"شب یلدا " یا "شب چلہ" ایرانی مہینے " آذر" (افغانستان میں ماہ قوس) کی آخری رات ( 20 اور 21 دسمبر کی درمیانی رات ) سردیوں کی پہلی رات اور سال کی سب سے لمبی رات کو کہا جاتا ہے ۔ 20 دسمبر کا دن سال کا سب سے چھوٹا دن اور رات سال کی سب سے لمبی رات ہوتی ہے۔ اس دن کو انگریزی میں winter solstice (راس الجدی) بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ "یلدا" دراصل سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ” پیدائش ” کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے"شب یلدا " وہی رات ہے جس میں حضرت عیسی (ع) کی پیدائش ہوئی تھی اور یوں اس رات کو "شب میلاد مسیح " بھی سمجھا جاتا ہے چنانچہ بعض روایات کے مطابق ایران میں یہ لفظ مسیحی لائے اور اس وقت سے لے کر اب تک یہی لفظ ایران میں رائج ہے۔
اس رات کو ایرانی تاریخ و ثقافت میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور ایران کے قدیم ترین تہواروں میں سے ایک ہے۔ آج بھی یہ رات فارسی یا ایرانی تہذیب و ثقافت کے حامل علاقوں میں بھرپور انداز میں منائی جاتی ہے۔ ایرانی تہذیب میں شب یلدا کو تاریکیوں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر سارے رشتے دار خاندان کے سب سے بزرگ شخص جیسے دادا، دادی، یا نانا، نانی کے گھر جمع ہوتے ہیں اور رات کا زیادہ تر حصہ گفتگو، ماضی کی یادوں، قصےکہانیوں اور شعر پڑھنے میں بسر کرتے ہیں۔ حافظ کے اشعار پڑھ کر سنائےجاتے ہیں اور دیوان حافظ سے فال نکالی جاتی ہے۔ شاہنامہ فرووسی پڑھنے کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ مزے دار کھانوں، خشک میووں، انار، تربوز اور دوسرے پھلوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے ۔ اس تہوار میں سرخ رنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ سرخ رنگ کے پھل خاص طور پر دسترخوان کی زینت ہوتے ہیں۔نئی نویلی دلہن اور داماد کے رشتہ دار ایک دوسرے کو تحفے تحائف بھی دیتے ہیں۔
ایران کے علاوہ ایران کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک بشمول افغانستان، ازبکستان، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا میں موسم سرما کی سب سے لمبی رات 21 دسمبر کو مناتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی اس جش کے اثرات موجود ہیں۔ آج بھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان میں بعض مقامات پر اس رات مختلف ناموں یا اسی نام سے جشن منایا جاتا ہے ۔
فارسی شاعری کے زیر اثر اردو شاعری میں بھی قدیم و جدید متعدد شاعروں نے اپنی شاعری میں شب یلدا کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے اور عاشقوں نے اپنے محبوب سے جدائی کی راتوں کو شب یلدا سے تشبیہ دی ہے۔ اردو شاعری میں "شب یلدا" تاریکی، لمبی جدائی، ظلمت، مایوسی اور ناامیدی کے استعارے کے طور پر مستعمل ہے۔ نمونے کے طور پر کچھ اشعار "شب یلدا" کے حوالے سے ملاحظہ فرمائيں:
کیا قیامت میں بھی پردہ نہ اٹھے گا رخ سے
اب تو میری شب یلدا کی سحر پیدا کر
(سید وحید الدین بیخود)
گزر گئی شب یلدا تو یہ ہوا معلوم
سرنگ پار بھی دشمن تھے ہم سفر میرے
(سید ولی عالم شاہین)
اے دل اس زلف کی رکھیو نہ تمنا باقی
حشر تک ورنہ رہے گی شب یلدا باقی
(شنکر دیال عاشق اکبر آبادی)
چھپ گیا وہ روئے رخشاں مہر عالم تاب کا
اب شب یلدا کی ہر سو ظلمتیں چھانے کو ہیں
(خوشی محمد ناظر)
ٹھوکریں کھاتی پھرے گی شب یلدائے فراق
خون روئے گی ہر اک تازہ بلا میرے بعد
(باسط بھوپالی)
حیدر شبِ یلدا کی سیہ سرد فضا میں
یہ بجھتا‘ چمکتا ہوا جگنو ہے کہ توہے
(حیدر قریشی)
کہاں پہ ڈھونڈ رہی ہے مجھے شب یلدا
ندائے صبحِ چراغاں کے انتظار میں ہوں
(شہناز مزمل)
کیوں تیز ہیں اجرام فلک اے شبِ یلدا ؟
کیا تیری طرح ان کو مرے غم کا گماں تھا ؟
(سید عاطف علی)
مطلعِ ہستی پہ ابھری یوں وہ ذاتِ عبقری
ہو شبِ یلدا میں جیسے بدرِ کامل کا ظہور
(عبد الحمید نظر لکھنوی)
عالم تو دیکھیے شب یلدا پہ نور کا
جلتے ہیں یہ چراغ کہ جلوہ ہے طور کا
(بال مکند عرش ملسیانی )