(Last Updated On: )
(شبِ قدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے)
جس طرح رمضان المبارک تمام مہینوںسے افضل اور بہتر ہے اسی طرح رمضان کاآخری عشرہ پہلے دونوں عشروں سے افضل ہے۔ حضور سرورِ کائناتﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
اولھا رحمۃ ، اوسطھا مغفرۃ واخرھا عبق من النار
یعنی رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی اور خلاصی ہے۔
اس لیے حضور اکرم ﷺرمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کاخصوصی اہتمام فرماتے تھے اور اعتکاف کرتے نیز صحابہ کرامؓ کو بھی اعتکاف کی تلقین کرتے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تورسول اکرم ﷺ کمر کس لیتے ، شب بیداری کرتے، ذکر و دُعا میں مشغول رہتے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی جگا دیتے کہ وہ ان راتوں کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند ہو سکیں۔ آخری عشرہ کی برتری اور عظمت اس لیے بھی ہے کہ اس میں ایک رات ایسی برکت اور عظمت والی آتی ہے کہ جسے قرآن مجید نے لیلۃ القدر اور لیلۃمبارکۃ سے فرمایا ہے ۔ یہی وہ مقدس رات ہے جس میں انسانی زندگی کے لیے خُدا کا آخری دستور اور انسانی فلاح کا منشور یعنی قرآن مجید نازل ہوا۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’بے شک ہم نے اسے (قرآن مجید) قدر والی رات میں اُتارا، تُو کیا جانتا ہے کہ قدر والی رات کیاہے؟ قدر والی رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)
غرض کہ آخری عشرہ میں خیر و برکت کی بڑی وجہ اس میں ایک ایسی رات کا وجود ہے جو شب نزول قرآن ہے اور اسے ہی ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں لیلۃ القدر کا تعین تو نہیں کہ وہ کون سی رات ہے تاہم اس امر پر تقریباً اتفاق ہے کہ وہ قدر و منزلت والی رات ، رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آتی ہے اور آخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں اس کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں وارد ہونے والی روایات اور احادیث اس امر کی تصدیق کرتی ہیں۔
لیلۃ القدر احادیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں
لیلۃ القدر کے متعلق سید عالم ﷺ کے ارشادات و فرمودات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس رات کا متعین نہ کرنا ہی منشائے خدا وندی ہے اور عدم تعین ہی مطلوب و مقصود ہے۔ ذیل میں ان روایات کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے جو اس سلسلہ کی وضاحت کے لیے کتب احادیث میں موجو د ہیں۔
لیلۃ القدر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ بہت سی احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ شبِ قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے چنانچہ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ۔۔۔عن عائشہ قالت قال رسول اللہ ﷺ تحر و الیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
اکیسویں رات
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرے کا اعتکاف ایک ترکی خیمے میں کیا۔ پھر آپﷺ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا:
’’میں نے عشرہ اول کا اعتکاف کیا اور اس رات (لیلۃ القدر) کو تلاش کیا ۔ بعد ازاں دوسرے عشرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتانے والے فرشتے نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہوگی۔ مجھے یہ رات دکھا دی گئی پھر بھلا دی گئی۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں صبح کو (کیچڑ) گیلی زمین پر سجدہ کر رہا ہوں لہذا آپ اس رات کو آخری عشرہ میں تلاش کریں اور اس کی سبھی طاق راتوں میں۔‘‘
ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ اسی رات بارش ہوئی چونکہ مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں سے بنی ہوئی تھی لہذا وہ ٹپک پڑی۔ میں نے صبح کے وقت آنحضرتﷺ کے چہرئہ اقدس کی طرف دیکھا تو آپﷺ کی پیشانی مبارک پر گیلی مٹی کا نشان تھا۔ یہ واقعہ اکیسویں رات کا ہے۔ اس روایت سے سیدنا ابو سعید خدریؓ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی بتائی ہوئی نشانی کے مطابق اس سال لیلۃ القدر اکیس رمضان المبارک کو تھی اور یہ کہ نبی کریم ﷺ نے پہلی مرتبہ اکیس ویں رات کو لیلۃ القدر پائی۔
تئیسویں رات
عبداللہ بن انیس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کی کہ میں ایک دیہات میں رہتا ہوں اور الحمدللہ نماز پڑھتا ہوں۔ آپﷺ مجھے اس خاص رات کے متعلق بتا دیں کہ میں اس رات اس مسجد(مسجد نبویؐ) میں آ جایا کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم تئیسویں رات میں ا ٓ جایا کرو (ابودائود)۔ اس روایت کو عام محدثین نے لیلۃ القدر سے متعلق کہا ہے اور اسے باب لیلۃ القدر میں درج ہے ۔ اس سے قطعی طور پر یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ حضور اکرمﷺ نے حضرت عبداللہ انیسؓ کو متعین طور پر ۲۳ ویں رات کی نشاندہی فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تئیس ویں رات بھی ہوتی ہے اور آئندہ بھی ہو سکتی ہے۔
پچیسویں رات
عبادہ بن الصامت روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے کہ ہمیں لیلۃ القدر سے متعلق بتائیں تو راستے میں دو مسلمان باہم اُلجھ رہے تھے ۔آپﷺ نے فرمایا کہ میں تو اس لیے آیا تھا کہ تمھیں لیلۃ القدر اطلا ع دوں مگر فلاں شخص کی آپس کی لڑائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے (اس کے تعین کو) اسے اُٹھا لیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہی تمھارے لیے بہتر ہو (بخاری شریف)۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات پچیسویں تھی۔
ستائیسویں رات
رزبن جیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی کعب سے پوچھا کہ آپ کے بھائی حضرت مسعود فرماتے ہیں:
’’جو سال بھر قیام اللیل کرے گا وہ لیلۃ القدر پائے گا۔‘‘
حضرت ابی بن کعب نے جواباً فرمایا اللہ ان پر رحم کرے ۔ وہ خیال فرماتے ہوں گے کہ کہیں لوگ متوکل ہو کر نہ رہ جائیں (یعنی رمضان کی آخری راتوں کے انتظار میں قیام اللیل ہی نہ چھوڑ بیٹھی) ورنہ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان میں ہوتی ہے اور رمضان کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور ستائیسویں کی رات ہوتی ہے پھر انھوں نے پورے وثوق کے ساتھ قسم کھائی کہ وہ ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اے ابو منذر(کنیت حضرت ابی بن کعب) آخر آپ کس بنیاد پر ایسا کہتے ہیں؟ فرمایا کہ ان کی علامات کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں جو ہمیں رسول پاک ﷺ نے بتائی تھیں۔ ’’کہ اس کا (رات کا) سورج اس وقت طلوع ہو گا کہ اس کی شعاعیں مدھم ہوں گی۔‘‘ (مسلم شریف)
انتیسویں رات
اجمالی طور پر بہت سی روایات ہیں جن میں انتیسویں رات کے ’’شبِ قدر‘‘ ہونے کا تذکرہ موجود ہے۔ غرض کہ عظیم المرتبت رات امت مسلمہ کے لیے خدا ئے رحیم و کریم کا بہت بڑا انعام اور ایک معمولی عطیہ ہے۔ جس سے ہر مسلمان حسبِ توفیق فیض یاب اور بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ ان مذکورہ راتوں میں ہر رات اگر تھوڑا سا اہتمام کر کے ذکر وفکر کر لیا جائے ، مغفرت اور بخشش مانگ لی جائے تو کسی بھی فرد کے شبِ قدر سے محروم ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں کے ہاں غلط طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر کسی آن واحد کا نام ہے جو پل بھر میں گزر جاتی ہے اور شاید ہی کوئی قسمت والا اس سے مستفید ہو پاتا ہے۔ یہ تصور انتہائی عامیانہ ہے اور قرآن کریم کی صراحت کی قطعی منافی ہے۔ سورۃ القدر میں ارشاد ربانی ہے کہ رات مسلسل شبِ قدر رہتی ہے۔ غروب آفتاب سے لے کر طلوعِ صبح تک۔ حیی حتی مطلع الفجر۔یعنی وہ رات فجر کے نمودار ہونے تک ہوتی ہے۔اس گراں بہا کی قدر کرنی چاہیے۔ اسے غفلت ، لاپرواہی یا ہنگامہ ہائو ہُو کی نذر نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی نمائشی طور طریقے اپنانے چاہییں۔ یہ طلب مغفرت کی رات ہے۔ اس میں انفرادی اور اجتماعی بھلائی کی دُعائیں ہونی چاہییں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سرورِ عالم ﷺ سے پوچھا کہ اگر مجھے لیلۃ القدر میسر آ جائے تو میں کیا کروں ۔ فرمایا یہ دُعا کرو:
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (ابن ماجہ)
اے اللہ! تو سراپا در گزر کرنے والا ہے اور درگزر کو پسند کرتا ہے ۔ میرے گناہوں کو معاف کر دے۔
جسٹس محمد الیاس ، لیلۃ القدر کی فضیلت و اہمیت کو منظوم کرتے ہیں:
یہ لیلۃ القدر رات ہے جو ہزار مہ سے کہیں ہے بہتر
ہے اس کی وہ شان جس کی خاطر خُدا کا واضح کلام آیا
نزول قرآن کی یہ شب ہے ، حصول فرقان کی یہ شب ہے
زمین تاریک پر اس شب اُتر کے ماہ تمام آیا
یہ وہ مقدس ہے رات جس میں دُعائیں سب ہیں اثر بداماں
ملا ہے سائل کو اس میں وہ کچھ زباںپہ جس کا ہے نام آیا
خُدا سے جو چاہیے وہ مانگو ، خُدا بڑا مہرباں ہے امشب
سمیٹو دُنیا و دیں کی دولت کہ اس کا ہے اذن عام آیا
٭…٭…٭