آج – 16/اکتوبر 1917
لکھنؤ کے اندازِ شاعری سےالگ ہٹ کر اپنی شاعری کے لئے نیا انداز وضع کرنے کے لئے مشہور اور معروف شاعر” شاعرؔ لکھنؤی صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام محمد حسن پاشا، قلمی نام شاعرؔ لکھنؤی، لکھنؤ کے روایتی انداز شاعری سےالگ ہٹ کر اپنی شاعری کے لئے نیا انداز وضع کرنے کے سبب جانے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فرمان فتح پوری نے انہیں لکھنؤ کا غیر لکھنوی شاعر قرار دیا ہے۔ ان کی پیدائش لکھنؤ میں ١٦؍اکتوبر ١٩١٧ء کو ہوئی۔
لکھنؤ کے شعر وادب کے ماحول میں تربیت اور اساتذۂ سخن کی قربت نے ان کے شعری ذوق کو جلا بخشی اور بہت چھوٹی عمر میں اچھی شاعری کرنے لگے۔
١٩٤٨ء میں وہ پاکستان چلے گئے، کسب معاش کے لئے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ ’پاکستان ہمارا ہے‘ کے عنوان سے ان کے ریڈیو فیچر بہت مقبول ہوئے۔ شاعرؔ لکھنوی نے بچوں کے لئے نظمیں بھی لکھیں۔
شاعرؔ لکھنوی ٢٣؍ستمبر ١٩٨٩ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔
کتنے دل تھے جو ہو گئے پتھر
کتنے پتھر تھے جو صنم ٹھہرے
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر شاعرؔ لکھنؤی کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے
یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے
جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسن چمن سہی
مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے
نہ ہے شاعرؔ اب غمِ نو بہ نو نہ وہ داغِ دل نہ وہ آرزو
جنہیں اعتماد بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے
─━━━═•✵⊰••••••••••••⊱✵•─━━━═
ہوا کو اور بھی کچھ تیز کر گئے ہیں لوگ
چراغ لے کے نہ جانے کدھر گئے ہیں لوگ
سفر کے شوق میں اتنے عذاب جھیلے ہیں
کہ اب تو قصدِ سفر ہی سے ڈر گئے ہیں لوگ
دھواں دھواں نظر آتی ہیں شہر کی گلیاں
سنا ہے آج سرِ شام گھر گئے ہیں لوگ
جہاں سے نکلے ہیں رستے مسافروں کے لئے
مکان ایسے بھی تعمیر کر گئے ہیں لوگ
کبھی کبھی تو جدائی کی لذتیں دے کر
رفاقتوں میں نیا رنگ بھر گئے ہیں لوگ
ملال ترکِ تعلق نہ جانے کیا ہوتا
خیال ترکِ تعلق سے مر گئے ہیں لوگ
غرور تند ہواؤں کا یوں بھی توڑا ہے
چراغ ہاتھ پہ رکھ کر گزر گئے ہیں لوگ
کوئی جواب نہیں فکر کی بلندی کا
زمیں پہ رہ کے بھی افلاک پر گئے ہیں لوگ
قریب تھے تو فقط واسطہ تھا آنکھوں سے
جدا ہوئے ہیں تو دل میں اتر گئے ہیں لوگ
وہ گیسوؤں کی گھٹا ہو کہ دار کا سایہ
جہاں بھی چھاؤں ملی ہے ٹھہر گئے ہیں لوگ
یہ اور بات کہ گھر بجھ گئے ہیں اے شاعرؔ
مگر وطن میں چراغاں تو کر گئے ہیں لوگ
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شاعرؔ لکھنؤی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ