اکادمی ادبیات کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو نے جب بتایا کہ اکادمی کے پروگرام
Meet The Writer
کے تحت ’’اکادمی کیفے‘‘ میں ان سطور کے لکھنے والے کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا گیا ہے تو تعجب ہوا ع
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
جس طرح قومی زندگی کے ہر شعبے پر رنگ رنگ کے مافیا چھائے ہوئے ہیں، اسی طرح ادب پر بھی مافیا چھایا ہوا ہے۔ اخبارات کے ادبی صفحات کا مافیا‘ پبلشر حضرات کا مافیا‘ بیرون ملک مشاعروں کا مافیا جو اب شعراء کے لیے انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکا ہے‘ اردو کے نام پر کانفرنسوں کا مافیا‘ انعامات‘ ایوارڈز اور تمغوں کے پیچھے دوڑنے والا اور دینے والا مافیا‘ ادب سے متعلق سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی کرسیوںکو کن انکھیوں سے دیکھنے والا مافیا‘ غرض ادب بیچارہ ایک اور ادب پیشہ مافیا لاتعداد۔ بقول منیر نیازی ؎
ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے
ایک صوتِ گنگ جیسے گنبدوں کے سامنے
مونث ہوتا تو اس صورت حال میں ادب کنیز کہلاتا، مگر تذکیر کی بدولت اس کا شمار غلمان میں ہونے لگا۔
اکادمی کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ایک طویل داستان ہے تفصیل جس کی پھر کبھی سہی۔ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔
ڈاکٹر قاسم بگھیو نے آ کر ایک نیا آغاز کیا ہے۔ مافیا کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ تعلقات دیکھے نہ روابط۔ ملاقاتیں شمار کیں نہ ’’خدمات‘‘! ہم جیسے گوشہ نشینوں کو گھر سے اٹھایا۔ سامنے لا بٹھایا‘ شاعروں اور ادیبوں کو جمع کیا اور انہیں صلائے عام دی کہ پوچھو! رائٹر سے سوال پوچھو! اس کے فن کے بارے میں‘ اس کی زندگی کے بارے میں! اور ہر وہ سوال جو اس کی تحریریں پڑھتے وقت ذہن میں آتا ہے اور جواب مانگتا ہے!
ڈاکٹر بگھیو کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی ٹیم میں اختر رضا سلیمی جیسے فعال اور بے لوث افسر موجود ہیں جو ڈیوٹی کو ذاتی کام جیسی اہمیت دیتے ہیں‘ اختر رضا سلیمی کا ایک شعر تو ضرب المثل ہی بن چکا ہے ؎
پھر اس کے بعد گر گیا سونے کا بھائو بھی
اک شام اس نے کان سے جُھمکا اتارا تھا
اس کا پہلا ناول ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ ایک نئے انوکھے لینڈ سکیپ کو لے کر اترا ہے‘ اور یہ محض آغاز ہے۔
اس لکھنے والے کی خوش بختی تھی کہ نہ صرف جڑواں شہروں کی کریم اکٹھی تھی‘ بلکہ لاہور‘ ایبٹ آباد اور پشاور سے بھی دوست مسافت قطع کر کے آئے ہوئے تھے۔ سرفہرست یار دیرینہ شاعرنغز گو حلیم قریشی تھے چالیس سالہ رفاقت کو چند بلیغ فقروں میں سمو دیا۔ کیسے کیسے شعر کہے ہیں حلیم قریشی نے ؎
نہ جانے روٹی کے ان نوالوں پہ کس کا حق ہے
گلے سے اترے جو ایک تو دوسرا نہ اترے
او ر ؎
اے منتظم ہستی! اک چھوٹی سی خواہش ہے
اُس دن مجھے جینے دے جس روز قضا اترے
سعود عثمانی لاہور سے تشریف لائے۔ ان کا ایک شعر تو ورد زبان ہی رہتا ہے ؎
میں رفتگاں کے بنائے مکاں میں رہتا ہوں
کسی کے خواب سے کرتا ہے استفادہ کوئی
خاکسار کی نثری نظموں اور کالم نگاری پر سعود نے بھرپور گفتگو کی! سچی بات ہے اُس دن معلوم ہوا کہ یہ شاعر گفتگو بھی کمال کی کرتا ہے!
قیوم طاہر کے تلہ گنگ کو لیجنڈری شاعر جعفر طاہر نے کیا اچھوتا خراج پیش کیا ہے ؎
گل و گلزار کے اورنگ ہمہ رنگ پہ یہ نغمہ و آہنگ مرے
جھنگ و تلہ گنگ کی بہتی ہوئی لے
(یہ ایک مصرع ہے) افسوس! جعفر طاہر کو ہم نے بھلا دیا! ایک پورا کالم ان پر لکھنے کا ارادہ ہے!
قیوم طاہر نے دلکش گفتگو کی۔ شعر کیا خوب کہتے ہیں ؎
دیکھ یہ میری آنکھ ہے‘ دیکھ یہ میرے سارے رنگ
دیکھ یہ میں ہوں‘ میں ابھی خواب و خبر ہوا نہیں
یہاں حسن عباس رضا بھی تھا! نیویارک کی وہ اداس ملگجی شام نہیں بھولتی جب حسن عباس رضا انتظار میں حلقہ ارباب ذوق کی عمارت کے باہر کھڑا تھا۔ دیکھتے ہی لپٹ گیا۔ اور شاعری کو اُس نے اچھوتی زمینیں اور نئی ردیفیں دیں ؎
نمی دانم کہ مجھ سے کیوں گریزاں ہے مرا سایہ
مرا ہو کر بھی کیوں مجھ میں نہیں رہتا؟ نمی دانم
بہت کم عمر میں افسانے اور تنقید کی قلمرو پر اپنا جھنڈا نصب کرنے والے حمید شاہد نے پرانے وقتوں کے حوالے سے گفتگو کی! اُس کے والد اور لکھنے والے کے والد پنڈی گھیپ کے گوشہ گیر مگر دلفریب قصبے میں باہم دوست تھے۔ اُس کے چچا میرے ہم جماعت تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ حمید شاہد کی نثر کا طوطی ہندوستان میں بھی بولتا ہے۔
’’ہم آگ چراتے ہیں‘‘ کے خالق ڈاکٹر وحید احمد تھے۔ صاحب شام کا ایک بھولا بسرا شعر سنایا ؎
شام سے ایک عمر چھپتے رہے
دن ڈھلے سوئے‘ نیم شب جاگے
اور امیجری اور ڈکشن کے حوالے سے گفتگو کی!
نظم گو وحید احمد غزل کہتا ہے تو مضامین لاتے ہوئے جیسے بادلوں میں شگاف کر دیتا ہے ؎
اندھے نے اپنے ہاتھ پہ آنکھیں اگائی ہیں
چھونے کی دیر ہے‘ تجھے پہچان جائے گا
شنکیاری سے آئے ہوئے میجر امان اللہ نے وہ سوالات کئے جو بنیادی اہمیت کے حامل تھے اور شاعر کی شاعری کو سمجھنے کی کلید تھے۔ یہ ایک طولانی داستان ہے جو کہیں اور لکھی جائے گی۔ مانسہرہ سے ڈاڈر تک کا علاقہ دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ہے اور امان کی شاعری اُس خوبصورتی کی نمائندگی کرتی ہے۔ پشاور سے شاعر، ڈرامہ نگار اور پی ٹی وی کے مانے ہوئے پروڈیوسر عزیز اعجاز آئے ہوئے تھے۔ وہ جو غلام محمد قاصر نے غزل کہی تھی ؎
مکاں خالی نہیں رہتا ہے قاصر
کبھی شہلا کبھی شہناز دل میں
تو اُس غزل میں قاصر نے یہ بھی کہا تھا ع
کہے گا کیا عزیز اعجاز دل میں
ناصر علی سید آئے مگر گفتگو نہیں کی۔ پشاور کا جو زمانہ ان کی اور میری آوارہ گردی کا تھا‘ خواب و خیال ہوا مگر ملتے ہیں تو یادیں گھٹا بن کر گھرِ آتی ہیں!
پشاور! میرا داستانوی شہر! افسوس! جسے کچھ انتہا پسند لوگوں نے کچھ کا کچھ بنا دیا!!
اپنے نامور والد خلیق قریشی کا نام روشن کرنے والے انجم خلیق تھے۔ ہمیشہ کی طرح سراپا محبت! جتنی خوبصورت نظم اس فقیر کے بارے میں لکھی اور سنائی‘ شاید مستحق نہ تھا مگر دوستوں کی فیاضی استحقاق نہیں دیکھتی‘ اپنی دریادلی دیکھتی ہے! بہن عائشہ مسعود نے ہمیشہ کی طرح بھائی کی محبت کا حق ادا کیا اور دل آویز گفتگو کی۔ دارالحکومت کی تنظیم ’’گوشہ ٔ ادب‘‘ چالیس برس سے زیادہ عمر کی ہو چلی ہے۔ اس عفیفہ کی خدمت جس طرح وفا چشتی اور شیدا چشتی کر رہے ہیں‘ انہی کا حصہ ہے۔ دریائے تصوف کے پیراک وفا چشتی نے نکات و اسرار سے بھرپور گفتگو کی! کیا آہستگی تھی اور اس میں بھی کیا روانی تھی! اپنی شاعری کو نعت رسولؐ کے لیے وقف کر دینے والی اور اپنے درویش والد انوار فیروز مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بن جانے والی نیک اولاد‘ نورین طلعت عروبہ بھی تھیں! ٹیکسلا کی کہکشاں کے ستارے حفیظ اللہ بادل‘ کرنل شہاب عالم اور راکب راجہ تھے! نوجوان پروفیسر اور علم اور زندگی سے بھرپور منیر فیاض اور سعید احمد تھے! میرے فتح جنگ کے نامی گرامی شاعر سجاد بلوچ تھے اور ان کی بیگم عنبرین صلاح الدین! خوش لباس ضیاء الدین نعیم تھے۔ ادبی تنظیم کو ایک ماہر انجینئر کی طرح چلانے والے رحمن حفیظ تھے۔ نسیم سحر تھے۔ جنید آذر تھے‘ افتخار یوسف تھے اور کچھ اور دوست بھی! اور سب سے بڑھ کر وہاں میری بیٹی مرضیہ شاہین بھی تھی جو میرے کھانے پینے اور آرام کا یوں خیال رکھتی ہے جیسے میں کوئی بچہ ہوں…اور ہاں! میری بیگم بھی تقریب میں موجود تھیں! جب احباب میری جلالی طبیعت کا ذکر کر رہے تھے تو وہ مسکرا رہی تھیں! اس مسکراہٹ میں یقیناً تصدیق کا پہلو تھا! غالباً یہ فارسی ادب سے اُن کے شغف کا اثر ہے کہ کمال کی قوت برداشت کی مالک ہیں!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔