہا لو! اب میں دس دنوں کے لئے تمہارے حوالے. وسط دسمبر کی شام مجھے اداس لگی. اب میرے وطن واپسی کے ہر سفر میں کراچی، میرا شہر دلبرا میرا اداسی سے سواگت کرتا ہے کیونکہ اب یہاں میرا اپنا سگا کوئی بھی نہیں. خاص کر چچا کے انتقال کے بعد اجنبیت کا احساس اور گہرا ہو گیا ہے. کراچی کی ٹکٹ بک کرتے ہوئے دل نے پوچھا “اب کالے کوسوں کا سفر کیوں؟ اب تو وہاں کوئی آنکھ بھی تمہاری منتظر نہیں.” دل کو ڈپٹ تو دیا تھا پر بات دل نے صحیح کہی تھی. ہاں! اب شہر نگارا میں میرا کوئی منتظر نہیں، کیونکہ میرے منتظر دلوں نے اب شہر خموشاں آباد کر لیا ہے. اب دل کے بہلنے کو شہر آباد نہ سہی پر شہر خموشاں میں مٹی کی بہت ساری ڈھیریاں ہیں . اب جب جب کراچی واپسی ہوتی ہے تو وچھوڑ دل کو خون کرتا ہے.
باہر بھانجا منتظر ملا. اس بار کراچی کے مختصر دورے کی وجہ فرسٹ کزن کی بیٹی کی شادی ٹھہری کہ تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے. حال احوال پوچھتے پاچھتے کب ڈرگ روڈ کراس کی اور گلبرگ پہنچے اندازہ ہی نہیں ہوا. چونکی تب جب پھولوں والی گلی کراس کر کے معروف حلیم(مزیدار حلیم) کی دکان کے قریب پہنچے تب میں نے قصداً سڑک پار کھڑے تین منزلہ مکان سے نظریں پھیر لیں. اس سہ منزلہ کی تابندہ پیشانی پر سے اب “جمال الستان” کھرچ دیا گیا تھا. اب وہ نواز چچا کا گھر نہیں تھا جانے کس کی ملکیت تھا؟
گھر میں شادی کی مخصوص گہماگہمی اور افراتفری مچی ہوئی تھی. رات میں مہندی کی تقریب کی تیاریاں عروج پر تھی. وطن واپسی پر اگر کسی شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی گردانتی ہوں، کیونکہ وہ تقریب دور و نزدیک کے عزیزوں سے ملاقات کی سبیل بن جاتی ہے ورنہ کراچی کی ٹریفک الاماں الاماں. بندے کے دانتوں میں پسینہ آجائے اور ٹریفک کے ازدھام اور بے ہنگم پن سے بلند فشار خون الگ. اس غریب پرور شہر کا تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں حالانکہ کے دودھ دینے والی گائے کے تو سبھی قدردان ہوتے ہیں، پر یہ شہر ناپرساں جس سے ملک کو سب سے زیادہ ریوینو(revenue) حاصل ہوتا ہے، اس پر حکومت کی بےحسی اور بے انصافی کی انتہا دکھئے کہ اسی شہر کراچی کی بیچاری عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے. ایسا اندھیر صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے.
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
شادی کی تقریب میں رخصتی کے بعد جب ہم سب گھر والے کھانا کھا رہے تھے تو میں نے نصرت سے پوچھا شبن چچا نظر نہیں آ رہے؟ جی آئے تھے، جلدی چلے گئے ہیں ، مجھے سلامی کا لفافہ پکڑا تے ہوئے جلدی جانے کے سلسلے میں معذرت کی تھی انہوں نے. نصرت نے میری طرف میٹھا بڑھاتے ہوئے جواب دیا .
کیسے ہیں اب؟
انہوں نے تو زمانے سے دنیا تیاگی ہوئی ہے صباحت آپا ، وہ ہیں اور ان کا سوشل ورک. ہزار فون کال کے بعد کبھی سال چھ ماہ پر شکل دکھا جاتے ہیں. نصرت کی آواز میں ملال تھا. واقعی وقت کبھی کبھی کیسے ہیرے کو رول کر بے مول کر دیتا ہے. مجھے ان سے نہ ملنے کا قلق تھا، اور میں نے دل میں تحیہ کر لیا کہ کل ولیمے کی تقریب میں ان سے ضرور بہ ضرور ملنا ہے.
شادی سے نپٹ کر صدف سے فون پر رابطہ کیا. صدف میری پیاری سگھڑ اور آرگنائز عزیز دوست، جو خوبصورتی میں بےمثال اور خوب سیرتی میں یکتا و کمال . اس نے سارا پروگرام پہلے سے ہی سیٹ کیا ہوا تھا. اس نے مجھے بتایا کہ کل شیرٹن میں ہائی ٹی ہے اور وہ مجھے پک کر لے گی اور وہاں سے واپسی پر اس رات اسی کے گھر رکنا ہے. ویسے بھی صدف اور میرا چار چھ گھنٹوں کی مختصر ترین ملاقات سے گزرا ممکن نہیں تھا. اتنے میں تو آنکھوں کی پیاس نہیں بجھتی، دل کی سیری کب ممکن تھی؟ میں پوچھتی ہی رہی کہ کون کون ہو گا کہنے لگی اس کو سرپرائز ہی رہنے دو، پر زیادہ نہیں ہیں چار پانچ ہی ہیں. میرے لئے تو یہ بھی بہت بڑا فیگر تھا. اس عہد بے مخلصی میں کوئی کسی کی خاطر دو گھڑی نکال لے تو میرے حساب سے یہ بہت بڑی بات ہے. مجھے بے چینی اور تجسس سے کل کا انتظار تھا حالانکہ میرا یہ گمان تھا کہ اب میرے مزاج میں طلاطم نہیں. مگر بات یونیورسٹی کی ہو اور جزبات میں ہلچل نہ مچے ناممکن. اپنے تعلیمی سال میں میں نے گریجویشن، سینٹ جوزف کالج کی خوبصورت عمارت کے سحر میں مبتلا ہو کر اور پوسٹ گریجویشن کو دوستوں کی صحبت کی وجہ سے بہت انجوائے کیا تھا.
صدف نے مجھے پک کیا اور حسب سابق ہم دونوں پہلے پہنچنے والوں میں سے تھے . پھر شہر خبرو تارا پہنچی( یونیورسٹی میں ہمیں ساری خبریں خاص کر اسکینڈلز تارا کے توسط سے ہی پتہ چلتے تھے) ، پھر نبیلہ اور نیلوفر اور آخر میں قدسیہ اور عزیزہ. میں تینتیس سال بعد مل رہی تھی ان سب سے. ہم سب خوب ایک دوسرے کو جھپی ڈال ڈال کر ملے اور جب سب پرسکون ہو کر بیٹھ گئے تو ہم سبھوں کے منہ سے بےساختہ ایک قہقہہ نکلا، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اب ناقابل شناخت تھے، ماضی کی پرچھائیاں. گزرتے وقت نے ہم سب کو کم از کم دس پندرہ کلو اضافی گوشت کی سوغات ضرور دی تھی. آپس کا حال احوال ہوا اور پھر اس سنہرے دور کو یاد کیا گیا. یونیورسٹی کا زکر ہو اور میڈم انصاری کی لیب کا زکر خیر رہ جائے ناممکن.
لیب دو بجے شروع ہوتی تھی. لیب سے پہلے صدف اور مین کینٹین جاکر لنچ کرتے. کیا بےفکرا گھریلو ماحول ہوتا تھا کینٹین کا. بلند آواز میں موسیقی بج رہی ہوتی تھی. دو، چار یا چھ کی ٹولیوں میں لڑکیاں میز کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی ہوتیں، کچھ کرسیوں پر ٹانگ چڑھائے اور کچھ لٹکائے خوش گپیوں میں مصروف. کہیں راز و نیاز میں سکھی کو حکایت دل سنائی جا رہی ہوتی تھی تو کہیں منگیتر سے ملاقات کی تفصیل دوستوں کے گوش گزار ہوتی. کسی کسی ٹیبل پر اسانئٹمنٹ کا رولا اور کہیں ٹچیرز کی نیکیوں میں اضافہ بھی. پر اخری دو ٹوپک زرا کم ہی زیربحث رہتے. کینٹین ہائیڈ پارک تھا ہر شخص اپنی اپنی کہنے کا شوقین. سب سے زیادہ مزہ تو تب آتا جب کینٹین پالر کا روپ دھار لیتی، کوئی آئی بروز بنوا رہی ہے، کوئی نیا ہیر اسٹائل ٹرائی کر رہی ہے اور کوئی تو مہندی لگوا رہی ہے، اور کہیں نیل پالش کا نیا شیڈ آزمایا جا رہا ہوتا. اکثر کینٹین میں دھوم دھڑکے سے سالگِرہ بھی منائی جا رہی ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو مایوں اور رخصتی کے گیت بھی الاپے جاتے تھے . کچھ خوش گلو ریڈیو کے ساتھ ساتھ خود بھی گانا شروع ہو جاتیں. غرض ایک رنگین اور زندگی سے بھرپور فضا ہوتی. ہم سائنس والے آرٹس والوں کی طرح فرصت سے زرا کم ہی نوازے جاتے تھے سو مختصر وقت میں ہم دونوں جلدی جلدی اپنی اپنی کہ سن کر لائبریری کے تحہ خانے میں اتر جاتے اور آرام سے ظہر کی نماز پڑھ کر واپسی میں شاہی سپاری کا ایک پیکٹ آدھا آدھا کھا کر خوش و کرم ڈیپارٹمنٹ آکر لیب کو پیارے ہو جاتے. اس زمانے میں خوش ہونا کتنا آسان تھا. بارش ہو گئی خوش، پسند کی کتاب پڑھ لی یا ٹھنڈی سڑک پر ٹہل لیے خوش، اور اگر ٹیچر نہیں آ سکے کلاس فری ہو گئی تو انتہائی خوش.
میڈم انصاری کی لیب میں مہینے میں ایک بار آلو گوشت پکانے کا مرغن آئیڈیا ہمارے ایک بہت پر مزاح اور پارہ صفت دوست کا تھا. وہ سب سے چندا اکھٹا کرتا، پکانے کا سامان جوڑتا اور بہت مزے کا آلو گوشت بناتا. اس سارے پروسس کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ لڑکیوں کو تنکہ بھی نہیں توڑنا پڑتا تھا، میرے جیسے کاہل کو تو یہ بات بہت ہی راس تھی. کچھ نیک لڑکیاں والنٹیر ہوتیں تھیں. لڑکیوں کی زمہ داری صرف کھانے کے بعد چائے بنانے کی تھی. سالن کی دیگچی Fuming chamber میں چار برنر جلا کر ٹرائی پوڈ اسٹینڈ پر رکھی جاتی تھی اور اس طرح سالن پکتا، کسی مہینے آلو گوشت اور کبھی کبھی تو قورمہ بھی پکتا. ایک صاحب تندور سے تندوری روٹیوں لانے پر معمور تھے. وہ روٹیوں کی بوری اپنی پیٹھ پر لاد کر یوں لاتے جیسے روٹیاں تندور سے نہیں ایورسٹ سے لگوا کر آ رہے ہیں. ویسے وہ تھا بھی بڑا زبردست فنکار. اس کی جگہ ریڈیو پاکستان تھی، جانے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں کیوں جھک مار رہا تھا.
سچ ہے برنر پر پکے اس سالن سے زیادہ لزیز سالن پھر کبھی نہیں کھایا. ہم لوگوں کی یہ ماہانہ ٹریٹ بڑی خوش اسلوبی سے جاری و ساری تھی کہ چھٹیوں میں لیب میں شارٹ سرکٹ سے آگ لگ
گئی. پھر اس کے بعد لیب بوئے (صادق بھائی) نے دعوت شیراز منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان غریب کی غازی بابا کے دربار میں پیشی ہو گئ تھی. لگتا ہے ہم لوگوں کی اس ماہانہ تفریح کو باقی لیب والوں کی نظر لگ گئی تھی . حالانکہ خیر سگالی کے طور پر سالن روٹی اور دوسرے افراد تک بھی بھیجی جاتی تھی(رشوت یا زباں بندی کے طور پر 😄).
اور PVC کا ٹرپ کون کافر بھول سکتا. انڈسٹریل کیمسٹری کے استاد سر ثاقب کی سرکردیگی میں پوائنٹ کی بس میں لد لدا کر قافلہ فیکٹری پہنچا. کانفرنس حال میں پریزینٹیشن تھی. لڑکیاں چونکہ اگلی قطار میں بیٹھی تھیں اور اساتذۂ کی عقابی نگاہوں کے ریڈار پر تھیں سو دکھاوے کی دل جمعئ سے پریزینٹیشن سنی بھی اور اہم نکات بھی نوٹ کیے گئے اور فلو چارٹ بھی کاپی کیا کہ امتحان میں تو سمجھو فلو چارٹ آیا ہی آیا. گویا ٹرپ کو کلی طور پر حلال کیا، پیچھے لڑکے مزے سے نوٹ بک پر ریمارکس پاس کرتے رہے. فیکٹری والوں نے ہماری تالیف قلب کےلئے مناسب چائے پانی کا بندوبست کر کے داڑھ بھی گیلی کرا دی اور ثواب دارین کے حقدار ٹھہرے. واپسی کے سفر میں پتہ نہیں کس نیک بندے نے ٹیچرز کو مکلی کے لئے راضی کر کے اس فیکٹری وزٹ کو یادگار بنا دیا. ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد کیا ہی حسین مسجد ہے گویا
“ہر اینٹ پر دم نکلے”
بہترین آرکیٹکٹ. اس مسجد کا بغیر مائک کے صوتی نظام اور بھٹی کی دم پخت چھوٹی چھوٹی لال اینٹیں، گویا ترشے ہوئے یاقوت و لعل. لاجواب و کمال اور پھر مکلی کا شہر خموشاں ،جو دیدہ عبرت بھی تھا اور ساتھ ہی ساتھ شہانہ جلال سے دل پر رعب اور ہیبت بھی طاری کرتا تھا.
بہت ہی یاد گار سفر تھا. مجھے تو مسجد اور مقابر دونوں نے ہی اپنا اسیر کر لیا.
شیرٹن میں چار گھنٹے کیسے ہوا ہوئے مت پوچھئے. واقعی پرانے دوست اور خوشگوار ماضی ٹونک ہوتے ہیں. ہم سب یقیناّ بہت عرصے بعد اس قدر کھل کر ہنسے تھے. گھور کر دیکھنے والوں اور منہ بنانے والوں کی قطعی پرواہ کیے بغیر، خاصے بےادب ہو گئے تھے ہم لوگ اس دن. دراصل ہم سب اس وقت لمحہ موجود سے کٹ کر خوبصورت ماضی کی امرت دھارا میں غوطہ زن تھے. چلتے چلتے نبیلہ کو جانے کیا سوجھی کہنے لگی چلو “جس کا اتنا ذکر کیا ہے کل چل کے اس کا دیدار بھی کر لیتے ہیں”
گویا،
“زکر یار چلے اور بار بار چلے.”
اور پوری جماعت بہ رضا و رغبت راضی ہو گئ. ایک بے حد خوشگوار دن خوبصورت یادیں دےکر اختتام پذیر ہوا.
دوسرے دن یونیورسٹی گیٹ پر تارہ ہم سب کی منتظر تھی. حفاظتی چوکی پر آئی ڈی کارڈز وغیرہ کی معمول کی کارروائی کے بعد ڈھرکتے دل سے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلے. راہ میں ڈاک خانہ، ایڈمنسٹریشن بلڈنگ، جمنازیم، دور سے لائبریری اور پاس سے بینک اور مسجد سے ہوتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچے. غالباً امتحانات چل رہے تھے اس لئے وہ معمول کی چہل پہل مفقود تھی جو یونیورسٹی کا لازمہ ہوتی تھی.
گول سیڑھی کے پاس کھڑے ہو کر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو دل خوش گمان نے کیا کیا نظارے کرا دئیے. مسکراتے ہوئے سر وہرا کلاس کی جانب تیز قدموں سے لپکتے نظر آئے. پلیا کی طرف سے شلوار قیمص میں ملبوس ہاتھ میں فائل پکڑے متوازن چال اور چہرے پر متانت لئے ڈاکٹر ارشاد آتے نظر آئے . ارے وہ دیکھو! لیب کی ریمپ سے چہکتے رنگ کی دھانی ساڑھی میں اترتی معاملہ فہم و اسمارٹ مسز ملک. اور وہ آڈیٹوریم کی طرف جاتے ہوئے دو رنگ کے موزے چڑھائے گم شدہ سے سر سمعی. کاریڈو میں آہستہ خرامی سے اپنی آفس کی طرف جاتی میڈم انصاری. تیزی سے چھٹتی لڑکوں کی بھیڑ اس بات کی غماز کے خوش لباس سر اعجاز کی آمد آمد ہے.
ان دنوں آڈیٹوریم میں رینوویشن چل رہی تھی. لڑکیوں کا کامن روم اور اس سے متصل کچہ حصہ اب ایک پختہ چبوترے کی شکل اختیار کر کے باجماعت نماز کے لئے مختص ہو چکا تھا. آڈیٹوریم کے بازو، احاطے میں کھڑا نیم کا درخت بوڑھا اور غم زدہ سا لگا. جی تو چاہا کہ اس کو گلے لگا لیں مگر حجاب مانع رہا کہ ارد گرد دو چار طالبعلم کھڑے تھے. فوٹو اسٹیٹ مشین کے پاس وہ پرانا ڈبہ جس پر بیٹھ کر رمضو سے چائے اور چاٹ آڈر کی جاتی تھی اور جہاں کبھی نہ ختم ہونے والی گپ شپ جاری رہتی تھی. وہ ہمنوا ڈبہ اب ندارد تھا. واٹر کولر پر بیکر اب بھی تھا. فیزکل لیب کے کاریڈو میں پانی بھی اسی طرح کھڑا تھا. ان اورگینک کے کیمیکلز کی وہی دم گھونٹ دینے والی مخصوص بو اور اندھا کوریڈور. وہاں وقت حنوط تھا مگر ساکنان سفر کر چکے تھے.
ارے! مین ہال میں مجھے ماضی کے جھروکے سے ایک نمکین سی من موہنی شرمائی سی لڑکی، جو محبت کی سرشاری سے شاداب تھی اور اس کے ساتھ چلتا ہوا ایک خوش خصال و خوش باش مسکراتا ہوا پر اعتماد لڑکا ، جس کی مسکراہٹ میں محبت جیت لینے کا غرور تھا. نظر آئے.
میں نے پلٹ کر تارہ سے ان کے بارے میں پوچھا کیونکہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں دو ہی کپل تھے. ایک منگنی شدہ اور دوسرا دل زدہ . تارہ نے بتایا کہ بھئ وہ کامیاب رہے اور ماشاءاللہ ایک دوسرے کی ہمراہی کو انجوائے کرتے ہوئے اسلام آباد میں سکونت پذیر ہیں.
جان کر جی شاد ہوا.
پھر تو سوالات کی ایک بوچھاڑ ہی پڑ گئ تارہ پر کیونکہ تین چار ایسے کپل بھی تھے جو خوشبو کی طرح محسوس تو ہوتے تھے پر شنیدہ و دیدہ نہیں تھے. بس قیاس ہی قیاس ،گمان ہی گمان تھا
پر بھید ہاتھ نہ آتا تھا.
تارہ نے بتایا کہ نہیں ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں رہا.
ہائے کیوں؟ دل یکایک ڈوب گیا.
بس کہیں اخلاص میں آنچ کی کسر رہ گئ تو کہیں زر و جوہر کی دیوار کھڑی ہو گئی،
اور کہیں اماں اور انکی ایموشنل بلیک میلنگ آڑے آئی.
صدف نے بڑے دکھ سے کہا کہ” لوگ کیسے اپنے ہی بچوں کے دل سے کھیل جاتے ہیں”؟
اس کی یہ بات دل میں ترازو ہو گئی. واقعی اتنے محبت کرنے والے ماں باپ جو ہر لمحے اپنے بچے کی خوشی چاہتے ہیں. ان کی چھوٹی سے چھوٹی فرمائش پورا کرنا اپنا نصب العین جانتے ہیں وہ اولاد کے دل کو کیونکر بلی چڑھا دیتے ہیں؟ عجب گورکھ دھندہ ہے یہ بھی. ہم سب گم سم سے ہو گئے، عزیزہ نے کہا چھوڑو سب قسمت کا گھپلا ہے. چلو لائبریری چلیں.
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ میں محبت میں ناکام دلوں سے ملوں اور پوچھوں کہ” بنا دل کے جینا کیسا ہے” ؟
لائبریری جاتے ہوئے چاچا کے سموسے بھی کھائے اور کمال بات کے زائقہ بلکل وہی پر کیا کیجئے کہ اب معدہ وہ نہیں رہا تھا، بعد میں دو دن کھچڑی اور ایموڈیم پر گزرا کیا.
ڈیپارٹمنٹ کی طرف واپس آتے ہوئے ہم سب کا دل بھاری تھا. کسی نے کتنا سچ کہا ہے کہ جہاں تم نے اچھا وقت گزارا ہو، وہاں واپس کبھی مت جاؤ کہ وہاں صرف پرچھائیاں ہوتی ہیں، ملال ہوتا ہے.
دم واپسی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہزار نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر سڑک پار اس ڈیپارٹمنٹ پر پڑ گئی اور دل نے ایک بیٹ مس کر دی. صدف نے بھی عین اسی لمحے ادھر دیکھا اور میرا ہاتھ کھینچ کر گاڑی میں بیٹھا لیا.
کیسے ہیں وہ؟ اس نے آزردگی سے پوچھا.
زندہ ہیں! زندگی سے جنگ بدستور جاری ہے.
آخر اس قصے کی حقیقت کیا تھی صباحت ؟ فائنل کے فوراً بعد ہی تمہاری رخصتی ہو گئی تھی اور تم بوسٹن پرواز کر گئی تھیں . ادھر ادھر سے میں کہانیاں تو سنتی رہی پر دل نہ مانا. پھر ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تر ہوتے چلے گئے. ویسے بھی پرائے درد کب دل زخماتے ہیں. آج تو تم ان کی کہانی سنا ہی دو.
ہاں! ابھی چار روز قبل ہی تو ملی ہوں ان سے ولیمے میں. اب وہ واقعی کہانی بنے والے ہیں صدف. چراغ سحری ہیں .
شبن چچا ابا جان کے رشتے کے ماموں جمال الدین کی چھٹی اولاد ہیں. تین بھائی اور تین بہنوں میں آخری شہاب الدین. گھر بھر میں سب سے مختلف، درد مند دل رکھنے والے، ہنس مکھ، ملنسار شبن چچا. جمال دادا کا اچھا چلتا ہوا کاروبار تھا اور وہ لوگ گلبرگ میں مزےدار حلیم کے بالمقابل تین منزلہ گھر “جمال الستان” میں سکونت پزیر تھے. شبن چچا کے منجھلے بھائی غیاث الدین اور ابا جان ہم عمر اور دوست تھے. ابا جان ان دنوں ثمن آباد میں 5c کے آخری اسٹاپ کے پاس رہتے تھے. پرانا وقت تھا، مروتوں بھرا زمانہ. آپس میں بہت اچھے تعلقات تھے. جب میں پیدا ہوئی تو ان دنوں شبن چچا بی. ایس. سی کے فائنل کے ایگزام کی تیاری میں مشغول تھے. بلکہ وہی اس رات ایمرجینسی میں نواز چچا کی فورڈ میں امی کو ہسپتال لے کر بھاگے تھے ابا جان کے ساتھ اور میں سدا کی جلد باز، گاڑی ہی میں پیدا ہو گئی تھی. عرصے تک شبن چچا نے اس بات کو میری چڑ بنائے رکھا. میں کوئی پانچ چھ سال کی تھی تو شبن چچا جرمنی چلے گئے تھے پی. ایچ. ڈی کرنے،
Berlin university Freie
سے فزکس میں پی. ایچ. ڈی کی. ان کا پڑھائی کا ٹریک ریکارڈ ہمشہ سے شاندار رہا تھا. شبن چچا فل اسکالر شپ پر جرمنی گئے تھے. یہ اپنے خاندان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے بندے ہیں. وہیں ان کا دل اپنی کلاس فیلو لینا مولر پر آ گیا.
ان کی خواہش تھی لینا سے شادی کی مگر دادی اور پھوپھیوں نے طوفان کھڑا کر دیا. یہ واپس پاکستان آنے سے انکاری ہو گئے. ضد دم ضدی چلتی رہی. نہ یہ جھکے نہ دادی مانیں. تم تو واقف ہو ڈومیسٹک پالیٹکس سے صدف! دادی نے اپنی بیماری کا ڈھونگ رچایا اور وہ ماں کی محبت میں پاکستان لوٹ آئے. پھر وہی میلو ڈرامہ” دودھ نہ بخشنے اور میرا مرا منہ دیکھو” وغیرہ وغیرہ.
اس ایموشنل بلیک میلنگ سے یہ زیر ہو گئے اور پھر یہیں کے ہو رہے، کراچی یونیورسٹی جوائن کر لی. دادی اور پھوپھیوں نے شادی کے لئے بہترا زور لگایا مگر یہ اپنی “نہیں” پر ڈٹ گئے. ان کو خاندان کی نوجوان نسل میں آئیڈیل کی حیثیت حاصل تھی. ایک عالم ان پر مرتا تھا. بلکہ محلے کی کئی باجیوں کے خطوط کی کبوتر تو میں خود تھی دس بارہ سال کی عمر تک. پھر جب ایک بار شبن چچا سے زبردست ڈانٹ پڑی اور انہوں نے سمجھایا کہ یہ بہت غلط بات ہے تب جا کر میں بادل نخواستہ
باجیوں کی نامہ بری سے دست بردار ہوئی. پر میرا بڑا نقصان ہوا. میرے تو عیش تھے. کوئی میری گڑیوں کے کپڑے سی دیتیں تھیں اور کوئی کچھ دیتی تھی تو کوئی کچھ. ان کے ناکام عشق نے ان کو رومیو بنا دیا تھا. ان کے سرد روئیے سے باقی تو پیچھے ہٹ گئیں پر بلقیس باجی ثابت قدم تھیں. انہوں نے تو جب ہم لوگ بی. ایس. سی میں آ گئے تھے تب اپنی اماں کی قسما قسمی اور زہر کھانے کی دھمکی اور شاید اپنی بڑھتی عمر سے خائف ہو کر مجبوراً ایک رینڈوے سے شادی پر رضا مندی دے دی تھی. مجھے بھی بلقیس باجی پر ترس آتا تھا. میں نے شبن چچا کو مشورہ بھی دیا کہ اچھی نیک خاتون ہیں آپ کو خوش رکھیں گی مگر ان کی نا، ہاں میں بدلی ہی نہیں. اب تو خیر زور دینے کو دادی بھی حیات نہیں تھیں اور باقی بھائی بہن سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن. شبن چچا کے بھائی بہنوں کی زیادتی دیکھو کہ جب جمال الستان فروخت ہوا تو ان کو یہ کہ کر ترکے کا حصہ نہیں دیا گیا کہ بھئ تمہاری جورو نہ جاتا، اچھا کماتے ہو اکیلے کھاتے ہو. بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی اور انہوں نے بھی کوئی احتجاج نہیں کیا.
شبن چچا سرخے ہیں پر دہریہ نہیں. بخدا مجھے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی. وہ نماز روزہ کے پابند، سب کے بہی خواہ اور ہمدرد. ہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے سخت خلاف، دولت کے گردش نہ کرنے سے نالاں. دراصل شبن چچا بہت شریف آدمی ہیں. میں نے آج تک ان کو کسی سے تو تڑاخ کرتے نہیں سنا. یہ محلے کے کمزور طبقے میں مشہور و متعبر . نچلے طبقے کے حمایتی و ہمدرد بلکہ ان کی آواز. ان میں گھل مل جانے والے. بس امیروں سے نہیں بنتی ان کی.
یونیورسٹی میں طلباء میں مقبول اور ہر دل عزیز استاد، مگر اپنے ہم عصروں میں پسند نہیں کیئے جاتے تھے . وجہ دو تھی. پہلی سماجی ناہمواری کے خلاف ان کا وکل(vocal ) ہونا اور دوسرا پڑھانے میں نئ نئ اختراع. یہ لکیر کے فقیر نہیں تھے. طالبات کو نئ تھیوریز سے آشنا کراتے تھے. جبکہ بیشتر اساتذۂ اپنا وہی پرانا سنہ ساٹھ کا کورس دوہرائے جا رہے تھے. شبن چچا کے سرخے ہونے کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر ان کے خلاف استعمال کیا گیا. ان کے خلاف ایک پوری لابی تھی. پھر بخت کی خرابی کہو یا دل کی نادانی. اب دل نابکار کے آنے کا کوئی لگا بندھا فارمولا تو ہے نہیں. آنے پر مائل ہو تو کم رو بھی ابلا پری ، اور نہیں تو اندرسبھا کی رانی بھی کانی. تم کو یاد ہے نا صدف جب ہم لوگ فائنل میں آئے تھے تو ایک حسینہ، گل خنداں مینگل کوئٹہ سے مائیگریٹ ہو کر آئی تھی؟ پتہ نہیں اس کی نیلی آنکھوں کے اسیر ہوئے تھے یا بلقیس باجی کی آہ کا شکار! پر برباد ہو گئے.
او ہاں! یہ تو تمہارے نکاح کے فوراً بعد کا قصہ تھا نا صباحت ؟ اس لڑکی کی نیلی آنکھوں اور بلونڈ بالوں پر تو آدھی یونیورسٹی دوسرے دن ہی فدا ہو گئ تھی. بھئ بڑی بولڈ لڑکی تھی. مجھے آج بھی یاد ہے صباحت کہ فائنل کے امتحانات سے کچھ دن پہلے کی بات تھی کہ ایک دن زبردستی تم نے مجھ سے بھی کلاس بنک کروائی تھی اور ہم دونوں محض اس قتالہ عالم کو قریب سے دیکھنے کےلئے شبن چچا کی کلاس میں جا کر بیٹھ گئے تھے، کیونکہ کچھ اڑتی اڑتی خبریں تھیں کہ شبن چچا اور گل خنداں کا کچھ سلسلہ چل رہا ہے. اور بھئی کیا چیز تھی وہ بھی ! بھری کلاس میں جب شبن چچا کلاس ختم کر کے نکل رہے تھے تو کس آرام سے کہ دیا تھا کہ Sir! steel gray is made for you
اور شبن چچا کے کان بلکل سرخ ہو گئے تھے اور ہم سارے طلباء حق دق.
ہاں وہ واقعہ تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا تھا. حالانکہ یہ کوئی یونیورسٹی کا پہلا واقعہ نہیں تھا کہ ٹیچر اور شاگرد کا رشتہ بن رہا تھا. اس سے پہلے بھی ایسی کئ مثالیں تھیں. مگر شاید سب ڈھکا چھپا تھا اور یہاں سب کچھ تشت از بام.
پتہ نہیں یہ سب پری پلین تھا؟ یا شاید گل خنداں کسی کی آلہ کار تھی؟ کچھ تو گڑبڑ تھی . کہیں کچھ غلط ضرور تھا.
جس دن ہم لوگوں کا آخری پرچہ تھا، تمہارے جانے کے بعد میں شبن چچا کی طرف چلی گئی تھی کہ ان سے منیب کے لئے تحفہ کی خریداری کے سلسلے میں مشورہ کر نا تھا . جب میں ان کے آفس کے دروازے کے قریب پہنچی تو اندر کسی لڑکی کی تیز تیز بولنے کی آواز آ رہی تھی اور پھر دھڑاک سے دروازہ کھلا اور گل خنداں ہاتھ میں اسائنمنٹ پکڑے تیزی سے نکلتی چلی گئی. میرے تو پیر کانپنے لگے اور میں خاموشی سے اپنے ڈیپارٹمنٹ واپس آ کر اگلے پوائنٹ کا انتظار کرنے لگی. مگر یقین کرو صدف کہ صرف اور صرف پینتالیس منٹ کے اندر اندر میں نے لڑکوں کے غول کے غول کو ایڈمنسٹریشن بلڈنگ اور فزکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف مارچ کرتے دیکھا. اتنے کم وقفے میں اتنا منظم پروٹسٹ! سمجھ میں آنے والی بات نہیں. کچھ تو دال میں کالا تھا.
شبن چچا پر ٹرائل بھی ہوا اور سزا بھی تجویز کر دی گئی. ایک بار بھی وی. سی نے گل خنداں کو نہیں بلایا. بلکہ وہ تو اس دن کے بعد سرے سے ہی غائب ہو گئی تھی . شبن چچا کو ایک سال کے لئے معطل کر دیا گیا تھا.
پھر جب ہم لوگ پریکٹیکل امتحانات کے لئے واپس یونیورسٹی گئے تو گل خنداں کے اسائنمنٹ کے آخری صفحہ کی فوٹو کاپی یونیورسٹی کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے نوٹس بورڈ کی زینت تھی. طالب علموں کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا مگر اس کیس کی بڑے پیمانے پر تحشیر کی گئی. کوئی ایسا بڑا گناہ تو نہیں کیا تھا شبن چچا نے.
بس اتنا ہی تو تحریر تھا آخری صفحے پر.
عشق سے میں ڈر چکا تھا، ڈر چکا تو تم ملے
دل تو کب کا مر چکا تھا، مر چکا تو تم ملے
بےقراری، پھر محبت، پھر سے دھوکہ! اب نہیں
فیصلہ میں کر چکا تھا، کر چکا تو تم ملے.
آپ کے فیصلے کا منتظر!
شہاب الدین.
اب بتاؤ یہ کون سی ایسی گردن زدنی بات تھی؟
پوری یونیورسٹی گواہی دیتی کہ پہل گل خنداں کی طرف سے ہوئی تھی. مگر جانے اس کیس کو توڑ موڑ کر کیا رنگ دیا گیا کہ شبن چچا پر یونیورسٹی واپسی کے تمام دروازے بند ہو گئے. دو سال بعد انہوں نے پشاور اور ملتان یونیورسٹی میں بھی ٹرائی کیا مگر
“مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے”
کے مصداق گل خنداں کی کہانی وہاں بھی استقبال کے لیے موجود تھی.
ایک دفعہ جب میں پاکستان آئی تھی تو میں نے ہمت کر کے ان سے پوچھا تھا اس کیس کے متعلق . خاصی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے وہ کیس “لینا” سے بے وفائی کی سزا ہے.
میں نہیں مانتی اس بات کو شبن چچا، لوگوں کی بیویاں مر جاتیں ہیں اور وہ دوسری شادی کر کے زندگی میں آگے بڑھ جاتے ہیں اور آپ اب تک پرانی محبوبہ کو لئے بیٹھے ہیں . انسان زندگی میں آگے بڑھتا ہے. لینا ایک چیپٹر تھی پوری کتاب تو نہیں؟ آخر آپ کب تک ناکردہ بھوگتے رہے گے؟
مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور کہنے لگے جانے دو بیٹیا اب تو زندگی بسر گئی.
آج کل جوہر موڑ پر ایک فلیٹ میں رہتے ہیں اور مفت موبائل اسکول چلاتے ہیں. ان کے شاگرد زیادہ تر افغان بچے ہیں. وہ آج بھی اتنے ہی سرخے ہیں جتنے یونیورسٹی کے دور میں تھے. ہفتے میں دو دن drug rehab عیدو جی سینٹر میں والنٹیر کرتے ہیں. اب تو بہت بوڑھے ہو گے ہیں مگر وقت اور حالات سے شکست نہیں مانی.
شام میں نصرت کا فون آیا کہ آپکی فلائٹ کتنے بجے ہے؟
رات بارہ بجے. میں نے جواب دیا.
میں آٹھ بجے آپ کے پاس آ جاتی ہوں اور آپ کو ائرپورٹ ڈراپ کر دونگی. شام میں شبن چچا آئے تھے اور آپکے لئے کچھ دے کر گئے ہیں.
انتظار گاہ میں بیٹھ کر میں نے بےتابی اور احتیاط سے تحفے پر سے خوشنما ریپر اتارا اور حسب توقع اس میں کتاب تھی. ارے یہ کیا؟ یہ تو وہی کتاب ہے جس کی تلاش میں میں نے طارق روڈ اور فرئیر ہال چھان مارا تھا. مجھے بےاختیار ولیمے کی تقریب یاد آ گئ. شبن چچا نے پوچھا تھا کہ آج کل کیا پڑھ رہی ہو؟
آج کل کتابوں کی دکان پر پرانے لکھنے والوں کی کتابیں ہی نہیں ملتی میں کب سے قرت العین کی “پت جھڑ کی آواز” ڈھونڈ رہی ہو مگر کہیں ملی ہی نہیں، جدھر دیکھو عمیرہ اور نمرہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، میں شکایتی انداز میں کہا. شبن چچ ہنس دئیے.
فرنٹ پیج پر شبن چچا کی خوبصورت رائٹنگ میں لکھا تھا
میری پیاری بیٹی صباحت کے لئے،
دعاگو ہوں کہ تمہاری زندگی میں کبھی پت جھڑ نہ آئے. آمین.
شبن چچا.
کتاب کے کور پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار میری آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی . ایسے ہی ہیں میرے شبن چچا، سب کا خیال رکھنے والے درد مند و درویش. خود ہمشہ تشنہ کام رہے پر دنیا کو سیراب رکھا.
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...