شام کا تنازع، نئی سرد جنگ میں شدت
شام پر امریکی میزائل حملوں کے بعد یہ بات غلط ثابت ہوگئی ہے کہ امریکہ، مشرقِ وسطیٰ سے نکلنا چاہتا ہے اور یہ کہ وہ اب اپنے آپ کو عالمی تنازعات میں داخل نہیں کرے گا۔ کیا شام کا مسئلہ بشارالاسد کو اقتدار سے باہر کرنا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر عراق اور لیبیاکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ عراق سے صدام حسین اور لیبیا سے کرنل قذافی کو اقتدار سے نکالنا امریکی سامراج کا ایجنڈا نہیں تھا۔ اگر معاملہ صرف Regime Change ہوتا تو ان ممالک میں فوجی مداخلت میں اربوں ڈالر جنگ میں غرق کرنے اور ان ملکوں کو جنگی میدان نہ بنایا جاتا۔ اِن حکمرانوں کو اقتدار سے نکالنے کے متعدد سیاسی اور جمہوری طریقہ کار ہوسکتے تھے۔ اور ایسا ہی معاملہ شام کا ہے۔ بشار الاسد کے خلاف جب عوامی تحریک ابھری تو وہ تحریک دیگر عرب ممالک میں برپا ہونے والی تحریکوں سے زیادہ طاقتور اور پُرامن تھی۔ یہ امریکہ ہی ہے جس نے اس پُرامن تحریک پر مسلح گروہوں کو فوقیت دی اور یوں بشارالاسد کے خلاف مذہبی بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر گروہوں کو منظم کیا گیا۔ اُن کو اسلحہ اور مالی امداد کے انتظامات کیے گئے۔ اس ساری منصوبہ بندی کے بعد شام جہاں کھنڈرات میں بدلنے لگا، وہاں مشرقِ وسطیٰ کا یہ پُرامن ملک ایک نیا جنگی اکھاڑہ بنا۔ لاکھوں شامی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ایک مضبوط ریاست کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے پُراسرار انداز میں داعش کا ظہور ہوا جس پر روسی صدر نے 2015ء میں انطالیہ (ترکی) میں G20کانفرنس میں سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے بیس بڑوں کے سامنے وہ ثبوت پیش کیے کہ داعش کے دہشت گرد تیل کس کو سپلائی کرتے ہیں اور اس میں کون لوگ اور ملک ملوث ہیں۔ یہ سارے ثبوت ایک ویٹو پاور رکھنے والے ذمہ دار ملک نے فراہم کیے تھے جس سے ثابت ہواکہ اس مسلح گروہ کا سرپرست کون ہے جس نے اس دہشت گرد تنظیم کو دنیا کی مال دار تنظیم بننے کے مواقع فراہم کررکھے ہیں۔ جو لوگ یہ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ امریکہ، دنیا میں جنگوں سے نکلنا چاہتا ہے، وہ امریکی سامراج کی ساخت سے واقف ہی نہیں۔ شام میں امریکہ کے مفادات بشارالاسد کو اقتدار سے باہر نکالنے سے زیادہ بڑے ہیں۔ سرفہرست خطے کی مضبوط ریاستوں کو گرنے پر مجبور کرنا، علاقائی حکمرانی اپنے ماتحتوں کے ذریعے کرنا اور بڑھتے بڑھتے یہ دائرہ کار مشرقِ وسطیٰ سے وسطی ایشیا اور کاکیشیا تک پھیلا دینا، یہی وہ وجہ ہے جس پر روسی فیڈریشن، شام میں امریکی مداخلت کے خلاف کھڑی نظر آ رہی ہے اور وہ شام میں امریکہ اور مسلح دہشت گردوں کے سامنے عسکری مداخلت کرنے میں مصروف ہے۔ شام میں روس کی مداخلت اس منصوبہ بندی میں رکاوٹ کھڑی کرنا ہے۔ امریکہ نے جہاں یورپ میں روس کے گرد ناٹو کھڑی کرکے ایک فوجی حصار قائم کررکھا ہے، وہیں اس نے خطے میں روس کے گرد دہشت گردی کا ایک حصار پھیلا رکھا ہے۔ اگر امریکہ، کاکیشیا اور وسطی ایشیا تک دہشت گردی کا یہ دائرہ پھیلا دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو امریکہ کے لیے یہ حکمت عملی ناٹو کے عسکری اتحاد سے زیادہ سودمند ثابت ہوگی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور کاکیشیا کے یہ ممالک مسلمان ہیں اور یوں وہ ان خطوں میں فرقہ وارانہ دہشت گرد صف بندی کرنے میں بھی کامیاب ہورہا ہے۔ ایک طرف روس کے خلاف دائرہ تنگ کرنا اور دوسری طرف افسوس کے ساتھ دہشت گردی اور اپنی تباہی میں خودمختار مسلم آبادی رکھنے والی قوموں اور ریاستوں کو اندرونی طور پر برباد کرنا شامل ہے۔ اس میں اب ترکی کے حوالے سے بھی امریکہ کو کامیابی نظر آرہی ہے۔ امریکہ جہاں ترکی کا اتحادی ہے، وہیں اس کے لیے اس مضبوط ریاست کا وجود اس عالمی دہشت گردی کے سامنے ایک رکاوٹ ہے۔ ایسے میں جہاں ترکی کے اندر دہشت گردوں کو پنپنے کے مواقع مل رہے ہیں، وہیں ترکی اندرونی طور پر سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ ایک انتشار زدہ، جابر حکمرانی والا ترکی، امریکہ کے لیے بہت سوٹ کرتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو ترکی کو اندرونی طور پر کمزور کرنے میں مددگار ہوگا، بالکل 1977ء کے بعد والا پاکستان۔ اسی لیے میں ایک عرصے سے اس عمل کو Pakistanization of Turkey کہتا آیا ہوں۔
شام پر حالیہ امریکی میزائیل حملے پر فرانس، برطانیہ، سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ترکی نے مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ وہی مجبوری ہے جو شروع دن سے پاکستان کے حکمرانوں کو لاحق رہی ہے،یعنی امریکہ کا ساتھ دو چاہے اپنے ہاں شکست کا عمل تیزتر ہو۔
لیکن دمشق پر امریکی میزائیل حملوں کو روسی صدر پوتن نے کھلی جارحیت قرار دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ سفارتی سطح پر اس کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ روس نے بحیرۂ روم میں اپنے بحری بیڑے کو متحرک کرنے کا آغاز کیا اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہم امریکی فوجی مداخلت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔ روس سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ دنیا کے کسی خطے میں یوںامریکی جنگی مداخلت کا جواب دیتا نظر آ رہا ہے۔ روس کو یہ یقین ہے کہ اگر امریکہ کی علاقائی جارحیت کو بھرپور انداز میں نہ روکا گیا تو دہشت گردی اور جنگ کے یہ شعلے اس کی سرحدوں کو چھونے لگیں گے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے امریکہ کے لیے ایسے جنگی کھیل امریکہ کی اپنی سرحدوں کو تو نقصان پہنچانے سے قاصر رہے، اور اگر ایک دو معمولی دہشت گردی کے واقعات وہاں دو چار سال بعد ہو بھی گئے تو امریکہ اس دہشت گردی کا واویلا کرنے ، مسلمانوں اور مسلم ریاستوں کو دھمکانے کے مواقع پا لیتا ہے۔مسلم ریاستوں کے اندر متحرک یہ مسلح اور دہشت گرد گروہ کسی بھی طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کسی نقصان کا باعث نہیں بن سکتے بلکہ یہ گروہ ان ریاستوں کو تباہی میں خودکفیل بنائے ہوئے ہیں۔ اس سارے تناظر میں شام کا مسئلہ روس اور امریکہ کے مابین ایک فیصلہ کن مقام ہے۔ گو ترکی امریکہ کا اتحادی ہے، لیکن پچھلے ایک سال سے روس ترکی تعلقات میں یکدم بہتری، امریکہ کے لیے تکلیف دہ ہے۔ شام کا مستقبل کیا ہے، یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ روس، امریکہ کو شام کے معاملے میں کسی طور بھی کھلی چھٹی دینے کو تیار نہیں۔ اگر ہم روس کا پچھلے تین چار سالوں کا جائزہ لیں تو روس نے سرد جنگ کے بعد متعدد مشرقی یورپی ممالک میں بھی اثرورسوخ قائم کرنا شروع کر دیا ہے جو سرد جنگ کے بعد اشتراکی روس سے نکل کر امریکی جھولی میں جا گرے تھے۔ اور یوں مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا، کاکیشیا اور یورپ تک پھیلے خطوں میں ایک سرد جنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔
“