شب براؑت جوشب بارات تھی
میں خط تقسیم کے اس پارکے وقت میں دیکھتا ہوں جب میں دس سال کا تھا تو دہلی کے نواح میں سویوں والی عید اوربکرے والی عید سے پہلے حلوے والی عید پڑتی تھی۔ایمانداری کی بات ہے کہ اس کے دینی مطالب ہم پر واضح نہ تھے۔میری عمر کے مسلمان لونڈے اسے ہندووں کی دیوالی کے مقابلے کا تہوار سمجھتے تھے۔وہ گھروں میں دےؑ جلاتے تھے۔ہم موم بتیاں روشن کرتے تھے۔صحن کی دیوار سے چھت کی منڈیر تک جہاں جگہ ہو ہندو کڑوے تیل یعنی سرسوں کے تیل سے بھرے مٹی کے دیوں میں ہاتھ سے بٹی رویؑ کی بتی ڈال کے اندھیرا ہوتے ہی جلا دیتے تھے ہم موم بتیوں کے پیکٹ لاتے تھے جس میں ہر رنگ کی موم بتی ہوتی تھی۔ایک پیکٹ میں شاید درجن یا دو درجن ہوتی تھیں۔شام ہوتے ان کو روشن کرکے ہر جگہ نصب کر دینا ایک چیلنج تھا۔اندھیرا ہوتے ہی انہیں جلانے کی بے تابی ہوتی تھی اور اس چراغاں کا مقابلہ پہلا راونڈ تھا۔دوسرے راونڈ میں آتشبازی کا مقابلہ آ جاتا تھا۔
چھوٹے بڑے پٹاخوں کی گونج سے فضا بھر جاتی تھی۔زیادہ دلچسپ چیز پھلجڑی تھی یا ہوایؑ۔؎ یہ ہوایؑ کسی دشمن نے اڑایؑ ہوگی ۔۔ پورا شعر یاد نہیں۔۔ایک لمبی پتلی ڈنڈی کے اوپر دو انچ کے رنگین کاغذ کی پٹاخے جیسی چیز لگی ہوتی تھی، اس کے نچلے حصے میں دھاگے جیسا بارود کا فتیلہ۔۔ہوایؑ کو کسی گلاس میں ایک خاس زاویے پر کھڑا کرکے فتیلے کو ماچس دکھاتے تھے تو" شوں" کی اواز کے ساتھ ہوایؑ آسمان کا رخ کرتی تھی اور پیچھے ستارے چھوڑتی جاتی تھی دھڑکتے دل کے ساتھ ہم آسمان کو تکتے تھے کہ ہوایؑ کس بلندی کو پہنچتی ہے چند سیکنڈ میں ستارے بجھ جاتے تھے،جو ہوایؑ پرواز سے پہلے ہی "پھس" ہو جاےؑ بڑا مایوس کرتی تھی۔اب آتشبازی پر پابندی ہے لیکن سنا ہے سرکاری انتظام میں آتشبازی کیلےؑ بڑے بڑے ماہرین لاہور میں ہیں جو فضا کو رنگین اور روشن بناتے ہیں تو آسمان کو رنگ ونور کی تحریر و تصویر سے سجا سکتے ہیں
گھروں میں طرح طرح کے حلوے پکانے کا مقابلہ تھا۔ ہر گھر سے دوسرے گھر حلوا بھیجا جاتا تھا۔اس میں ہندو مسلمان کی تخصیص نہ تھی۔کواتیں سب کو چکھ کر فیصلے صادر کرتی تھیں کہ"اچھا ہے" یا ،،،گزارا ہے۔۔یا بےکار ہے۔ شب برات کے بعد مقابلہ جیتنے والے حلووں کی ترکیب پوچھی جاتی تھی۔رات گےؑ مقابلہؑ کفرو اسلام کے مضاہد نکلتے تھے۔ہاتھ میں چھوٹی بڑے بانس۔۔ان کت اوپر لوہے کے تار لا کنڈا سا۔۔ کویؑ لونڈا" میدان خالی ہے" کا سگنل سیٹی بجا کے دیتا تھا،بانس بردار بانس اونچا کر کے یوں دوڑتا تھا کہ کنڈا دیوار کی منڈیر پر روشن دےؑ گراتا جاےؑ۔۔ ایک دم شور اٹھتا تھا۔۔" ارے پکڑو سالے مسلے کو"، مجرم پکڑا جاتا تو گو شمالی کیلےؑ ماں باپ کے پاس لایا جاتا ورنہ جاےؑ واردات پر بھی خاطر تواضع ہو جاتی تھی۔یہ حرکت شب برات پر ہندو لونڈے کرتے تھے مگر مجال ہے جو دلوں میں میل آجاےؑ۔۔فساد کا تو سوال ہی نہ تھا کیونکہ دونو طرف کے مجرموں کے ابا اپنے بچپن میں یہ کرتے آےؑ تھے
اب شب برات کا مفہوم بدل گیا ہے۔میں کسی شرعی تاویل کی بات نہیں کروں گا،اس وقت ہم کبھی رات کو قبرستان نہیں گےؑ تھے کیونکہ وہ ہمارا آبایؑ
گھرنہ تھا جھاں کویؑ خاندانی قبرستان ہوتا ،شب برات کے حلوے کے خلاف اور حق میں کسی جوازکے بغیرآج ہم ایک خاندانی روایت نبھا رہے ہیں۔کراچی میں قبرستان جانا ایک معمول ہے جہاں اب میرے والد کی قبر ہی باقی ہے۔والدہ کی قبر کو چند ماہ بعد ہی لینڈ مافیا نے برابر کر دیا تھا فاتحہ خوانی کرنے والوں میں ان کے پوتے پڑپوتے شا،ل ہیں۔رہے نام اللہ کا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔